86

طاقت کے مراکز پاکستان میں بھی تبدیل ہوں گے؟

رمضان کا مقدس مہینہ مبارک۔

پاکستان کی زمین،آسمان دونوں بہت اُداس ہیں۔

سمندر اپنی موجوں کے تحفظ کیلئے فکرمند ہے۔ سندھو ندی کے دونوں کناروں پر اجڑے چہرے، گرد آلود پیشانیاں دیکھ کر اندر ہی اندر رورہی ہے۔ چناب اپنے بیلوں میں دُکھ کی خودرو جھاڑیوں کی بہتات دیکھ کر کناروں سے بغاوت کرنے پر آمادہ ہے۔ جہلم کو پشیمانی ہے کہ تیمور کے گھر سے حمیت نام کی شے اغوا کرلی گئی ہے۔ راوی۔ ستلج کے تو اپنے غم ہی کم نہیں ہوتے۔ اونچی لمبی ٹاہلیوں سے پینگیں دہشت گردی میں استعمال ہونے کے الزام میں اتارلی گئی ہیں۔بلھے شاہؒ کی آواز آرہی ہے :’’ زمانے الٹے آگئے ہیں۔کوّے لگڑ بگوں کو کھانے لگے ہیں۔ چڑیوں نے گندم چگ لی ہے۔ گھوڑے گندگی میں منہ مار رہے ہیں۔ گدھے عیش کررہے ہیں۔ اپنوں میں پیار نہیں رہا۔ کیا چچے۔ کیا تائے۔ باپ بیٹوں میں اتفاق نہیں۔ بیٹوں کے ساتھ مائیں نہیں ہیں۔ سچ بولنے والوں کو دھکے مارے جارہے ہیں۔ جھوٹوں کو مسند پر بٹھایا ہوا ہے۔ آگے آگے جو ہیں۔ کنگلے ہوگئے۔ پیچھے جو ہیں قالین بچھائے ہوئے ہیں۔ اچکے راجے بن گئے ہیں۔ اصلی راجے بھیک مانگ رہے ہیں۔‘‘صوبہ سب سے بڑا ہے مگر صوبیدار بہت چھوٹے ہیں۔ زمین بہت زرخیز ہے۔ لیکن زمینوں پر مسلط نمبردار بنجرہیں۔ صدیوں سے ثقافت اور ادب سے مالا مال، بیلے، دو آبے سرپیٹ رہے ہیں کہ ملنگی ۔ کھرل کی پیڑیاں اتنی بے مہر کیوں ہوگئی ہیں۔

22کروڑ جفاکشوں ۔ انتہائی اہم جغرافیائی حیثیت۔ 60فی صد نوجوان آبادی ۔ قدرتی وسائل ۔ سونے تانبے تیل گیس قیمتی پتھروں۔ یورینیم۔ فولاد سے بھرے کوہساروں۔ ریگزاروں والی وادیٔ سندھ افلاس کی علامت بنادی گئی ہے۔ کھڑی فصلیں فریاد کررہی ہیں۔ اے سارے جہانوں کے مالک اتنی عظیم زرخیز زمین کے نگران اتنے عظیم۔ اور بصیرت والے کیوں نہیں ہیں۔ہم دنیا سے ویسے ہی پچاس ساٹھ سال پیچھے چلے آرہے ہیں۔ اور اس موسم بہار سے تو ایسی بد بختی آئی ہے کہ ہم روزانہ دس پندرہ سال مزید پیچھے چلے جاتے ہیں۔ ایسی ناکام پالیسیاں۔ روزانہ ہزاروں ہم وطن غربت کی لکیر سے نیچے بھیڑ بڑھارہے ہیں۔بہت ہی نازک وقت ہے۔ شاہ لطیف۔ شہباز قلندر۔ سچل سرمست۔ بلھے شاہ۔ سلطان باہو۔ وارث شاہ۔ رحمان بابا۔ خوشحال خٹک۔ میر چاکر رند۔ گل خان نصیر کی دعائیں۔ سوچیں۔ ہم میں سے کسی کو یاد نہیں ہیں۔ لا پتہ نوجوانوں کی مائوں کی آہیں تیزی سے فلک کی طرف بڑھ رہی ہیں۔ ماورائے عدالت ختم کی جانے والی جانیں اوپر حشر مچائے ہوئے ہیں۔ زمانہ قیامت کی چال چل رہا ہے۔ ایشیا کو دوبارہ اپنی طاقت اور اہمیت دلانے والے عظیم ملک چین نے ایشیا کی دو طاقتوں سعودی عرب اور ایران کو گلے ملوادیا ہے۔ عرب و عجم۔ حجاز و فارس کے دل شاید ایک ساتھ دھڑکنے لگیں۔

مغرب لرز رہا ہے۔ گورے صدیوں سے کالوں اور گندمیوں کو آپس میں لڑاتے آرہے تھے۔ گراں خواب چینی اتنے سنبھل گئے ہیں کہ وہ برسوں کی کدورتیں ختم کروارہے ہیں۔ اب صرف سعودی بادشاہت اور ایرانی ولایت ہی متحرک نہیں ہوں گے۔ افغانستان بھی فعال ہوگا۔ متحدہ عرب امارات، امریکہ اور اسرائیل متحرک ہوں گے۔ بھارت کو امریکہ ایشیا میں چین کے مقابل کھڑا کرنے کے لئے سہارا دے رہا ہے۔ کیا ہمارا محکمۂ خارجہ اتنا پیش بیں ہے؟کیا وزیر خارجہ کی سونگھنے کی حس اتنی کامل ہے کہ انہیں آئندہ پانچ دس برس کی سرگرمیاں محسوس ہورہی ہوں۔ سعودی عرب ایران اگر شیر و شکر ہوگئے تو عراق، لیبیا، اردن، تیونس، مراکش سمیت سارے خطوں میں صحرا گل و گلزار ہوں گے۔ افریقہ بھی انگڑائی لے کر اٹھے گا۔ پاکستان کس کے ساتھ ہوگا۔ مغرب کے یا مشرق کے۔کیا انتہائی حساس خطے میں واقع پاکستان کے حکمران۔ ادارے ۔ قبیلے ۔ اسی طرح اپنی انائوں اور عدم تحفظ کے احساس میں ایک دوسرے سے ہی انتقام لینے کو اپنی زندگی کا مقصد خیال کریں گے؟ طاقت کے مراکز تبدیل ہورہے ہیں۔ یہ ضروری نہیں کہ پاکستان میں بھی طاقت 70 اور 80 کے مراکز کے پاس رہے۔جنوبی ایشیا میں تعاون کی تنظیم جیسے دو بڑے شراکت داروں بھارت اور پاکستان کے درمیان اختلافات کے باعث یہاں کے ایک ڈیڑھ ارب انسانوں کو خوشحال نہیں ہونے دے رہی ۔ اسی طرح 22کروڑ کی اس جنت میں پی ڈی ایم بلکہ مسلم لیگ(ن) اور پی ٹی آئی کے درمیان کشمکش پاکستان کی سرزمین کو بے فیض بنارہی ہے۔ تیرہ جماعتوں کے معزز رہنمائوں اور ان کے سرپرستوں کو نظر تو آرہا ہے کہ صرف ملک میں ہی نہیں۔ بیرون ملک بھی عمران خان کی مظلومیت کا تاثر اسے مقبول بنارہا ہے۔ اندرون ملک اور عالمی سطح پر یہ خدشات ہیں کہ مقتدر عمران خان کو راستے سے ہٹانا ہی بحران کا حل سمجھ رہے ہیں۔ دنیا میں ایک تو اصولی طور پر تشویش ہے۔ پھر پی ٹی آئی کے رابطے بھی تمام عالمی دارُالحکومتوں میں سرگرم ہیں۔ امریکی کانگریس ہو یا برطانیہ کا دارُالعوام تاریں ہل رہی ہیں۔ انسانی حقوق کی رکھوالی کی عالمی تنظیمیں بھی حرکت میں آرہی ہیں۔ پاکستان میں عالمی اداروں کے مقیم نمائندے بھی اپنی یادداشتیں بھیج رہے ہیں۔موجودہ اتحادی حکومت معیشت۔ زر مبادلہ کے ذخائر۔ اشیائے ضروریہ کی فراہمی اور قیمتوں میں توازن قائم رکھنے میں ناکام ہورہی ہے۔ ہمسایہ ملک ۔ ہمارے قریبی دوستوں میں یہ تاثر عام ہورہا ہے کہ جو حکمران اپنے زیر اقلیم ملک میں مسائل حل نہیں کرپارہے۔ جو اختلاف رائے کو دلیل سے دور کرنے کی بجائے بندوق، لاٹھی، آنسو گیس اور گرفتاریوں سے دباتے ہیں وہ عالمی کساد بازاری۔ علاقائی تنازعات۔ اورممکنہ تصادم روکنے میں کیا کردار ادا کرسکتے ہیں؟جنوبی ایشیا۔ مشرق وسطیٰ اور خلیج میں معیشت کی بحالی کے لئے بھرپور سرگرمیاں شروع ہونے والی ہیں۔ امریکہ برطانیہ یورپی یونین اس علاقے میں اپنے مفادات کے لئے خطرات محسوس کررہے ہیں۔ ان کے سفارت کاروں کو بھی ضروری ہدایات موصول ہورہی ہیں۔ وہ بھی اپنے گماشتوں کو ولولہ ہائے تازہ دے رہے ہیں۔

لاکھوں افراد کی قربانیوں سے حاصل کئےگئے ملک کو اس عالمی منظر نامے میں اپنا فعال کردار ادا کرنا چاہئے یا نہیں۔ ہمارے قائد اعظم ،ان کے رفقاء اور 1973کا آئین بنانے والوں نے جمہور کی منشا کو آئین کابنیادی نکتہ قرار دیا تھا۔ اور یہ عزم ظاہر کیا تھا کہ اہل پاکستان فلاح و بہبود حاصل کرسکیں اور اقوام عالم کی صف میں اپنا جائز اور ممتاز مقام حاصل کر سکیں اور عالمی امن اور بنی نوع انسان کی ترقی اور خوشحالی میں اپنا پورا حصّہ ادا کر سکیں۔ جمہور کی منشا اور عالمی سطح پر اہل پاکستان کے پورا حصّہ لینے کا راستہ صرف عام انتخابات ہیں۔ نیا مینڈیٹ وقت کا تقاضا ہے۔

بشکریہ جنگ نیوزکالم