140

سیاسی نابالیدگی کا ایک اور خطرناک موڑ

جانے پھر آئینی و سیاسی بریک ڈائون ہوجائے۔ آگ ہے ہر سُو برابر لگی ہوئی۔ سیاستدانوں کی آنکھوں میں خون اُترا ہوا ہے اور وہ سرپٹ ایسے تصادم کی جانب تیزی سے رواں دواں ہیں جہاں سے واپسی ممکن نہیں ہوگی۔ منحنی سی سول سوسائٹی نے سیاستدانوں میں افہام و تفہیم کیلئے ایک چھوٹا سا ڈول ڈالا کہ ماحول کی تیرگی کم ہو اور سیاستدانوں میں نامہ و پیام کا آغاز ہو۔ خوفناک سیاسی تقسیم کے ماحول میں یہ پبلک ڈپلومیسی تلوار کی تیز دھار پہ چلنے کے مترادف تھی۔ خیر دہائیوں سے آزمودہ کار جمہوری و انسانی حقوق کے داعی جمع ہوئے اور انہوں نے ایک غیر رسمی گروپ دی میڈی ایٹرز (The Mediators)کے نام سے تشکیل دیتے ہوئے سیاستدانوں کے نام یک نکاتی اپیل جاری کردی کہ رہنمایان کرام آزادانہ و منصفانہ انتخابات کے انعقاد پر قومی اتفاق رائے پیدا کرنے کیلئے ایک کل جماعتی کانفرنس میں شریک ہوں۔ ہر دو متحارب فریقین کے درمیان جو معاملہ سب سے زیادہ وجہ نزع تھا (اور ہے) کہ عمران خان ہر حالت میں دو صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات 90 روز کے اندر کروانے پر بضد تھے جو کہ ایک آئینی تقاضا بھی ہے جب کہ ن لیگ اور اس کی اتحادی حکومت مصر ہے کہ تمام انتخابات ایک ہی تاریخ پر اکتوبر میں منعقد کئے جائیں۔ ایک طرف عمران خان کو تشویش لاحق ہے کہ انتخابات میں اگر تاخیر کی گئی تو اس اثنا میں انہیں انتخابی عمل سے باہر کیا جاسکتا اور انہیں یقین ہے کہ ان کو قتل کیا جاسکتا ہے۔ دوسری جانب حکومت سر توڑ کوشش میں ہے کہ عمران خان کو دسیوں مقدمات میں پھنسا دیا جائے اور ان کے ورکرز پر عرصۂ حیات تنگ کردیا جائے۔ اب پھر انسانی حقوق کی پامالی کا شور ہے اور انسانی حقوق کے حامی دل گرفتہ ہیں۔ دی میڈی ایٹرز کے پاس پائوں رکھنے کی جگہ بس اتنی تھی کہ وہ ساری گیندیں سیاستدانوں کی کورٹ میں پھینک دے کہ انتخابات سے متعلق تمام معاملات آپ ایک اس مقصد کیلئے بلائی اے پی سی میں خود طے کرلیں۔ اس اخلاقی سفارت کاری کو تمام سیاسی حلقوں کی جانب سے کم و بیش مثبت جواب ملا۔ ہم ڈرتے ڈرتے عمران خان کو ملنے گئے کہ خوف تھا کہ وہ سیاسی مخالفین سے ہاتھ ملانے کو شاید بمشکل تیار ہوں۔ خان صاحب سے تباہ حال زمان پارک کی رہائش گاہ میں ملاقات بہت ہی خوشگوار رہی اور انہوں نے نہایت متانت سے بات چیت پر آمادگی اور اے پی سی میں شرکت کی دعوت قبول کرلی۔ یہ ایک بڑا بریک تھرو تھا اور نہایت حوصلہ افزا بھی۔ پھر کیا تھا ،تمام جماعتوں کو یک نکاتی ایجنڈے پر اے پی سی میں شرکت کی دعوت بھیج دی اور ہر طرف ایلچی دوڑا دئیے گئے۔ جماعت اسلامی کے امیر جناب سراج الحق سے ملاقات بھی مثبت رہی اور ان سے بھی درخواست کی گئی کہ وہ خود بھی اس ضمن میں اپنی کوششیں کریں۔ عمران خان کی بات چیت پہ آمادگی نے جیسے پی ڈی ایم کی جماعتوں کو ششدر کردیا، حالانکہ وہ قبل ازیں بات چیت کیلئے اپنی آمادگی کا بار بار اظہار کرتے رہے تھے۔ ہماری اپیل کو عمران خان کی رضامندی سے پہلے بڑی مہمیز پی ڈی ایم کی جماعتوں کے قد آور رہنمائوں کی توثیق سے ملی جن میں اختر مینگل، محمود خان اچکزئی، آفتاب شیر پائو، محسن داوڑ، علی وزیر، سینیٹر مشاہد حسین، سینیٹر رضا ربانی ، فرحت اللہ بابر،عابد حسن منٹو ایڈووکیٹ، حسن رضا پاشا چیئرمین پاکستان بار کونسل، بار ایسوسی ایشنز، ٹریڈ یونینز، اختر حسین صدر عوامی ورکرز پارٹی، فاروق طارق حقوق خلق مووومنٹ، حسین نقی، ایچ آر سی پی، پی ایف یو جے، سی پی این ای، ویمن ایکشن فورم، جوائنٹ ایکشن کمیٹی سمیت 32تنظیموں اور تقریباً 100 دانشوروں اور مدیروں نے اپیل برائے APC کی تو ثیق کردی ہے۔

لیکن ابھی ایک قدم چلے ہی تھے کہ ساری انتظامی مشینری نے پنجاب اور خیبرپختونخوا میں بروقت انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے اپنی بے بسی ظاہر کردی۔ نتیجتاً الیکشن کمیشن آف پاکستان نے پنجاب کے صوبائی انتخابات کیلئے دئیے گئے انتخابی شیڈول کو ملتوی کرتے ہوئے سات ماہ کے التوا کا اعلان کردیا۔ اور اب ایک بار پھر معاملہ سپریم کورٹ کے سامنے پیش ہوگا۔ بظاہر سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ کے اکثریتی فیصلے کی خلاف ورزی کی گئی ہے اور جتنے وکیل ہیں اتنی ہی تاویلات سامنے آرہی ہیں۔ اب معلوم نہیں فل کورٹ بیٹھے گا، یا پرانے والا بنچ ہی درخواستوں کی سماعت کرے گا۔ عدالت عظمیٰ کو سیاسی مناقشے میں گھسیٹنے سے بھی سیاسی بحران حل ہوتا ہوا نظر نہیں آتا۔ کیا یہ بہتر نہیں ہوگا کہ عدالت عظمیٰ انتخابات سے متعلق تمام معاملات کو پارلیمنٹ میں اس شرط کے ساتھ بھیج دے کہ تمام پارلیمانی جماعتیں بشمول تحریک انصاف مل بیٹھ کر تمام معاملات پر مفاہمتی راہ نکال کر اسے مناسب آئینی و قانونی صورت دے دیں۔ دریں اثنا، دونوں صوبوں کی اسمبلیاں بحال کردی جائیں اور کیئر ٹیکرز حکومتوں کو فارغ کردیا جائے۔ آئینی اعتبار سے 90روز میں انتخابات سے کوئی مفر نہیں اور یہ محض عدالت عظمیٰ کی حکم عدولی کے کیس کے طور پر بھی بھگتایا جاسکتا ہے۔ مجھ سمیت آئین پرست دستور سے روگردانی کے متحمل نہیں۔ لیکن اگر انتخابات دو قسطوں میں ہوئے تو جانے کیا فساد بپا ہوجائے اور سارے کا سارا انتخابی عمل بھی ایک خوفناک تصادم کی صورت لے لے۔ اب یہ امکان خالصتاً سیاسی حکمت کا سوال ہے اور سیاسی حکمت کا ادارہ پارلیمنٹ ہے۔ آخر میں بنیادی سوال تو پاکستان کے عوام کے حق رائے دہی کیلئے منصفانہ و شفاف انتخابات کا انعقاد ہے جو اس مملکت خداداد میں صرف ایک بار ہوسکے اور وہ بھی ایک خون آشام انجام سے دو چار ہوکر۔ یہ سیاست کی موقع پرستی ہے کہ ہمارے زعما اپنے 26نکاتی سویلین بالادستی کے ایجنڈے کو پس پشت ڈال کر خود ایک ہائبرڈ نظام کی آغوش میں طمانیت محسوس کررہے ہیں۔ عمران خان کو انتخابی عمل سے باہر کرنے اور نواز شریف کی تاحیات نااہلی برقرار رکھنے سے سیاسی استحکام آنے سے رہا۔انصاف ہو اور سب کے ساتھ یکساں ہو۔

اب پہلا سوال یہ ہے کہ سپریم کورٹ شیڈول کے مطابق پنجاب اور خیبرپختونخوا کے انتخابی شیڈول کے مطابق معاملہ طے کر کے طے شدہ وقت میں انتخابات کرانے کا حکم صادر کردے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو حکومت کا انکار سپریم کورٹ سے بغاوت اور آئینی بریک ڈائون کا باعث ہوسکتا ہے، جس سے اجتناب کیا جائے۔ انتخابات نہ ہونے سے، انتخابات بہتر ہیں، بھلے قسطوں میں ہوں۔ اور اگر سیاسی افراتفری سے بچنا ہے تو ایک ہی وقت پہ تمام انتخابات پہ سیاسی جماعتیں اتفاق کرلیں۔ وگرنہ ہماری تاریخ تو سیاستدانوں کی باہم لڑائیوں کے نتیجے میں آمریت کے گڑھوں میں گرنے سے بھری پڑی ہے۔ اس وقت صورتحال وہی ہے جو 1977 میں پاکستان قومی اتحاد اور ذوالفقار علی بھٹو صاحب کے درمیان پیدا ہوئی تھی۔ لیکن اس بار شاید جنرل ضیا الحق تاک لگائے نہیں بیٹھا تاوقتیکہ تمام معاملات ہاتھ سے نکل نہ گئے۔

بشکریہ جنگ نیوزکالم