194

  شاپنگ کا برینڈیڈ کلچر۔

دنیا کے مشکل ترین کاموں میں خواتین کو شاپنگ کروانا بھی ہے،اک زمانہ تھا جب سربراہ بازار جاتا تو گھر کے سارے افراد حتیٰ کہ خواتین کے ملبوسات لے آتا، مردوں اور عورتوں کے لئے ایک ایک تھان خرید کیا جاتا،سب ہنسی خوشی قبول کرتے، کپڑوں کے رنگ ہی سے خاندان کی پہچان ہوتی ۔ اُس دور میں عید،شادی، سالگرہ کے الگ الگ کپڑے نہیں بنائے جاتے  ان پر تبصرہ ہوتا نہ ہی کوئی ناک منہ چڑھاتا تھا۔
اب ہم بری طرح برینڈیڈ کلچر کا حصہ بن چکے ہیں، اس میں آسانیاں بھی ہیںاور بڑی قباحتیں بھی۔، پہلے دور میں رنگ،ڈیزائن کاانتخاب دوکان دار کی صوابدید پر ہوتا ۔کچھ معاونت سڑک کنارے لگے اشتہارات بھی کرتے تھے ۔
انفارمیشن ٹیکنالوجی نے تو سماج کی فیبرکس ہی بدل کر رکھ دی ،اب کلر،ڈائزائین،برینڈ نام آنا فاناً اینڈرئڈ موبائل سے دنیا بھر میں پہنچ جاتا ہے، سیل کہاں لگی ہوئی ہے ،یہ معلومات گھر بیٹھے آپ کو پہنچائی جاتی ہیں، اس سے گھر کا ہر فرد آگاہ ہوتا ہے، بچے خریداری کی فیوض برکات سے والدین کو یہ سمجھانے کی پوری کوشش کرتے ہیں کہ ''سیل''سے شاپنگ کرنا ''کار ثواب'' ہے۔
جس طرح نت نئے برینڈ مارکیٹ میں وارد ہو رہے اس سے لگتا یوں ہے، ضروریات زندگی کی ہر شہ کو اس کا مزہ چکھنا ہوگا، اس کلچر نے اگرچہ مقابلہ کی فضااورچوائس بھی بڑھا دی ہے مگر خواتین کے لئے مشکلات کے پہاڑ کھڑے کر دیئے ہیں،اپنی خواہشات کی تکمیل کے لئے انھیں در در کی خاک چھاننا پڑتی ہے، مثلا اگر انھوں نے جوتا پہلے خرید کر لیا تو اب اس رنگ سے کپڑوں کا انتخاب فرض عین سمجھا جاتا ہے، اب دوکانو ں کی یاترہ نصیب میں لکھی جاتی ہے۔
 اگر کلر مل جائے تو یہ مشکل آن پڑتی ہے کہ سوٹ ٹوپیس ہے، نئی پریشانی یوں کھڑی ہوتی ہے کہ اس رنگ کاد وپٹہ کیسے ملے گا،اسکی تلاش میں نکلتے ہیں تو ایک اور دریا کا سامنا کے مصداق آتے ہیں، دوپٹہ کی چوائس ھل من مزید کی کیفیت پیدا کرتی ہے،یہ شفون ہو، کرنکل،جار جٹ،یا کرش کا ہو یا سادہ اس پریشانی میں پہلے دوپٹہ پھر کلر میچنگ درد سر بن جاتی ہے، کبھی کبھی تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہربرینڈیڈ کمپنی صنف نازک کو ہر حال میں اذیت سے دو چاررکھنا چاہتی ہے،ورنہ اسلامی سماج میں خواتین کے لئے دوپٹہ کے بغیر سوٹ بنانا ہی خلاف عقل ہے۔
شاپنگ کے دوران کچھ پریشانیاں از خود پیچھا کرتی ہیں مثلاً سنگل پیس شرٹ اگر کسی خاتون کو پسند آگئی ،اس کا چھوڑنا ایسا ہی ہو جیسے کھانا ، اسے لے کر دیوانہ وار نکلنا پڑتا ہے کہ پاجامہ بھی اسی رنگ کا مل جائے ،تھوڑی سی ریاضت کے بغیر رب یہ مہربانی کر بھی دے تو اب تیسرے پیس کے طور پر دوپٹہ کا رنگ ملانامقصدحیات بن جاتا ہے۔
 خوش قسمتی سے تھری پیس سوٹ اچھا مل جائے تو جوتے کی کلر میچنگ واجب ہو جاتی ہے، اس مرحلہ کے بعد خواتین کو نئے امتحان سے واسطہ پڑتا ہے کہ کونسی لیس لگائی جائے، اس میں بھی بڑی چوائس موجود ہے، باریک ، چمکیلی یا سادہ ہو، رنگ کیسا ہو،سائزبڑا یا چھوٹا ، رنگ شوخ یا
 ہلکا ہو، اس میدان تو اب بزرگ خواتین بھی کود پڑی ہیں، ان کے سوٹ بھی گوٹہ کناری کے بغیر تیار نہیں ہوتے، یہ بیچاری دو راہے پر کھڑی نظر آتی ہیں کہ فیشن بھی ہو مگر زمانے کی نظروں سے بچ بھی نکلیں۔
جوتے، کپڑے کے بعد لیس کی کلر میچنگ کے بعد بھی خواتین کی مشقت میں کمی نہیں آتی، اس کے بعد دوپٹہ کو پیکو کروانے کے پل صراط سے گزرنا پڑتا ہے ،عید کے تہوار پر چوڑیوں کے انتخاب کی باری آتی ہے،کلر میچنگ کی کوفت یہاں بھی اُٹھانا ہوتی ہے۔
 ہمیں تو یہ لگتا ہے کہ مہنگائی کے معاملہ میں سرکار خواہ مخواہ بدنام ہے اصل شرارت تو ان برینڈ یڈ کمپنی کی ہے، جنہوں نے محض ایک لباس کے پہنوانے میں ہزاروں بکھیڑے پیدا کر رکھے ہیں، خواتین نے بھی ایسی مشق سے اپنی حیاتی آپ تنگ کر رکھی ہے،برینڈیڈ شاپنگ کا ایک فائدہ بہر حال یہ ہے کہ بارگینگ نہیں کرنا پڑتی،معقول قیمت میں اچھا لباس مل ہی جاتا ہے،۔اب تو یہ ''سٹیٹس سمبل'' بن گیا ہے۔برینڈیڈ شاپنگ کاسب سے زیادہ فائدہ دیار غیر میں بسنے والی دوشیزائوں کو بھی ہے،جو ڈالر،ریال، پونڈ میںخرید داری اس لئے نہیں کرتیں کرنسی سے ضرب دینے سے یہ مہنگی لگتی ہے،وہ بھی ارض وطن میں برینڈ کی سیل سے مستعفید ہوتی ہیں اور اپنی کرنسی میں اشیاء خرید کر محب وطن ہونے کا ثبوت پیش کرتی ہیں۔
اس لئے لازم ہے کہ معاون خریدار کے پاس انٹرنیٹ کی سہولت موجود ہو، تو براہ راست ملبوسات یا دیگرآرٹیکل دکھا کر اپنے عزیز و اقربا ء کے لئے بھی خرید داری کی جاسکتی ہے۔اگرچہ انکی غالب تعداد آن لائین بھی یہ فریضہ انجام دیتی ہے بعض اوقات اس انداز سے خریداری قابل بھروسہ نہیں ہوتی، آن لائین شاپنگ کا کلچر تو یہاں بھی آبادہے مگر بد اعتمادی کی فضا بھی موجود ہے ،دکھائی اور بھیجی جانی والی چیزوں میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے، ہر برینڈ پر یہ الزام تو دھر ا نہیں جاسکتا مگر چکھنے کو دیگ کا ایک دانہ ہی کافی ہے۔
برینڈیڈ شاپنگ کے معاملہ میں مرد حضرات البتہ خوش قسمت واقع ہوئے ہیں،انھیںکلر میچنگ جیسے عذاب سے گزرنا نہیں پڑتا،اس کلچر کو دیکھا دیکھی مذہبی شخصیات نے اپنے اپنے برانڈ لانچ کئے ہیں، گزشتہ دنوں ایک زار بند کی دھوم بھی سوشل میڈیا پر تھی ،حالانکہ اس کے استعمال میںمعاملہ کچھ ایسا ہوتا ہے جیسے صرف بندے اور خدا کا ہو مگر حاسدین نے اسکی ہوشر با قیمت کے حوالہ سے پرکی آڑائی تھی، ان کا خیال ہے کہ مولویوں کا برینڈیڈ مال سے کیا لینا دینا ،ہم سمجھتے ہیں کہ خودداری، بہتر طرزندگی کے لئے ہر مولوی کو تجارت کرنی چاہئے۔
کلر میچنگ سے لے کر بازار میں خرید داری تک مرد کا وہ حشر ہوتا ہے کہ میدان حشر ہی یاد آجاتا ہے۔البتہ دوران شاپنگ انکی حالت قابل رحم ہوتی ہے جنہیں بچوں کو اٹھانا بھی پڑتا ہے، ہماری ساری تحقیق اس پر ہے کہ کس طرح مرد ناکردہ گناہ سے نجات سے پا سکتا ہے، پھر سے وہ کلچر آباد کیا جائے جس میں گھر کا بڑا سب کی پسندیدہ شاپنگ کر لائے ،گلوبل ولیج کے اس عہد میں تو ہماری امید دم توڑتی نظر آتی ہے،کیونکہ برینڈیڈ کلچرنئی نسل کو منتقل کیا جارہا ہے۔
گیس کی آمد اور جامد کے اوقات کار کی بحث کے بعد نجانے کہاں یہ مخلوق اتنی فرصت پاتی ہے کہ کلر میچنگ کا دکھ بھی اٹھاسکے، گمان ہے کہ اکثر روشن خیال خواتین عبائیہ پہننے اور پردہ کرنے کا تکلف اس لئے نہیں کرتیں کہیں کلر میچنگ کی سرمایہ کاری ہی ضائع نہ ہو ،مغربی خواتین نے اگرچہ اپنے لباس کے ساتھ کچھ اچھانہیں کیا مگر خودد کو کلر میچنگ کی فکر اور اس کمپلکس سے آزاد کر کے'' کتاب کلچر'' کو جنم دیا ہے،شرٹ،
 قمیض، پاجامہ،دوپٹہ، چوڑیاں، جھمکے، بُندے،لپ اسٹک،مہندی،کیچر،گھڑی کے ساتھ کلر میچنگ دیکھ کر اقبال کے شعر کا مصرع یوں
 یاد آتا ہے کہ وجود زن سے ہے کاروبار میں رنگ۔
 جرمن چانسلر اینگلا مرکل کو کلر میچنگ کی نجانے کیوںنہ سوجھی ورنہ وہ تین دہائیوں تک ایک سوٹ میں ملبوس رہ کر اقتدارسے یوں نہ رخصت ہوتیں،انھوں لباس سے زیادہ اپنی سادگی اور پر اعتمادی کو اہمیت دے کر تاریخ رقم کی ہے، جس میں دیگر خواتین کے لئے اہم پیغام پو شیدہ ہے۔
 

بشکریہ اردو کالمز