69

بیچارے بھارتی مسلمان

بھارت میں بسنے والے مسلمانوں پر انسانیت سوز مظالم اور تشدد کے واقعات میں روز بروز اضافہ انتہائی تشویش ناک صورتحال اختیارکر چکا ہے۔ یوں کہنے کو تو بھارت ایک سیکیولر ریاست ہے لیکن یہ صرف محض پروپیگنڈا ہے جس کا مقصد دنیا دکھاؤے کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں جب کہ زمینی حقائق اِس کے برعکس ہیں۔

1947 کے بعد سے مسلم کْش فسادات کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور شاید کوئی دن ایسا ہوگا جب کہیں نہ کہیں کسی مسلمان کو زدوکوب اور قتل نہ کیا گیا ہو۔

بھارت کی حکمراں جماعت کی سب سے زیادہ مسلم دشمن شریک انتہا پسند پارٹی راشٹریہ سوئم سَنگھ جو آر ایس ایس کے نام سے مشہور ہے مسلمانوں کی جانی دشمن ہے اور سچ پوچھیے تو اِس کے بانی ساورکر مونجے اور گْرو گول والکر کے علاوہ اِس کے حامی بال گنگا دھر تِلَک اِس کے زہریلے سانپوں میں شمار ہوتے ہیں جن کی وجہ سے بھارت میں مسلمانوں کے خلاف زہر پھیلا۔  بدنامِ زمانہ انتہا پسند ہندو تنظیم شِیو سینا اِسی کی شاخ ہے۔

 

Advertisement

 

انڈین نیشنل کانگریس جو بظاہر ایک سیکیولر جماعت تھی اور جس کے سر کردہ رہنما گاندھی جی اور پنڈت نہرو تھے وہ بھی سیکیولر ازم کا لبادہ اوڑھے ہوئے ہے جس میں سردار وَلب بھائی پٹیل، گووِند وَلب پنتھ اور پرشوتم داس ٹنڈن جیسے متعصب ہندو شامل تھے جن کی اصلیت کو جاننے کے بعد بانی پاکستان محمد علی جناح نے کانگریس سے علیحدگی اختیار کرنے کا فیصلہ کیا تھا کیونکہ وہ سمجھ گئے تھے کہ یہ سب کے سب ایک ہی تھیلی کے چٹّے بٹّے تھے۔

سَکَل ہندو سماج نامی انتہا پسند تنظیم جس کے ڈانڈے آر ایس ایس سے ملے ہوئے ہیں مہاراشٹر میں مسلم مخالف ریلیاں نکال رہی ہے اور مسلمانوں کا بائیکاٹ کرنے کا مطالبہ کر رہی ہے۔

فساد کی اصل جڑ نام نہاد ’’ لَو جہاد ‘‘ اور ’’ لینڈ جہاد‘‘ کے جھوٹے نعرے ہیں جنھیں مسلمانوں کے سَر پر تھوپا جارہا ہے۔ یہ جھوٹی کہانیاں بھی گھڑی جارہی ہیں کہ مسلمان نوجوان ہندو لڑکیوں کو بہلا پھْسلا کر اسلام قبول کرنے کے لیے اْکسا رہے ہیں۔  لینڈ جہاد کے نام پر یہ جھوٹی کہانیاں گھڑی جا رہی ہیں کہ مسلمان اپنی مساجد تعمیر کرنے کے لیے سرکاری اور غیر سرکاری زمینیں خرید رہے ہیں۔

بھارتی میڈیا کے مطابق اب تک ایسی پندرہ ریلیاں نکالی جاچکی ہیں۔ سَکَل ہندو سماج تنظیم پچاس لاکھ نیم عسکری گروہوں پر مشتمل ہے۔بھارتی سپریم کورٹ نے ایک پیٹیشن کی سماعت کرتے ہوئے ریاست سے کہا ہے کہ وہ مسلمانوں کے خلاف تشدد کو روکنے کے لیے نامردی نہ دکھائے۔

عدالتِ عظمٰی نے ریاست کو ہدایت دی ہے کہ وہ اسلاموفوبیا کے تدارک کے لیے کوئی گنجائش باقی نہ رہنے دے۔ججوں کا کہنا ہے کہ مسئلہ کا حل اِس بات میں مضمر ہے کہ مذہب کو سیاست سے الگ رکھا جائے۔ عدالت نے مہاراشٹر حکومت کے خلاف توہینِ عدالت اقدامات کو واپس لینے سے انکار کر دیا۔عدالت نے مہاراشٹر سرکار کی جانب سے مسلمانوں کے خلاف نفرت آمیز تقریروں کو نظر انداز کرنے کے مطالبہ کو ماننے سے انکار کردیا۔

جسٹس کے ایم جوزف نے کہا کہ نفرت بہت بْری بلا ہے۔ ریاست کو ایکشن لینا پڑے گا اور جوں ہی مذہب اور سیاست کو ایک دوسرے سے الگ کردیا جائے گا یہ سب خود بخود ٹھیک ہوجائے گا۔ ہم آپ کو صاف صاف بتا رہے ہیں خواہ آپ اِسے سنجیدگی سے سمجھیں یا نہ سمجھیں، یہ آپ پر منحصر ہے۔ ایک کان سے سنیں اور دوسرے سے اْڑا دیں۔

ججوں نے وکیل سے بار بار کہا کہ بھارت ایک ایسی صورتحال کی طرف جا رہا ہے جہاں ہر نفرت آمیز عنصر متحرک ہے۔ عدالت نے اِس بات کا نوٹس بھی لیا کہ سیاستدان اقلیتوں کے خلاف خونی جذبات بھڑکانے والی تقریریں کرنے میں ملوث ہیں۔

جسٹس نگرآتھنا نے ماضی کے جھرونکوں سے جھانکنے کے مْوڈ میں کہا کہ ’’ جواہر لال نہرو اور اَٹل بہاری واجپائی جیسے مقرر بھی ہوا کرتے تھے جن کی تقریروں کو سْننے کے لیے لوگ مِیلوں کوسوں دور سے آ کر جمع ہوتے تھے۔ واجپائی جی کی تقریروں میں اشعار کی چاشنی ہوا کرتی تھی۔

لوگ گاؤں دیہات سے اْن کی تقریریں سننے کے لیے جوق در جوق آیا کرتے تھے لیکن بدقسمتی سے ایسے لوگ بھی ہیں جن کے پاس نفرت آمیز شعلے بھڑکانے کے سوائے اور کچھ نہیں۔ سوال یہ ہے کہ آپ بھارت کو کس سمت میں گھسیٹ کر لے جارہے ہیں؟‘‘

جسٹس جوزف نے دلائل کے ساتھ یہ بھی کہا کہ ’’ ہماری ریاست میں یہ سب کچھ کیوں ہورہا ہے؟ ’’اِس بات پر سینٹر کے وکیل تشار مہتا آگ بگولہ ہو کر بولے ’’ عدالت نے مئی 2022 میں ہندو اور عیسائیوں کے قتلِ عام پر کیوں کوئی ایکشن نہیں لیا تھا؟ ‘‘ سرکاری وکیل نے اِس دلیل کو ماننے سے بھی انکار کردیا کہ سیاست کے پسِ پْشت مذہب ہے۔

اِس پر سرکاری وکیل نے استفسار کیا کہ کیرالہ میں جو کچھ ہوا ہے اْس کی پشت پر بھی مذہب موجود ہے۔ اِس پر جسٹس جوزف نے اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ ’’ اِس سب کی اصل جڑ سیاست ہی تو ہے۔‘‘

بشکریہ ایکسپرس