83

مہنگائی کی کوکھ بانجھ نہیں ہوتی

زندگی تھی یہ پیغمبری وقت بھی دیکھ لیا۔

محلات اورقلعوں میں غلام مشعلیں لے کر دوڑ رہے ہیں۔ شہنشاہوں کو راستے دکھائی نہیں دے رہے ۔ مفادات کی ہوس نے گلیاں تنگ کردی ہیں۔ ملکائیں اور شہزادیاں کنیزوں کو ڈھونڈ رہی ہیں۔ درباری قصیدے پڑھ رہے ہیں مگر سننے والا کوئی نہیں۔ مخبر آکر بتارہے ہیں کہ رعایا ہاتھوں میں پرچیاں لئےبیلٹ بکسوں کی طرف بڑھ رہی ہے۔ سرکاری اور غیر سرکاری نجومی شاہی وزیروں کو خبردار کررہے ہیں کہ پانسہ پلٹنے والا ہے۔ قاضی بات نہیں مانیں گے۔ تاج اچھلنے والے ہیں۔ تخت گرائے جاسکتے ہیں۔ وقت بہت کم ہے۔ ریڈ زون میں لگائے گئے کنٹینر گرمی سے پگھل رہے ہیں۔

منشی کہہ رہے ہیں کہ خزانہ خالی ہورہا ہے۔صوبیدار ادائیگیاں نہیں کررہے ۔ کشکول خالی واپس آرہے ہیں۔ دربار روز لگانے سے بھی کچھ فائدہ نہیںہورہا ہے۔ روزانہ اجرت پر آنے والے اب پہلے اجرت مانگتے ہیں۔ اپنے اتحادیوں سے ہوشیار رہیں۔ ان کے تانے بانے دوسروں سے بھی ملے ہوئے ہیں۔ پردیس سے آنے والے سندیسے بھی بد شگونی پھیلا رہے ہیں۔آرٹیکل 6کروٹیں بدل رہا ہے۔ مہنگائی کی کوکھ سے ریلیاں جنم لے رہی ہیں۔

......

عشق ہمیں پارلیمانی نظام سے ہے۔

لیکن ہوس صدارتی نظام والی۔

بلکہ شہنشاہوں والی کہ سب ادارے ہمارے غلام ہونے چاہئیں۔

وزیر اعظم تو ہمیںقومی اسمبلی کے ارکان بنائیں۔ اسکے بعدہم جو کچھ کریں۔ کرنا چاہیں۔ اس پر کوئی پوچھنے والا نہ ہو۔ چیف جسٹس بھی ہماری جنبش ابرو پر فیصلے دے۔ سپہ سالار ہمارے اشاروں پرچلے۔ چیف الیکشن کمشنر ہماری انگلیوں کا تابع ہو۔ رینجرز۔ پولیس۔ ہمارے قبائلی لشکروں کی طرح خدمات انجام دیں۔ہمارے عہدے کی کوئی میعاد نہ ہو۔ سرکاری خزانے سے خرچ کرنے کے کوئی قوانین نہ ہوں۔ ہمارا ذاتی مفاد قومی مفاد پر غالب ہو۔ آئین، احتساب، تعزیرات، قوانین پر ہمارا فرمان حاوی رہے۔ تب سب کچھ درست ہے لیکن کوئی اگر آئین کی شق یاد دلائے تو وہ غدار ہے۔ کوئی اگر ہمارے اقدام کو کسی قانون سے متصادم قرار دیتا ہے وہ فتنہ ہے، اس کا قلع قمع ضروری ہے۔یہ طرز فکر عصر حاضر کی پالیسی ہے۔ افسوس تو یہ ہے کہ یہ سوچ ان کی بھی ہوگئی ہے جو برسوں جمہوری جدو جہد کیلئے جیلیں کاٹتے آئے ہیں۔ انسانی حقوق کی سربلندی کیلئے جنہوں نے بے حساب مصائب کا سامنا کیا ۔ وہ بھی جو اٹھتے بیٹھتے آئین 1973 کی بات کرتے رہے ہیں۔ ان سب کو شدت سے احساس ہوگیا ہے کہ واہگہ سے گوادر تک پاکستانی بیدار ہوچکے ہیں۔ اس لئے ان پر بھی خوف طاری ہے۔

آئین جو ریاست اور عوام کے درمیان ایک عمرانی معاہدہ ہوتا ہے۔ وہ بہت سوچ سمجھ کر ۔ بحث مباحثوں کے بعد بنتا ہے کہ لوگوں کی ذاتی۔ خاندانی خواہشات اختیارات کی ہوس کو ایک دائرے میں محدود کیا جائے۔ حکمراںہر قسم کے آتے ہیں۔ بہت خدا ترس۔ اصولوں کے پابند بھی۔ اور ایسے بھی جو اقتدار کے دیوانے ہوتے ہیں ۔اسے طول دینا چاہتے ہیں۔ ان کو آئین ایک دائرے کا پابند بناتا ہے۔ مارشل لا میں آئین اسی لئے منسوخ ہوتا ہے کہ فوجی ضابطے۔ حکمنامے۔ فرامین ۔ وقت کی ضرورت کے مطابق تراشے جاتے ہیں۔ آئینی ترمیم کے لئے دو تہائی ارکان کی منظوری کی شرط بھی اس لئے رکھی گئی ہے کہ حکمراں اپنے مفادات کیلئے آئین میں رد و بدل نہ کرتے رہیں۔ دو تہائی میں سب ہم خیال نہیں ہوتے۔ مختلف علاقوں کے مزاج رکھنے والے ترمیم کے مضمرات کو اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ بحث کرتے ہیں۔

صدارتی نظام میں الیکشن کا وقت مقرر ہوتا ہے۔ پارلیمانی نظام کی خوبی یہی ہے کہ اس میں کسی وقت بھی انتخابات ہوسکتے ہیں ۔بجٹ اجلاس میں مطلوبہ اکثریت نہ ملے تو حکومت ٹوٹ جاتی ہے۔ کسی بھی مسئلے پر کسی وقت قومی اسمبلی تحلیل کردی جائے یا کوئی وزیر اعلیٰ صوبائی اسمبلی تحلیل کردے تو 90دن کی مدت رکھی گئی ہے۔ دنیا بھر میں جہاں جہاں پارلیمانی نظام ہے۔ وہاں یہ انتخابات ہوتے رہتے ہیں۔ ایسے ہنگامے ایسی گرفتاریاں، بےلباسیاں، تشدد نہیں ہوتا۔

ان دنوں معیشت۔ امن و امان کی صورت حال۔ دہشت گردی اور دوسرے جن اسباب کو الیکشن نہ کرانے کا جواز بنایا جا رہا ہے پارلیمانی نظام میں وہی الیکشن کے انعقاد کا جواز ہوتے ہیں جب معیشت دن بدن ابتر ہو رہی ہو۔ ملک میں انتشار ہو۔ رعایا کی بنیادی ضرورت کی اشیا کی قیمتیں کنٹرول نہ کی جاسکیں۔ اپنی کرنسی پاتال میں گر رہی ہو۔ پارلیمانی نظام میں ایسی حکومت کا آخری وقت آجاتا ہے۔ راستہ صرف اور صرف نیا الیکشن ہوتا ہے۔ آئین اس کے لئے مدت کا تعین کر چکا ہے۔ جب آئین کی دوسر ی شقیں ملک میں نافذ ہیں تو اس شق کو متنازع کیوں بنایا جا رہا ہے۔ اس کی پابندی نہ کی گئی تو آئین کی خلاف ورزیوں کا راستہ کھل جائے گا۔ تاریخ کہہ رہی ہے کہ الیکشن میں جتنی تاخیر ہوگی وقت کے حاکم اتنے ہی غیر مقبول ہوں گے۔ اورالیکشن کا انتظارکرتی ۔ تیاریاں کرتی پارٹی اتنی ہی مقبول ہوتی جائے گی۔ الیکشن جب بھی ہوں گے مہینوں بعد ،سالوں بعد۔ حکومت وقت کو ووٹ نہیںملیں گے۔ نئی نئی قراردادیں۔ حکومتوں کو سہارا نہیں دے پاتیں۔ نا مکمل پارلیمنٹ سے منظور کی گئی قراردادیں عوام کے مینڈیٹ کا نعم البدل نہیں بن سکتیں۔ اس حکومت سے تو ایک سال میں ایک فیصلہ بھی ایسا نہیں ہوا جس سے عوام کو کوئی راحت نصیب ہوئی ہو۔

13سیاسی جماعتیں اکٹھی ہیں۔ ان میں بلوچستان، سندھ، خیبر پختونخوا سے ایسے لوگ بھی شامل ہیںجن کی عمریں جمہوریت کیلئے جدو جہد کرتے گزری۔ جنہوں نے پنجاب اور کے پی کےکی جیلوں میں کئی کئی برس گزارے ہیں،جہاں اب الیکشن 90 دن میں ہونے لازمی ہیں۔ انسانی حقوق کی بحالی کےلئے انہوں نے طویل تگ و دو کی ہے۔ کیا اب وہ عوام سے رابطے میں نہیںہیں کیا انہیں اپنے لوگوں کو اعتماد میں نہیںلینا چاہئے کہ وہ اس وقت جمہوریت کا راستہ روکنے والوں کے ساتھ کیوں کھڑے ہیں۔

آج ہم جس کھوکھلی معیشت کے یرغمال ہیں۔ مہنگائی کی جس شدت کا مقابلہ کررہے ہیں۔ وہ گزشتہ کئی برسوں کی عوام دشمن معاشی پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔ جس سے حکمراں تو دولت مند ہوئے ملک غریب ہوا۔ آج حکومت جس طرح ہر ادارے کو اپنا تابع بنانے کیلئے روزانہ قراردادیں منظور کرتی ہے۔ اس کا خمیازہ ہمارے بیٹوں۔ بیٹوں پوتوں پوتیوں نواسوں نواسیوں کو بھگتنا ہو گا۔ جن میں ان موجودہ ارکان قومی اسمبلی اور سینیٹ کے ارکان کی اولادیں بھی شامل ہوں گی۔ آج کی مہنگائی برداشت نہیں ہو رہی۔ اس مہنگائی کی کوکھ سے جو معیشت جنم لے گی۔ وہ کتنی بھیانک ہوگی۔

بشکریہ جنگ نیوزکالم