94

بددیانتی کا کوئی علاج نہیں ہے

جنرل جاوید حسن ریٹائرمنٹ کے بعد لاہور میں ایڈمنسٹریو اسٹاف کالج کے ریکٹر لگ گئے تھے۔

گریڈ بیس سے اکیس میں ترقی کے لیے اس کالج میں ساڑھے پانچ ماہ کا پر مشقت کورس کرنا لازمی ہے۔ دس برس پہلے جب یہ کورس کرنے اسٹاف کالج پہنچا تو جنرل (ر) جاوید کا چل چلاؤ تھا۔دو تین ماہ کے بعد اپنی مدت ملازمت پوری کر کے گھر چلے گئے تھے۔

جاوید صاحب عجیب و غریب شخص تھے۔ فوج میں عسکری تربیتی اداروں میں زندگی گزار دی، اسٹاف کالج میں بھی کلاس میں یہی کہتے تھے کہ زندگی کے چالیس برس‘ فوجی اور سول افسروں کی ٹریننگ میں صرف کیے ہیں، میں بنیادی طور پر ایک استاد ہوں۔

جاوید حسن کی چند عادات حد درجہ متضاد تھیں۔ ایک تو وہ کارگل پر کوئی سوال و جواب پسند نہیں کرتے تھے۔ دوسرا وہ سویلین تربیت میں عسکری سختی کے قائل تھے۔ گریڈ بیس کے افسر‘ اس سختی سے کافی گھبراتے تھے۔ وقت کی پابندی‘ ہر دم محنت بلکہ ریاضت ان کی شخصیت کا حصہ بن چکی تھی۔ مگر میرا ان کے بارے میں تجربہ منفرد تھا۔ جنرل صاحب لگی لپٹے بغیر گفتگو کرتے تھے۔

بہر حال میں جنرل صاحب کو ایک دیانت دار استاد سمجھتا تھا۔ ریکٹر سے ریٹائرمنٹ کے ایک دو دن بعد وہ لائبریری میں بیٹھے تھے۔

مجھے پاکستان کی تاریخ کا ایک دقیق پہلو سمجھ نہیں آ رہا تھا۔ ہماری پوری سنڈیکٹ جس میں آٹھ افسر تھے‘ کسی کے پاس جواب نہیں تھا۔ لائبریری میں جنرل جاوید کو کہا کہ اس موضوع پر لیکچر دیجیے حالانکہ اب ان کی یہ ڈیوٹی نہیں تھی کہ طالب علموں کو کوئی بھی نکتہ سمجھاتے۔ کہنے لگے کہ شام کو ساڑھے سات بجے ساری سنڈیکٹ ہوسٹل میں جمع ہو جائے، اس نکتہ پر بات ہوگی۔

ٹھیک ساتھ بج کر پچیس منٹ پر جنرل صاحب خود گاڑی چلا کر ہوسٹل آ گئے۔ ساڑھے تین گھنٹے تک گفتگو جاری رہی ، وہ تب اٹھے جب ہمارے سارے سوالات ختم ہو گئے ۔ ایمانداری سے کام کرنے کی ایسی مثال کم ہی ملتی ہے۔ انھیں معلوم نہیں کیسے شبہہ ہو گیا کہ میں بہت پڑھاکو ہوں اور زیادہ وقت لائبریری میں گزارتا ہوں۔

جہاں ملتے ‘ کسی نہ کسی نئی کتاب پر بات شروع کر دیتے۔ ان کے بعد اسماعیل قریشی صاحب ریکٹر بنے جو نہایت شفیق انسان تھے ۔ جنرل صاحب ایک دن دوران لیکچر کہنے لگے، پاکستان میں جتنے مرضی بہترین قوانین بنا لو، اعلیٰ ترین تربیت بھی دے دو۔ مگر نظام میں چور دروازہ ہمیشہ کھلا رہتا ہے۔

اس لیے کہ ہمارا پورا نظام ایک بلا کا مقابلہ نہیں کر سکتا اور وہ ہے بددیانتی اوراس کا کوئی علاج نہیں ہے، اسے روکا نہیں جا سکتا۔ اس قبیح فعل میں فکری ‘ سماجی‘ معاشی اور مذہبی عناصر سب کو شامل کرتے تھے۔ پھر کہتے یہ میرے الفاظ نہیں ہیں، یہ شفیق بخاری جو اسٹاف کالج کے ڈین تھے، ان کا نظریہ ہے۔

بخاری صاحب کے متعلق صرف ایک بات عرض کر کے آگے بڑھتا ہوں کہ میںنے اتنا انسان دوست افسر آج تک نہیں دیکھا۔ یہ الفاظ سونے اور جواہرات میں لکھنے کے قابل ہیں کہ اس ملک میں لوگوں اور اداروں کی بددیانتی کا کوئی علاج نہیں ہے۔

اس نظریہ یا نکتے کی عینک لگا کر جب موجودہ سیاسی‘ عدالتی‘ سماجی‘ معاشی بحران کو دیکھتا ہوں تو سب کچھ واضع ہوجاتا ہے۔ یہ گلا سڑا بلکہ بدبودار نظام یا تو آخری ہچکیاں لے رہا ہے یا یہ پورے ملک کو ہمیشہ کے لیے برباد کر ڈالے گا۔ معاشی صورت حال پر خیر بعد میں آتا ہوں، اس لیے کہ سارا دن وزیر خزانہ کو گرم توے پربٹھا کر تنقید کی جاتی ہے۔ عدلیہ اور نظام عدل سے بات کو شروع کیجیے ۔

اعلیٰ ترین عدالتوں سے لے کر نچلی ترین عدالتوں میں سائلین روزانہ کی بنیاد پر ذلیل ہوتے ہیں لیکن انصاف پھر بھی نہیں ملتا۔ مثال سامنے رکھ دیتا ہوں۔ غلام قادر اور غلام سرور دونوں بھائی قتل کے ایک مقدمہ میں 2005 میں عدالت سے سزائے موت ہوئے۔ لڑکی کے اغوا سے دشمنی شروع ہوئی ، دو متحارب خاندانوں کی چپقلش کی بدولت تین قتل ہوئے۔ 2016میں ان دونوں بھائیوں کی اپیل عدالت اعظمی میں لگی۔

معزز جج صاحب نے دونوں بھائیوں کو عدم ثبوت کی بدولت بری کر دیا اور عدالت نے انھیں آزاد کرنے کا حکم دیا۔ لیکن قیامت یہ تھی کہ اکتوبر2015 کو دونوں بھائیوں کو جیل میںپھانسی ہو چکی تھی۔ ایسی دلخراش حقیقتیں ایک دو یا دس بیس نہیں بلکہ سیکڑوں یا ہزاروں میں ہوں گی۔ پاکستان میں نظام انصاف نے اپنے آپ کو اور اپنے ساتھیوں کو تو بہت کچھ دیا ہے لیکن جو کام نہیں کیا، وہ عام آدمی کو انصاف نہیں دیا ۔

عوام کو نظام انصاف میں ذلت‘ دکھوں اور غلاظت کے سوا کچھ نہیں ملتا۔ لوگ جھولیاں اٹھا اٹھا کر عدل کے نظام کو کوستے اور بددعائیں دیتے نظر آتے ہیں۔ میرا سوال یہ ہے کہ کیا عدالت عظمی یا عدالت عالیہ کے کسی بھی معزز جج نے اپنے فیصلوں کے سقم اور ابہام کو کبھی تسلیم کیا ہے۔ کیا کسی قاضی نے آج تک غلط کام کرنے پر استعفیٰ دیا، بالکل نہیں، ہرگز نہیں۔ حالت تو یہ ہے کہ ایک معزز جج صاحب‘ ریٹائرمنٹ کے بعد کرکٹ بورڈ کے چیئرمین کی سیٹ سے نوازے گئے اور ایک دوسرے کو صدر پاکستان بنا دیا گیا۔

جناب اگر عدالتیں انصاف کرنے میں مکمل ناکام رہیں گی تو عوام میں ان کی کوئی عزت نہیں ہو گی۔ ہاں ڈنڈے کے زور پر تو خیر ہر کام کیا جا سکتا ہے۔

موجودہ عدالتی بحران‘ ہرگز ہرگز کسی بلند و بالا آئین و قانون یا اخلاقی بالادستی کے لیے نہیں ہے، یہ صرف اور صرف اقتدار اور اختیارات کی جنگ ہے جس میں عوام کی بھلائی یا خیر کا کوئی پہلو موجود نہیں ہے۔یہی وجہ ہے کہ عوام حالیہ عدالتی و حکومتی لڑائی کو صرف تماشائی کی حیثیت سے دیکھ رہے ہیں۔ ہاں وکلاء حضرات کی معیشت کیونکہ عدالتوں کے ساتھ منسلک ہے، ظاہر ہے کہ وہ عدلیہ کے ساتھ اپنی وفاداری ثابت کرنے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔

مگر یہاں صرف ایک ادارے پر بحث لاحاصل ہے، موجودہ حکومت عوامی تائید سے محروم ہوچکی ہے۔ لوگ حکومت کی گورننس کے معیار سے حد درجہ تنگ ہیں۔ نواز شریف کا پورا سیاسی اثاثہ شہباز شریف کی مفاہمتی حکمت عملی کی نذر ہوگیا ہے۔ مسلم لیگ ن کے سیاسی قلعے زمین میں دھنس چکے ہیں۔

سوچیے ایسا کیوں ہوا ہے۔ نظام عدل ہی زوال پذیر نہیں ہے بلکہ پارلیمنٹ بھی انحطاط کے آخری مرحلے میں داخل ہوچکی ہے ۔ قیامت خیز مہنگائی کو مفت آٹے کے تھیلے دے کر ختم نہیں کیا جا سکتا۔ پارلیمنٹ میں لیڈر آف دی اپوزیشن کی قدر و قیمت کھوٹے سکے سے بھی کم ہے۔

غریب آدمی کوخیر چھوڑیئے ، امیر طبقہ بھی پریشان ہے۔ صنعت اور تجارت ٹھپ ہے۔ کاروباری طبقے کو وزیر خزانہ کی کسی بات پر یقین نہیں۔ عمران خان ‘ ایک ناکام ترین حکومت کرنے کے باوجود الیکشن میں‘ پی ڈی ایم سے زیادہ اکثریت لے سکتا ہے۔ ہرگز یہ عرض نہیں کر رہا کہ عمران خان کی حکومت کسی طرح بھی معیاری تھی۔ مگر جب موجودہ سیاسی جوکروں کو دیکھتے ہیں تو سابقہ حکومت قدرے بہتر نظر آتی ہے۔

سیاسی کارکنوں پر جھوٹے مقدمات بنائے جا رہے ہیں۔مگر یہ سب کچھ لا حاصل رہے گا۔ مرکزی حکومت صرف اور صرف مہربانوں کے کندھوں پر بیٹھ کر چین کی بانسری بجا رہی ہے۔

بلکہ اب تو یہ کہنے کو دل چاہتا ہے کہ پورا ملک مہنگائی‘ لاقانونیت‘ پکڑ دھکڑ‘ سیاسی انتقام کی آگ میں جل رہاہے اور حکمران بانسری بجا رہا ہے۔ لوگ مہنگائی کی وجہ سے خود کشیاں کر رہے ہیں۔ مگر مہربانوں کے ماتھے پر کوئی شکن تک نہیں آ رہی ۔ عالمی مالیاتی اداروں اور حکومتوں سے بھیک مانگنے کے سوا ہمارے حکمرانوں کا اورکوئی تعارف ہی نہیں ہے۔

اور ہاں قرض لے کر بھی حکمران مہنگی ترین گاڑیاں ‘ پر آسائش ہوائی جہاز اور نئے محلات بنا نا چاہتے ہیں۔ بین الاقومی ادارے ہمارے حکمرانوں کی رگ رگ سے واقف ہیں اور ان پر کسی قسم کا کوئی اعتبار کرنے کو تیار نہیں۔ معاشی‘ سیاسی ‘ عدالتی‘ سماجی بربادی کے پیچھے صرف ایک عنصر ہے، ہماری بددیانتی کا کوئی علاج نہیں۔ جنرل (ر) جاوید حسن اور شفیق بخاری کے یہ الفاظ سچ ثابت ہوچکے ہیں۔ ہاں! اگر آپ کے پاس بددیانتی کا کوئی علاج ہے تو فرمائیے؟

بشکریہ ایکسپرس