مفتی عبدالشکور

ا ن کے ساتھ تعلق کم وبیش ڈیڑھ عشرے پر مشتمل تھا جے یو آئی فاٹا کے امیر بننے سے قبل بھی جماعتی سرگرمیوں میں خاصے متحرک تھے تاہم جب فاٹا کے امیر منتخب ہوئے تو جماعت کو منظم کرنے کے لیے دن رات ایک کردیئے پھرجب فاٹاانضمام کامرحلہ قریب آنے لگا تو تن تنہا جماعتی مؤقف کو لے کر میدان میں کو د پڑے اور انضمام مخالف مہم شروع کردی‘کم وبیش پانچ سال قبل کی بات ہے فاٹا انضمام کے حوالے سے معاملات تیزی سے حتمی مراحل کی جانب گامزن تھے تمام سیاسی جماعتیں انضمام کے حق میں تھیں صرف جے یوآئی اور پختونخوا ملی عوامی پارٹی مخالفت کر رہی تھیں ہم خود بھی انضمام کے حمایتی تھے اور اس حوالے سے ہماری طرف سے خبریں اور تجزیے دینے کا سلسلہ جاری تھا۔ان دنوں جے یو آئی کے قائدین کچھ شاکی سے رہتے تھے چنانچہ ایک دن جے یوآئی کے رہنما اور پیارے دوست مفتی اعجاز کا فون آیا اور صدر میں اپنے دفتر مدعو کیا تاکہ انضمام کے حوالے سے ان کے موقف سے بھی آگہی حاصل کی جا سکے اور معاملہ میں توازن پیدا کیاجاسکے۔ ان کی دعوت پر دفتر پہنچے تو وہاں محترم مفتی عبدالشکور بھی پہلے سے موجود تھے جیسا کہ پہلے بتایاگیاکہ وہ اس وقت انضمام مخالف تحریک کے ہراول دستے کی قیادت کر رہے تھے ہماری ملاقات گویا ایک مباحثہ میں تبدیل ہوگئی اب مفتی اعجاز تو میزبان ہونے کی وجہ سے نیو ٹرل ہوگئے مگر مفتی عبدالشکور ڈٹ گئے۔ انہوں نے اپنے مؤقف کے حق میں دلائل کے دریا بہا ڈالے۔ انضمام کے ساتھ ساتھ سیاست کے حوالے سے بھی طویل گفتگو ہوئی۔ہم نے اس ملاقات میں بلا شبہ انہیں دلائل کا بادشاہ پایا۔ تمام گفتگو کے دوران کسی ایک موقع پر بھی طیش میں آئے نہ ہی احترام کا دامن ہاتھ سے چھوڑا کھانے کے دوران بھی چھیڑ چھاڑ جاری رہی۔ آخرکار مفتی اعجاز نے بیچ میں آتے ہوئے یہ کہہ کر محفل برخاست کی کہ جلد ہی دوبارہ مل بیٹھیں گے۔چنانچہ محفل برخاست کردی گئی اصل بات اس مباحثہ کی نہیں تھی جس معاملہ نے ہمیں حیران کرکے رکھ دیا وہ کچھ اور تھا ملاقات کے بعد ہم سب ایک ساتھ دفتر سے نیچے اترے سردیوں کے دن تھے ہم مفتی اعجاز کے ساتھ کھڑے تھے تاکہ مفتی عبدالشکور کو پہلے رخصت کر سکیں وہ پلوسی میں رہتے تھے اور اس وقت سردیوں کی رات کے بارہ بجنے والے تھے ہم انتظار میں تھے کہ ابھی مفتی عبدالشکور کی گاڑی پارکنگ سے آ جائے گی۔ مفتی اعجاز سے پوچھا کہ مفتی عبدالشکور کیسے گھر جائیں گے وہ مسکرانے لگے کہ وہ جیسے ہی اتریں گے خود ہی گاڑی سٹارٹ کر کے روانہ ہوجائیں گے۔ اسی دوران مفتی عبدالشکور ہمارے پاس آئے انتہائی خوش اخلاقی اور خندہ پیشانی کے ساتھ یہ کہہ کر رخصت لی کہ کہا سنا معاف کریں ہم انتظار میں تھے کہ کب وہ گاڑی سٹارٹ کرکے نکلیں گے تاکہ ہم بھی روانہ ہو سکیں کان میں مفتی اعجاز سے سے ایک بار پھر استفسار کیا کہ مفتی صاحب کی گاڑی کہاں ہے۔ وہ پھر مسکرائے اور کہنے لگے ابھی آپ کو نظر آ جائے گی ایسے میں ہم نے جو منظر دیکھا تو آنکھوں پر یقین نہیں آیا کیونکہ ملک کی سب سے بڑی اور مقبول مذہبی
 جماعت کے شعبہ کل قبائل یعنی فاٹا کے امیر کہ جو 2013 ء کے انتخابات میں قومی اسمبلی کی نشست محض چند ووٹوں سے ہار گئے تھے بلکہ ہروا دیئے گئے تھے اور معاملہ پھر پانچ سال تک عدالت میں رہا اور جو فاٹا انضمام مخالف تحریک کے روحِ رواں تھے وہ ایک موٹر سائیکل، جی ہاں موٹر سائیکل پر سوار ہوچکے تھے موٹر سائیکل سٹارٹ کی تو مفتی اعجاز نے کہا آصف بھائی مفتی صاحب کی سواری دیکھ لو میرے ساتھ میرے دوست سینئر صحافی سہراب خان بھی تھے وہ بھی حیرانگی سے سارا منظر دیکھ رہے تھے اور مفتی عبدالشکور ہماری حیرانگی سے لطف اندوز ہوتے ہوئے مسکرا رہے تھے۔ تب ہماری فرمائش پر موٹر سائیکل پر بیٹھے ان کی تصاویر بھی غالباً مفتی اعجاز نے بنائیں ہم ان تصاویر کو ان کی سادگی اور بے لوث سیاست کی زندہ مثال کے طور پر محفوظ رکھنا چاہتے تھے،پھر وہ سلام کر کے رخصت ہوگئے تب ہمیں اتنا اطمینان ضرور ہوا کہ آج بھی سرمائے کے بغیر سیاست کی جاسکتی ہے اور اگر آج میں یہ کہوں کہ مفتی
 عبدالشکور اسکی آخری مثالوں میں سے ایک تھے تو غلط نہ ہوگا، سادگی کی سیاست کا ایک اورستارہ بھی غروب ہوگیا۔مفتی عبدالشکور بلاشبہ جے یو آئی کے لئے عظیم سرمایہ تھے جس طرح پہلے ذکر ہواکہ 2013کے انتخابات میں وہ بہت کم ووٹوں سے ہارے تھے ان انتخابات میں انہوں نے 10240ووٹ حاصل کیے تھے جبکہ جیتنے والے امیدوار پی ٹی آئی کے قیصر جمال تھے جنہوں نے مفتی صاحب سے کم وبیش ایک ہزار ووٹ زیادہ لئے تھے۔ حیر ت انگیز امریہ تھاکہ تمام انتخابی مہم مفتی صاحب نے اپنی موٹر سائیکل یا پھردوستوں کی مہیا کی ہوئی گاڑی کے ذریعہ چلائی وہ کہاکرتے تھے ایک سرمایہ دار کے مقابلہ میں انہیں ہرواگیا وہ عدالت گئے مگر کچھ نہ ہوسکا انہوں نے بھی ہمت نہیں ہاری اور بے سر وسامانی کے باوجود 2018کے انتخابات میں کو د پڑے اس بار انہوں نے کسی کو بھی اپنا مینڈیٹ چرانے کاموقع نہیں دیا ان الیکشن میں مفتی صاحب نے حساب برابر کرتے ہوئے بائیس ہزار کے لگ بھگ ووٹ لیے یوں انہوں نے پی ٹی آئی کی ہوا کے باوجود اس کے امیدوار قیصر جمال کو ساڑھے تین ہزار سے زائد ووٹوں کی لیڈ سے ہرایا اور قومی اسمبلی میں پہنچ کر اپوزیشن بنچوں کاحصہ بن گئے ایک مرتبہ قومی اسمبلی میں ان سے سرراہ ملاقات ہوئی بہت تپاک سے ملے مغرب کاوقت تھا وہیں چادر بچاکرامامت کرائی کسی لمحہ بھی یہ احساس نہیں ہونے دیتے تھے کہ وہ اس ملک کے سب سے بڑے منتخب ایوان کے رکن ہیں ان کی معمولات میں کوئی فرق نہیں آیا اسی طرح گزشتہ رمضان میں مولانا فضل الرحمن سے ملنے گئے گیٹ پر ہی اذان ہوئی تو باہر اپنے سیکورٹی گارڈز کے ساتھ چادر بچھا کرافطار کیا پارٹی نے بھی انکو یاد رکھا،چنانچہ جب حکومت سازی ہوئی تو وفاقی وزارت کے لئے انہیں نامزد کردیا اورپھر انہوں نے گذشتہ سال حج کے دوران شاندار کردار اداکیا بھرپور سیاسی زندگی گذارنے والے مفتی عبدالشکور رمضان المبار ک میں ہی وفاقی کابینہ کاحصہ بنے تھے اور پھر رمضان میں ہی ایک حادثے کاشکار ہوگئے غالب نے ایسے ہی موقع کے لئے کہاتھا۔
 مقدور ہو تو خاک سے پوچھوں کہ اے لئیم
 تونے وہ گنج ہائے گراں مایہ کیا کیے....
 اللہ پاک مفتی صاحب کی منزلیں آسان اور درجات بلند فرمائے آمین

 

بشکریہ روزنامہ آج