114

عید کی خوشیاں کوئی نہیں چھین سکتا

رحمتوں۔ برکتوں۔ مغفرتوں۔ دن رات عبادتوں کا مہینہ گزر گیا۔ خوش نصیب ہیں وہ ہم وطن جن کے روزے ضبط، صبر اور شکر میں گزرے۔ عید کی خوشیاں ان کا حق بنتا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے التجا ہے کہ سب اہل ایمان کی عید اپنے پیاروں کے درمیان مسرتوں کے ساتھ گزرے۔ عید کا دن پاکستان میں اور سارے اسلامی ملکوں میں سکون اور اطمینان سے گزر جائے۔ حادثے ہورہے ہیں۔ انہونیاں صدمے لارہی ہیں۔ میرادل شہر قائدکےان چار آتش کُش(Fire Fighters) جانبازوں کو یاد کررہا ہے۔ جو ایک فیکٹری کو آگ سے بچاتے ہوئے اپنی جان کی بازی ہار گئے۔ شہر قائد کو ان کا ان کے اہل خانہ کا ممنون ہونا چاہئے۔ آفریں ہے ان والدین پر۔ ان اداروں پر جو فرائض کی انجام دہی کے دوران جاں نثاری کی تربیت دیتے ہیں۔ سلام شاہ فیصل کالونی کے فائر اسٹیشن کو۔ دل کی گہرائیوں سے 40سالہ محسن شریف۔ 40سالہ خالد شہزاد۔ 35سالہ سہیل نذیر۔ 55سالہ افضال محمود کے لئے بلندیٔ درجات کی دعائیں ۔آج کے دَور میں جب افراتفری عروج پر ہے۔ اپنے فرائض پر عملدرآمد سے کوتاہی عام ہے۔ ان دنوں میں آتش نمرود میں بے خطر کود جانے والے موجود ہیں۔ سماجی کارکنوں کو چاہئے کہ وہ عید کے دن ان آتش کُشوں کے گھروں پر حاضری دیں۔ ان کے اہل خانہ سے ممنونیت کا اظہار کریں۔ ان کے بچوں کو پیار کریں۔ یہ ہم وطن ہی کسی معاشرے کے ہیرو ہوتے ہیں۔

ہر چند کہ2022-2023ءکاسال پاکستان کی تاریخ میں بد ترین انتقام کے سال کے طور پر یاد کیا جائے گا۔ سیاسی محاذ آرائی تو ہوتی ہی ہے۔ مملکت کے اداروں میں بھی مقابلہ جاری ہے۔ایک دوسرے کے اختیارات کوچیلنج کیا جارہا ہے۔ ایسے میں جب چاند نظر آئیگا۔ تو لبوں پر یہ مصرع ضرور آئیگا۔ ہلال عید ہماری ہنسی اڑاتا ہے۔ پیام عیش و مسرت ہمیں سناتا ہے۔ اور یہ بھی کہ خوشی ہو عید کی کیونکر کہ سوگوار ہوں میں۔ اجاڑ ہوگئے عہد کہن کے میخانے۔ گزشتہ بادہ پرستوں کی یادگار ہوں میں۔ لیکن میں نے تہیہ کیا ہے کہ مجھے آج سوگواری کی، پریشانی کی مزاحمت کرنی ہے۔

نہیں نہیں محبت ، عشق ،وفا سے مالا مال میری صدیوں پر انتقام اور محاذ آرائی کا یہ ایک سال کیسے غالب ہوسکتا ہے۔ ہم وہ پیغام کیسے بھول سکتے ہیں۔ جو ان صدیوں میں ہمارے صوفیائے کرام۔ مشائخِ عظام خانقاہوں، درگاہوں، مسجدوں، منبروں سے بلند کرتے رہے۔ 2023ءکی جہالت۔ انا پرستی۔ بدزبانی کو میں علوم و فنون کی اپنی صدیوں پر کیسے حاوی ہونے دوں۔ اس ایک سال کی مفاد پرستی اس شمع کو کیسے بجھاسکتی ہے۔ جسے روشن خدا کرے۔ بلوچستان کے سنگلاخ پہاڑ۔ میلوں میل پھیلے دشت۔ سندھ کے ریگ زار۔ جنوبی پنجاب کے پہاڑی سلسلے۔ پورے پنجاب کے محبت بانٹتے میدان۔ خیبر پختونخوا کے سر سبز کوہسار۔ حسین وادیاں۔ آزاد کشمیر کی آبشاریں۔ گلگت بلتستان کی برف پوش چوٹیاں ہزار ہا سال سے انسانی زندگی کو اپنی جولانیاں دکھانے دے رہی ہیں۔ ان ہزاریوں پر گمراہی کا ایک سال کیسے مسلط ہوسکتا ہے۔

بحیرۂ عرب کا باوقار سکوت۔ سندھو ندی کی گلگت سے چھان تک مسلسل روانی۔ چناب کی مست لہریں۔ جہلم کی عسکری موجیں۔ دریائے کابل کے تھپیڑے۔ دریائے سوات کے شفاف پانی میں نظر آتے سنگریزے۔ بے وفا عناصر کی بد نیتی کو اپنے معمولات میں مخل نہیں ہونے دیتے۔

عید ہماری خوشیوں کا تہوار ہے۔ عید ان کی ہے جنہوں نے یہ تینوں عشرے۔ حسد۔ بغض۔ سازشوں کی بجائے اپنے پروردگار کے حضور عاجزی میں گزارے۔ جنہوں نے کسی کو بے لباس نہیں کیا۔ کسی کے منہ پر کپڑا نہیں ڈالا۔ کسی آئینی شق کی بے حرمتی نہیں کی۔

میں تو اپنی آواز زیادہ بلند کروں گا جب ذوق نغمہ کم ہوتا دیکھوں گا۔ حدی میں اور تیزی لائوں گا۔ جب محمل میں کسی کی موجودگی محسوس کروں گا۔

نوارا تلخ ترمی زن چوں ذوق نغمہ کم یابی

حدی را تیز ترمی خواں چوں محمل راگراں بینی

عید تو موسم گل ہے۔ میں کیسے بھول سکتا ہوں۔ موسم گل ہے تمہارے بام پر آنے کا نام۔ رنگ پیراہن کا خوشبو زلف لہرانے کا نام۔

شاہ لطیفؒ کی وائی یاد آرہی ہے:

پی کرمے کے جام ساجن کو پہچان لیا

عشق کے پیالے پی کر ہم نے جانا بھید تمام

انگ انگ میں پیار کی اگنی، سلگیں سب اندام

جھوٹے جگ میں رات بتائی، صبح کیا آرام

کہے لطیف کہ تو ہی تو ہے، باقی تیرا نام

(ترجمہ: آغا سلیم)

سلطان باہوؒ کی ہو بھی ولولۂ تازہ دے رہی ہے۔

شور شہر تے رحمت وسّے،جتھے باہو جالے ہو

باغباناں دے بوٹے وانگوں، طالب نت سم ہالے ہو

نال نظارے رحمت والے، کھڑا حضوروں پالے ہو

نام فقیر تنہاں دا باہو، جیڑا گھروچ یار دکھالے ہو

بابا فرید ؒ میرا حوصلہ بڑھارہے ہیں

ہوں بلیاری تنھاں پنکھیاں جنگل جنھان واس

کنکر چگن،تھل وسن، رب نہ چھوڈن پاس

بلھے شاہ ؒ کیا عزم دلارہے ہیں

اک ٹونا، اچنبا گاواں گی

میں رٹھایار مناواں گی

ایہہ ٹونا میں پڑھ پڑھ پھوکاں

سورج اگن جلاواں گی

اکھیں کاجل، کالے بادل

بھنواں سے آندھی لیاواں گی

اپنی خواہشات پر ضبط کا مہینہ گزار کے واہگہ سے گوادر تک صوفیا، اولیا، جانبازوں، جنگجوئوں، شہیدوں، لاپتہ جوانوں ، آئین بنانے والوں ، آنسو گیس برداشت کرنے والوں کے یہ وارث اس ایک سال کو اپنے اوپر طاری نہیں کریں گے۔ عید کی خوشیاں ان کا حق ہیں۔ خوب دل سے عید منائیں گے۔ اپنے دوسرے حقوق حاصل کرنے کیلئے ایک نئے ولولے سے میدان میں اتریں گے۔

بشکریہ جنگ نیوزکالم