98

ایک مہذب روح کے خطوط

گزشتہ دنوں جاوید اختر پاکستان آئے اور ہنگامہ بپا کرکے چلے گئے۔ ان کا ارادہ کراچی آنے کا تھا لیکن لاہور میں ہی ان کے بیانات سے وہ تہلکہ مچا کہ ان کے میزبانوں نے انھیں اٹاری سے واپس بھیجنا مناسب سمجھا۔ ہندوستان جا کر بھی وہ خاموش نہ ہوئے اور ان کے دلچسپ جملے ہم تک پہنچتے رہے۔

یہ وہی جاوید اختر ہیں جو صفیہ اختر اور جاں نثار اختر کے بیٹے ہیں۔ ان سے آخری ملاقات دلی میں اس وقت ہوئی تھی جب سردی مزاج پوچھ رہی تھی۔ کیفی بھائی اور شوکت آپا بڑی بڑی انگیٹھیوں پر ہاتھ تاپ رہے تھے اور میرے کراچی واپس جانے میں دو دن رہ گئے تھے۔

یہاں میں بات ان کی اماں صفیہ اختر کی کرنا چاہ رہی ہوں۔ 60 کے ابتدائی دنوں میں ان کے خطوط کی دھوم تھی۔ اردو کا ادبی حلقہ ان کے خطوں کا عاشق زاد تھا۔ جاں نثار اختر اچھے شاعر تھے۔

مشاعروں میں پڑھتے تو مشاعرہ لوٹ لیتے۔ صفیہ کالج میں پڑھاتی تھیں لیکن ان کی ادبی شہرت بھی علی گڑھ اور لکھنو میں پھیل چکی تھی۔ ان کو اس وقت کی ایک نادر بیماری ہوئی اور اس کے سامنے وہ ہار گئیں۔

آخری چار مہینے چھٹی لے کر انھوں نے گزارے، اسی بیماری میں وہ تمام ہوئیں۔ انھیں آرزو تھی کہ وہ جاں نثار اختر کے زانو پر دم دیں لیکن صفیہ کے نصیب میں یہ بھی نہیں تھا۔ وہ ختم ہوگئیں تو جاں نثار اختر ان کے گزرنے پر پہنچے اور جیساکہ عموماً شاعروں کا دستور ہے کہ عالم حزن میں ایک طویل نظم لکھی جو یقینا ایک (برہمن) کے دل کی صدا ہے۔

یہ نظم اردو کی طویل نظموں میں اپنا ایک مقام رکھتی ہے۔ اس برہمن کے بڑے بیٹے جاوید اختر پر اپنی ماں کے گزرنے کے بعد جو گزری اس کے بارے میں قرۃ العین حیدر لکھتی ہیں:

’’جب بمبئی پہنچے تو چھ دن بعد آدھی رات کو برستی بارش میں والد کے مکان سے نکلنا پڑا (والد عقد ثانی کرچکے تھے) فٹ پاتھ پر رہے، فاقے کیے، گزر اوقات کے لیے کارڈشارپنگ کو بھی اپنا پیشہ بنایا۔ یہ ان کی نوعمری کے مزید ڈرامائی واقعات ہیں۔ محض اپنی ذہانت اور بذلہ سنجی کے بل پر دنیا سے لڑے۔ بمبئی کے ان تین دن کے لگاتار فاقوں کی دل خراش یاد کا سہل ممتنع میں ڈھلنا دیکھیے:

میرے گھر میں چولہا تھا

روز کھانا پکتا تھا

ماں عجیب تھی میری

وہ اپنے ہاتھوں سے

مجھ کو وہ کھلاتی تھی

کون سرد ہاتھوں سے

چھو رہا ہے چہرے کو

اک نوالا ہاتھی کا

اک نوالا گھوڑے کا

اک نوالا بھالو کا

قرۃ العین حیدر کی یہ تحریر جو ’’ترکش‘‘ کا ابتدائیہ ہے اس سے صفیہ اختر اور جاوید اختر کے معاملات کا اندازہ ہوتا ہے۔ روبینہ زیدی نے صفیہ اختر اور جاں نثار اختر کے خطوط، عصری مباحث، ایک مشکل موضوع منتخب کیا اور سچ تو یہ ہے کہ اس سے انصاف کیا۔

ان کے اس تحقیقی مقالے میں صفیہ، جاں نثار، جاوید اختر اور سلمان اختر کے ساتھ بمبئی ، علی گڑھ، لکھنو، بھوپال اور دوسرے شہروں کی علمی اور ادبی سرگرمیاں نظر آتی ہیں۔

’’صفیہ اختر باقاعدہ ادیبہ اور نقاد نہ تھیں مگر نکھرا ہوا ادبی و تنقیدی شعور رکھتی تھیں جو ان کی تحریروں سے جابجا ٹپکتا ہے۔

اپنی مختصر حیات میں وہ کوئی بڑا ادبی کارنامہ تو انجام نہ دے سکیں مگر مرنے کے بعد ادب میں بڑا مقام پا گئیں اور یہ مقام انھیں ’حرف آشنا، زیر لب اور ’’انداز نظر‘‘ کی اشاعت بعداز مرگ سے ملا۔ اب صفیہ ہمارے لیے جاں نثار اختر کی بیوی، مجاز کی بہن، جاوید اختر اور سلمان اختر کی ماں ہی نہیں رہیں بلکہ ان کی اپنی ایک الگ شناخت ہے اور یہ شناخت انھوں نے اردو خطوط نگاری کی روایت میں گراں قدر حصہ ڈال کر بنائی ہے۔

اگر صفیہ کی زندگی وفا کرتی تو یقینا وہ ادب و تنقید کی دنیا کو مالا مال کرنے کی صلاحیت رکھتی تھیں۔ ان کی نگاہیں علمی و ادبی مسائل پر دوررس تھیں۔ ان کا مطالعہ وسیع اور شعور پختہ تھا۔‘‘

’’حرف آشنا‘‘ اور ’’زیر لب‘‘ کے خطوط سراسر نجی اور ذاتی نوعیت کے ہیں جو ادبی انداز و اسلوب اور اشاعت کے امکان سے بے غرض ہو کر لکھے گئے۔ ان خطوط کے الفاظ بلاشبہ ایک چاہنے والی باوفا بیوی کے دل کی آواز ہیں جو نہ چاہتے ہوئے بھی اپنے عزیز از جان شوہر سے دور رہنے پر مجبور ہے۔

یہ فرقت کے ان لمحوں کی داستان ہیں جو کاٹے نہیں کٹتے۔ ان خطوط میں باہمی تعلقات کے اتار چڑھاؤ، گھریلو معاملات کا بیان، ذاتی حال احوال، دوستوں اور دوستیوں کا بیان، علمی و ادبی بحثیں، اہم تنقیدی نقاط، کامیابیوں اور ناکامیوں کی کہانی، عزم و استقلال اور جہد مسلسل کی داستان، سبھی کچھ شامل ہے اور ان سب سے بڑھ کر یہ کہ ان خطوط کے ذریعے ایک عظیم شاعر اور اس کی عظیم بیوی کی شخصیتوں کے بھرپور مرقعے ہمارے سامنے آتے ہیں جو دل پذیر بھی ہیں اور پراسراریت کے حامل بھی۔ ان خطوط کو پڑھنے میں کسی رومانوی اور المیہ داستان یا ناول کا سا لطف آتا ہے اور مکتوب نگار اور مکتوب الیہ کی شخصیتیں ایسے رومانوی کرداروں میں ڈھل جاتی ہیں جو بے حد انفرادیت لیے ہوئے ہیں۔

ان خطوط پر کئی معاصر ادیبوں نے اپنے تاثرات کا اظہار کیا ہے اور صفیہ اختر کی شخصیت کے دل آویز پہلوؤں پر بات کی ہے۔

رشید احمد صدیقی نے ’’زیر لب‘‘ کو صفیہ مرحومہ کی شہادت وفا کا مرقع کہا ہے۔ آلِ احمد سرور کہتے ہیں کہ ان خطوط کو پڑھ کے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے میں نے مقدس آتش دانوں کی آگ کو چھو لیا اور جان لیا ہے۔ خواجہ احمد فاروقی کے نزدیک یہ نثر میں برہ کے گیت، خطوط نہیں۔ استخوان کانپ کانپ جاتے ہیں۔ علی سردار جعفری ’’زیرِ لب‘‘ کے بارے میں لکھتے ہیں:

’’صفیہ کے خطوط دل کی دھڑکن ہیں جو اردو ادب کا ایک لافانی جزو بن گئی ہیں۔‘‘

دوسرے مجموعہ ’’حرفِ آشنا‘‘ کی بابت اختر سعید کے الفاظ ہیں:

’’وہی ہجر کی آگ جو مِیرا کے گیتوں میں ایک پل کو ٹھنڈی نہ ہوئی صفیہ اختر کی تحریروں میں شعلہ فشاں ہے۔ دونوں کی داستان المیہ پر ختم ہوئی لیکن لاکھوں کروڑوں انسانوں کو محبت کا سلیقہ سکھا گئی۔‘‘

آخر میں مجھے ڈاکٹر انوار احمد کے وہ جملے یاد آتے ہیں جن میں انھوں نے صفیہ اختر اور ان کی کلاس فیلو ڈاکٹر سلمیٰ شان الحق حقی کا ذکر کیا ہے کہ جاں نثار اختر نے اپنی الفت میں گرفتار اس مہذب روح کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا۔

بشکریہ ایکسپرس