105

زرداری سب پر بھاری (حصہ اول)

سیاست اگر خدمت خلق کے جذبے سے سرشار ہو کر کی جائے تو عبادت کادرجہ اور اللہ رب العزت کی رضا کا ذریعہ بن سکتی ہے۔ مگر بدقسمتی سے اس ملک میں سیاست اپنے ذاتی مفادات کے تحفظ کی خاطر ایوان اقتدار تک پہنچنے کے لیے ایک زینے کے علاوہ کچھ نہیں۔

جو بھی حکمران ایک بار مخلوق خدا کے کندھوں پر چڑھ کر ایوان اقتدار پہنچ جائے اسی دن سے ان کے ذاتی مفادات کی چھری مخلوق خدا کے گلے پر چلنا شروع ہو جاتی ہے۔

اس حقیقت پر تاریخ گواہ ہے کہ اقتدار کا نشہ یا ایوان اقتدار تک پہنچنے کی حرص وہ لاعلاج اخلاقی مرض ہے کہ اس میں ہر ناجائز، جائز ہوجاتا ہے ایوان اقتدار تک پہنچنے کی اس بے رحم دوڑ میں کوئی اخلاقیات ہے اور نہ ہی قاعدہ و قانون۔ مگر ماضی بعید میں سیاسی جماعتوں کے درمیان مقابلہ زیادہ تر الیکشن کے دوران رہتا تھا اور پھر نہ چاہتے ہوئے بھی سسٹم کو چلانے کے لیے ایک دوسرے کو راستہ دیا جاتا تھا، تھوڑی بہت رواداری اور رکھ رکھائو نظر آتا تھا۔

سیاسی اتحادیوں کے ساتھ دونمبری بہت کم اور زیر زمین ہوتی تھی۔ سیاست میں مفاہمت کی چھتری تلے سیاسی حلیفوں کے گلے (سیاسی) پر چھری پھیرنے، خرید و فروخت اور ڈبل گیم کرکے اقلیت کو اکثریت میں بدلنے کی روایت بھی چلی آ رہی ہے۔ زرداری صاحب کی سیاست دیکھ کر ’’ایک زرداری سب پر بھاری‘‘ کے نعرے کو ماننا پڑتا ہے۔

اسٹیبلشمنٹ کی نرسری میں جوان ہوکر سیاست میں آنے والے بھٹو جیسے زیرک و ذہین سیاستدان اور نہ ان کی اعلیٰ تعلیم یافتہ بیٹی اور دو مرتبہ وزیراعظم بننے والی بینظر بھٹو اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اپنے بگڑے ہوئے تعلقات کو درست نہ کرسکی مگر جب اس اینٹی اسٹیبلشمنٹ اور طاقتور حلقوں کے لیے ناقابل قبول پارٹی کی قیادت زرداری صاحب نے اپنے ہاتھوں میں لی تو اسٹیبلشمنٹ کے لیے قابل قبول بن گئی۔

یہ زرداری ہی کا کمال ہے جس پارٹی کے قائد کو جنرل ضیاء الحق شہید کے دور حکمرانی میں تختہ دار پر لٹکایا گیا تھا اور ایک دوسرے فوجی آمر کے دور حکومت میں بینظر بھٹو راولپنڈی میں جان سے گئیں‘ اس پارٹی کو اسٹبلشمنٹ کے لیے قابل قبول بنایا اور دوسری طرف اسٹیبلشمنٹ کی نرسری میں پروان چڑھنے والے مسلم لیگ نون کو ’’اسٹیبلشمنٹی گملے‘‘ میں سے اکھاڑ کر انٹی اسٹیبلشمنٹ کی پرخار بنجر وادی میں لے آنا بھی ایک کارنامہ ہے لہٰذا پھر یہ ماننے کے سوا چارہ نہیں کہ ’’ایک زرداری سب پر بھاری۔‘‘

پاکستانی سیاست میں ایک نیا موڑ اس وقت آیا جب تحریک انصاف کے لاغر اور کمزور بوٹے پر اسٹیبلشمنٹ کی نظر پڑی اور انھوں نے اسے فوراً اپنے نرسری میں شفٹ کیا اور خوب آبیاری کی اور راستے میں حائل سب سے بڑی سیاسی رکاوٹ کو پاناما کے ذریعے عدالت میں کھینچا اور پھر بابے رحمتے نے پاناما سے اقامہ نکال کر نواز شریف کو تا حیات نااہل کیا، جس کی پاکستانی سیاسی تاریخ میں اس سے پہلے کوئی نظیر نہیں ملتی ہے۔

اسٹیبلشمنٹ کمال مہارت اور سوشل میڈیا کی ففتھ جنریشن وار بلکہ یلغار اور بیرونی سرمایہ کاروں کی سرمایہ کاری کے ذریعے عمران خان نیازی اور تحریک انصاف کو ایک قد آور ( نظر آنے والے) درخت بنانے میں کامیاب ہوئی، اس سیاسی بت میں پاکستانی تاریخ کے متنازعہ ترین اور طویل دھرنے کے ذریعے ہوا بھری گئی اور پھر 2018 کے متنازعہ ترین ’’آر ٹی ایس زدہ انتخابات‘‘ کے نتیجے اور اسٹیبلشمنٹ کی چھڑی کے زور پر ’’باپ شاپ‘‘ اور دوسری ہایئبرڈ سیاسی پارٹیوں کو ساتھ مِلا کر ایوان اقتدار پہنچایا مگر ان کے ساتھ اس وقت کے خاص یا خاصوں نے اپنے سانپوں اور سانپوں نے اپنے کیڑوں مکوڑوں کو ایوان اقتدار میں پہنچایا، فیصل واوڈا چیختا رہا کہ دو خاص، کچھ سانپوں اور کچھ کیڑے مکوڑوں نے عمران خان کو گھیرا ہوا ہے ( ویسے یہ خاص، سانپ اور کیڑے مکوڑے بلا تفریق ہر پارٹی میں ہوتے ہیں جو پارٹی کے قائد کو گھیر کر رکھتے ہیں اور اس کا پتہ پارٹی کے اندر کے لوگوں کو ہوتا ہے کبھی  موقع ملا تو اس پر تفصیل کے ساتھ لکھوں گا)۔

مگر فیصل واوڈا کی چیخ و پکار کا کوئی فائدہ نہیں ہوا کیونکہ عمران کچھ سننے کو تیار نہیں تھے اور مکمل طور پر بجائے اپنے منشور پر عمل کرنے کے وہ بابا رحمتے کے عطا کردہ صادق و امین کے سرٹیفکیٹ کے سحر میں ایسے مبتلا ہوئے کہ ان کو اپنے سوا اپنا ہر مخالف کرپٹ، بد عنوان، چور اور ڈاکو نظر آنے لگا‘ انھوں نے اپنے مخالفین کو کبھی ان کے ناموں سے نہیں پکارا بلکہ آج تک اپنے ان سارے مخالفین کو کرپٹ، بدعنوان، چور اور ڈاکو جیسے القابات سے پکارتے ہیں۔

پارلیمانی روایات پائوں تلے روندتے ہوئے کبھی اپوزیشن لیڈر سے بات کی، نہ ہاتھ ملانا گوارا کیا۔ اپنے اقتدار کے دوران تمام تر توجہ صرف اپنے مخالفین اور ان کے ساتھ کام کرنے والے بیوروکریٹس کو سنی سنائی باتوں اور مفروضوں کی بنیاد پر جیلوں میں ڈالنے اور بابا رحمتے کی مدد سے چھ چھ مہینے میں کیس عدالت میں نہ لگنے پر مرکوز رکھی اور کچھ کر گزرنے کے بجائے وقت ضایع کیا۔

اپنی ناعاقبت اندیشی یا سوچے سمجھے منصوبے کے تحت گیم چینجر اور تیزی سے بڑھنے والا سی پیک پروجیکٹ کو متنازعہ بنا کر چین جیسے دوست ملک کو ناراض کرکے آگے بڑھتا ہوا معاشی طور پر مستحکم پاکستان کو معاشی مسائل کا شکار کر دیا۔

دوسری طرف بیوروکریسی نے اپنی کھال بچانے کی خاطر غیر اعلانیہ قلم چھوڑ ہڑتال شروع کر دی اور نظام مفلوج ہونے لگا تو اسٹیبلشمنٹ نے اپنی گرتی ہوئی ساکھ کو بچانے کی خاطر غیر سیاسی ہونے کا علم اٹھایا مگر جب عمران خان نیازی (ظاہری طور پر) ترلے منتوں اور تمام تر کوششوں کے باوجود معاملات کو درست نہ کرسکے تو اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ایک صفحے نہیں بلکہ ایک سطر پر ہوتے ہوئے بھی اس رشتے کو نہ سنبھال سکے۔

2018 کے آر ٹی ایس زدہ الیکشن کے دن سے مولانا فضل الرحمان نے نتائج نہ ماننے، اسمبلیوں میں نہ بیٹھنے اور دوبارہ انتخابات کا مطالبہ کیا، مگر ’’ایک زرداری ایک بار پھر سب پر بھاری‘‘ثابت ہوئے اور مولانا سمیت سب کو اسمبلی میں بیٹھنے پر راضی کر لیا‘ مگر اس عمران حکومت کے خلاف صرف مولانا نے جدوجہد کی، کئی ملین مارچ کیے، اپنے کارکنان کو مثالی طریقے سے متحرک رکھا اور جمعیت علمائے اسلام کو حقیقی معنوں میں ایک متحرک سیاسی جماعت بنانے اور منوانے میں کامیاب ہوئے جس کی ایک جھلک خیبر پختونخوا کے بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں نظر آئی تو اپنے پرائے سب حیران ہوئے کہ بغیر تیاری اور بادل نخواستہ صوبائی اور ضلعی تنظیموں کی ضد اور اسرار کی وجہ سے مولانا نے بلدیاتی انتخابات میں حصہ لینے پر راضی ہوئے تھے۔

اس دوران مولانا نے خود اپنے آبائی شہر ڈی آئی خان کے کسی انتخابی جلسے میں بھی شرکت نہیں کی۔ اگر مولانا خود متحرک کردار ادا کرتے تو صورت حال کچھ اور ہوتی۔ مگر جو محنت مولانا نے 2018 کے انتخابات کے بعد سے مسلسل کی تھی اس نے جمعیت علمائے اسلام کی جڑیں عوام میں اتنی پھیلائی تھیں کہ خود مولانا کو بھی اس کا اندازہ نہیں تھا۔ اس کامیابی نے مخالفین کے کان کھڑے کردیے اور مولانا کا راستہ روکنے کی حکمت عملی پر کام تیز کر دیا گیا۔

تحریک انصاف حکومت کی نااہلیوں کی وجہ سے ملک دیوالیہ پن کے کنارے پر پہنچا تو اسٹیبلشمنٹ نے عمران خان کے سر پر رکھے ہاتھ کو اٹھا لیا‘ یوں موقع کی تاک میں ’’سب پر بھاری ‘‘ کمر کس کر میدان میں اترے۔

میں اپنے کالموں میں شک کی بنیاد پر اس خدشے کا اظہار کرچکا ہوں کہ آصف علی زرداری بہت سوچ سمجھ کر میدان میں اترے ہیں‘ عمران خان نیازی اقتدار سے محروم ہوئے اور مقدمات میں پھنس گئے ہیں‘ ان کی سیاست کا اگلا مرحلہ پنجاب میں مسلم لیگ نون، خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں جمعیت علمائے اسلام کی سیاست کو محدودکرنا ہے۔ (جاری ہے باقی اگلے کالم میں پڑھیں )

بشکریہ ایکسپرس