97

قانون کی دھجیاں اڑانے والا برطانوی مارشل لاء

پہلی جنگِ عظیم کے خاتمے پر ہندوستان میں ایسے لرزہ خیز واقعات رونما ہوئے جن سے انسانی تاریخ کانپ اٹھی تھی۔ رولٹ ایکٹ کی تلوار شہریوں کے سر پر لٹکا دی گئی تھی اور جلیانوالہ باغ میں جو خون کی ہولی کھیلی گئی، اُس سے انسانیت لرز اُٹھی تھی۔ اِسی کے ساتھ پنجاب کے مختلف شہروں میں مارشل لا نافذ کر دیا گیا تھا جس کا آنکھوں دیکھا حال جناب میر نور اَحمد نے اپنی تصنیف ’مارشل لا سے مارشل لا تک‘ میں قلم بند کیا ہے۔ وہ حکومتِ پنجاب میں ایک عرصے تک ڈائریکٹر پبلک ریلیشنز کے منصب پر فائز رہے۔ اُن کے قومی لیڈروں سے بھی تعلقات تھے اور اُنہیں سرکاری دستاویزات اور فائلوں تک بھی رسائی حاصل تھی، چنانچہ اُنہیں واقعات کو قریب سے دیکھنے اور مستند ذرائع سے سننے کا موقع ملا۔ 1919ء میں جب انگریزوں نے مارشل لا نافذ کیا، تو اُن دنوں راجہ غضنفر علی خاں گورنمنٹ کالج لاہور میں زیرِتعلیم تھے جو بعدازاں مسلم لیگ کے مرکزی رہنماؤں میں شمار ہوئے۔ راجہ صاحب بڑے بڑے واقعات کے نوٹس لکھتے رہے تھے جو میر نور اَحمد کے سپرد کر دیے گئے تھے۔ وہ ڈاکٹر مس شروڈ کا واقعہ اِن الفاظ میں بیان کرتے ہیں:’’چند گھنٹوں کی متشددانہ کارروائیوں کے بعد فسادی منتشر ہو گئے۔ اُس دن امرتسر میں پانچ انگریز مارے گئے۔ دو بینکوں اور چار سرکاری عمارتوں کو نقصان پہنچا تھا، لیکن چند گھنٹوں کا یہ فساد آئندہ سلسلۂ اندوہناک واقعات کا نقطۂ آغاز بن گیا۔’’لاہور میں گاندھی جی کی گرفتاری کی افواہ اَور اَمرتسر کے واقعات سے متعلق جھوٹی سچی افواہیں بیک وقت پھیل گئیں۔ شام کے پانچ بجے تک (یہ 10؍اپریل کا واقعہ ہے) پھر دکانیں بند ہو گئیں اور لوگ بازاروں میں جمع ہو گئے۔ انارکلی میں ایک مجمع اکٹھا ہونا شروع ہوا۔ کچھ کالجوں کے لڑکے اور باقی تماشائی اُس میں شامل ہو گئے اور یہ مجمع جلوس کی صورت مال روڈ کی طرف چل پڑا۔ پولیس اور فوج نے اُسے ہائی کورٹ کے قریب روک دیا۔ اِس مرتبہ نرمی اور گفت و شنید کو بالائے طاق رکھتے ہوئے مجمع کو پندرہ منٹ کے اندر منتشر ہونے کا حکم دیا اور پندرہ منٹ کے بعد اُس پر گولی چلا دی گئی۔’’بہت کشمکش کے بعد یہ مجمع منتشر ہوا، تو اُس کے بکھرے ہوئے اجزا اَور کچھ نئے تماشائی لوہاری دروازے کے قریب جمع ہو گئے۔ یہاں پھر گولی چلی۔ اگلے دن جمعہ تھا۔ بادشاہی مسجد نمازِ جمعہ کے وقت انسانوں سے بھر گئی۔ نماز کے بعد حاضرین سے خطاب کرنے والوں میں ہندو لیڈر بھی شامل تھے۔ مسجد سے نکلنے والوں نے پھر جلوس کی صورت اختیار کر لی۔ کہا جاتا ہے کہ اُس وقت چند نوجوانوں کے ہاتھوں میں ڈنڈے تھے۔ یہ جلوس مختلف ٹولیوں میں تقسیم ہوتا ہوا پُرامن طریقے سے ختم ہو گیا، لیکن شام کو گورنمنٹ ہاؤس میں انتظامیہ کے افسروں کا جو اجلاس ہوا، اُس میں علاقے کے کوتوال نے رپورٹ پیش کی کہ بلوائیوں نے ’’ڈنڈا فوج‘‘ قائم کر لی ہے اور حالات سخت خطرناک ہیں، چنانچہ اگلے دن شہر کے بعض حصّوں میں مسلح فوج کی نمائشی پریڈ کرائی گئی اور سول لائنز کی فوجی چوکیوں کے علاوہ ایک چوکی بادشاہی مسجد کے قریب قائم کر دی گئی۔ یہاں تماشائیوں کا ایک ہجوم پھر جمع ہو گیا۔ اُسے منتشر ہونے کا حکم صادر ہوا اَور جب وہ منتشر نہ ہوا، تو گولی چلا دی گئی۔ یہ2 1؍اپریل کو ہوا۔ اِس کے بعد لاہور میں عوام اور پولیس کے درمیان کوئی تصادم نہیں ہوا۔’’اُدھر امرتسر میں0 1؍اپریل کے فساد کے اگلے دن جالندھر چھاؤنی سے مزید فوج بلائی گئی۔ اُس کا کمانڈر بریگیڈئر ڈائر (بعد میں جنرل) تھا۔ اُس کے ساتھ آئندہ اِنتظامات کے متعلق مشورہ کرنے کے لئے لاہور کا کمشنر امرتسر پہنچا۔ وہاں ریلوے اسٹیشن پر مقامی افسروں کا مشاورتی اجلاس ہوا۔ امرتسر کا کوتوال بھی موجود تھا۔ اُس کی رپورٹ یہ تھی کہ شہر پر بلوائیوں کا قبضہ ہے، پولیس تھانوں میں محصور بیٹھی ہے اور اِس قابل نہیں کہ تھانوں سے باہر گشت کر سکے۔ اِس رپورٹ کی بنا پر کمشنر نے بریگیڈیئر ڈائر کو اختیار دَے دیا کہ وہ اَمرتسر کا چارج سنبھال لے اور اَمن و قانون کی بحالی کے لئے جو کچھ چاہے کرے۔ یوں ڈائر کی مطلق العنان حکومت قائم ہو گئی۔’’13؍اپریل کو بیساکھی کا دن تھا۔ قرب و جوار کے دیہات سے ہزاروں لوگ امرتسر میں بیساکھی منانے آئے تھے۔ اگرچہ شہر میں ڈائر کے احکام کی ضروری اشاعت ہو چکی تھی، تب بھی باہر کے دیہاتیوں کو کیا معلوم تھا کہ شہر میں پبلک جلسے کرنا اور اُن میں شریک ہونا ڈائر لا کے تحت ممنوع ہے۔ لوگ یہ سن کر کہ جلیانوالہ باغ میں جلسہ ہو گا، وہاں جمع ہو گئے۔ جلیانوالہ باغ دراصل کوئی باغ نہیں تھا، بلکہ اونچی نیچی دیواروں سے گِھری ہوئی ایک نشیبی اور خالی جگہ تھی۔ ڈائر کو رپورٹ ملی کہ اُس کے سخت احکام کے علی الرغم وہاں پبلک جلسہ ہو رہا ہے۔ وہ فوج کے ایک دستے کو لے کر وہاں پہنچا۔ دستے کو ایک طرف جہاں ذرا اُونچی جگہ تھی، کھڑا کیا اور کسی تنبیہ اور نوٹس کے بغیر جلسے پر گولیوں کی بوچھاڑ کر دی۔ اُس نے اپنی گواہی میں تسلیم کیا کہ وہ فائرنگ کا رُخ مجمع کے گنجان حصّوں کی طرف کرتا رہا اور فائرنگ اُس وقت بند کی جب گولیاں ختم ہو گئیں۔’’مرنے والوں کی تعداد کا کوئی صحیح اندازہ کسی نے پیش نہیں کیا۔ سرکاری بیان کے مطابق یہ تعداد سینکڑوں میں تھی اور دُوسرے لوگوں کے اندازے کے مطابق ہزاروں میں۔ مرنے والوں کے علاوہ سینکڑوں زخمی رات بھر وہیں پڑے کراہتے رہے۔ کرفیو کا وقت ہو چکا تھا اور اِس قیامتِ صغریٰ کے بعد کس کی جرأت تھی کہ زخمیوں کی امداد کی خاطر کرفیو کی خلاف ورزی کرتا؟ جب کمیشن کے سامنے ڈائر سے سوال کیا گیا کہ زخمیوں کی طبی امداد ککیلئے کیا انتظام کیا گیا تھا، تو اُس نے جواب دیا: ’’یہ میرا کام نہیں تھا۔‘‘امرتسر پر موت کی خاموشی چھا گئی۔ لاہور میں بھی مظاہروں کا زور ختم ہو چکا تھا، تاہم5 1؍اپریل کو لاہور، امرتسر اور پنجاب کے کئی شہروں میں مارشل لا نافذ کر دیا گیا اور لاقانونیت کے خوفناک مناظر تاریخ نے محفوظ کر لئے تھے۔ (جاری ہے)

بشکریہ جنگ نیوزکالم