154

نوے دن کی کہانی

بار بار ایک سوال کیا جار ہا ہے کہ آپ کو کیسے پتہ تھا کہ پنجاب اور خیبر پختونخوا کی اسمبلیاں ٹوٹنے کے بعد نوے دن میں الیکشن نہیں ہوگا؟ 

شروع شروع میں یہ سوال سن کر میں جھنجلا جاتا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ پہلی دفعہ وسیم بادامی صاحب نے جنوری 2023ء میں اپنے ٹی وی شو میں مجھ سے پوچھا کہ الیکشن کو نوے دن سے آگے کیسے لے جایا جائے گا؟ 

میں نے انہیں تفصیل کے ساتھ بتایا کہ الیکشن کمیشن کہے گا کہ ہمارے پاس فنڈز نہیں ہیں، حکومت فنڈز نہیں دیگی اور ایک بہت بڑا آئینی بحران پیدا ہوگا۔ 

میرے جواب نے سوشل میڈیا پر ایک طوفان برپا کردیا اور کہا گیا کہ یہ خبر نہیں بلکہ ایک خواہش ہے جو کبھی پوری نہیں ہوگی۔ 

پھر شاہ زیب خانزادہ نے اپنے شو میں دوبارہ پوچھا کہ انتخابات نوے دن میں ہونگے یا نہیں؟ میں نے واضح انداز میں کہا کہ میری خواہش ہے کہ انتخابات نوے دن میں ہو جائیں لیکن خبر یہ ہے کہ نوے دن میں نہیں ہونگے۔

 آج کل حالات ایسے ہیں کہ مجھ جیسے صحافی کسی سوال کا درست جواب دیں تو سننے والے اپنی اپنی پسند کے مطابق فیصلہ کرتے ہیں کہ جواب درست تھا یا نہیں اور جن کو جواب پسند نہیں آتا وہ آپ کے بارے میں سازشی مفروضوں اور الزامات کی بھرمار کردیتے ہیں۔ میں اس قسم کے الزامات کے باوجود اپنے موقف پر قائم رہا۔

پھر لاہور ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ نے بھی نوے دن میں الیکشن کا حکم دیدیا۔ عدالتی احکامات کے باوجود میں اس موقف پر قائم رہا کہ الیکشن نوے دن میں نہیں ہوگا لیکن ساتھ ہی ساتھ یہ گزارش بھی کرتا رہا کہ خدارا پاکستان کے آئین کو تماشا نہ بنائیں۔ 

پھر جب نظر آنے لگا کہ الیکشن نوے دن میں نہیں ہوگا تو پوچھا جانے لگا کہ آپ کو کیسے پتہ تھا الیکشن نوے دن میں نہیں ہوگا؟ یہ سوال وہ دوست کر رہے تھے جو پہلے مجھ سے اتفاق کرنے کی بجائے کہتے تھے کہ الیکشن نوے دن کے اندر ہی ہوگا۔ 

یہ ناچیز مسکرا کر اس سوال کو نظر انداز کرتا رہا۔ ہر وقت ہر کسی کو آپ یہ نہیں بتا سکتے کہ آپ کا کہا صحیح کیوں نکلا؟ اس دوران بہت سے دوست اور ساتھی ناراض ہوگئے کیونکہ میں نے ان کے ٹی وی شوز میں شرکت سے معذرت کرلی ۔ معذرت کی وجہ صرف ایک سوال سے فرار نہیں بلکہ تنگی وقت بھی تھی۔ آپ ایک دن میں دو دو تین تین شو نہیں کرسکتے اور بار بار ایک ہی طرح کے موضوعات پر بولتے رہنا اپنے آپ کو بھی اچھا نہیں لگتا۔ 

عید کے دنوں میں نسیم زہرہ صاحبہ نے حکم دیا کہ مجھے ان کے شو میں آنا ہے میں نے ڈرتے ڈرتے کوئی بہانہ بنا دیا لیکن انہوں نے بڑی شان بے نیازی سے میرا بہانہ مسترد کردیا۔ انہوں نے عرصہ دراز سے ہماری بڑی بہن کی پوزیشن حاصل کر رکھی ہے اور ہم نے کبھی اس پوزیشن کے احترام میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اس قسم کی پوزیشن پر بیٹھے لوگ اکثر اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہیں۔ لہٰذا ہماری بڑی بہن صاحبہ نے ہماری بہانے بازی پر انگریزی زبان کا ایک ایسا لفظ استعمال کیا جس نے ہمیں فوراً ہاں کہنے پر مجبور کردیا۔ ہاں کہنے کے بعد ان سے صرف اتنی گزارش کی براہ کرم مجھے سیاست میں نہ الجھایئے گا۔ انہوں نے کمال شفقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایسا ہی کیا۔ 

اپنے شو کی ابتدا میں مہنگائی پر گفتگو کرنے کے بعد انہوں نے کشمیر پر سوال کر ڈالا۔ یہ ان کا محبوب موضوع ہے اور جس نے ان کی کتاب FROM KARGIL TO THE COUPنہیں پڑھی وہ پاکستان کی سیاست میں مسئلہ کشمیر کی اہمیت کو نہیں سمجھ سکتا۔ پاکستان کے اکثر سیاسی و غیر سیاسی حکمرانوں کے عروج و زوال میں مسئلہ کشمیر کار فرما تھا۔

گفتگو کے دوران نسیم زہرہ نے کہہ دیا کہ جنرل باجوہ کا کورٹ مارشل ہونا چاہئے۔ کچھ باتیں میں نے بھی کہہ دیں اور یوں ایک نیا تنازع کھڑا ہوگیا۔ کسی نے کہا کہ یہ باتیں آج کیوں کی جا رہی ہیں پہلے کیوں نہ سامنے لائی گئیں، کسی نے کہا کہ یہ باتیں سیاق و سباق سے ہٹ کر کی گئیں۔ 

مجھ پر تابڑ توڑ حملے کرنے والوں میں وہ اینکرز سرفہرست تھے جن کو پچھلے دنوں میں نے ذاتی مصروفیات کی وجہ سے وقت دینے سے معذرت کی تھی۔ 

دلچسپ بات یہ ہے کہ جنرل باجوہ پر تنقید سے زیادہ تکلیف کچھ بھارتی صحافیوں کو ہوئی کیونکہ ان بھارتی صحافیوں کا خیال ہے کہ باجوہ نے پاکستان اور بھارت کو قریب لانے میں بہت اہم کردار ادا کیا۔ ان میں ایسے بھی ہیں جو پاکستان آ کر آف دی ریکارڈ بریفنگز سے مستفید ہوتے اور واپس جا کر کہتے تھے کہ بھارت کو پاکستان کے ساتھ کرکٹ نہیں کھیلنی چاہئے۔ 

میرے پاس ایسے بھارتی صحافیوں کے پیغامات آئے جن کا خیال ہے کہ نسیم زہرہ نے مجھے اپنے کسی سازشی ایجنڈے کے لئے استعمال کرلیا۔ دوسری طرف نسیم زہرہ اپنے موقف پر ڈٹی رہیں بلکہ انہوں نے کچھ صاحبان کو قانونی نوٹس بھی دے دیئے ہیں۔ 

یہ تفصیل بتانے کا مقصد صرف یہ ہے کہ نسیم زہرہ نے مجھ سے کشمیر کا سوال اس لئے پوچھا کیونکہ میں نے درخواست کی تھی کہ مجھے پاکستانی سیاست میں نہ الجھایا جائے۔ اب تو آئی ایس پی آر نے اس معاملے پر وضاحت بھی کر دی ہے۔ 

ناقدین کو صرف یہ عرض کرنا ہے کہ 5اگست 2019ء کو بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی آئینی حیثیت تبدیل کی تھی۔ عین اس دن روزنامہ جنگ میں اس خاکسار نے کشمیر کی صورت حال پر کالم لکھا تھا کیونکہ باجوہ صاحب نے بھارت کیساتھ بیک ڈور چینل 2017ء سے کھول رکھا تھا۔ بھارت کے بارے میں ان کے تمام اندازے غلط اور ہمارے صحیح ثابت ہو رہے تھے۔ اگر وہ بھارت سے دوستی کی کوشش پارلیمینٹ کو اعتماد میں لے کر کرتے تو بہتر ہوتا لیکن باجوہ اور عمران خان دونوں نے پارلیمینٹ کو ایک ربڑ اسٹیمپ بنا رکھا تھا۔

آج عمران خان ہر قیمت پر دوبارہ ایک ایسا اقتدار حاصل کرنا چاہتے ہیں جس میں وہ ایک دفعہ پھر اختیار سے محروم ہوں گے۔ 

پچھلے دنوں ہمدم دیرینہ عامر متین نے اپنے ٹی وی شو میں الیکشن کے التوا کی وجہ پوچھی تو میں نے انہیں تفصیلی جواب دیا۔ عرض کیا کہ مجھے نوے دن میں الیکشن نہ ہونے کا اس لئے پتہ تھا کہ میں اپنے ذاتی تجربے کی روشنی میں جانتا ہوں کہ پاکستان میں آئین غیر موثر ہو چکا ہے۔

میں اپنی صحافتی زندگی میں تین دفعہ پابندیوں اور کئی قاتلانہ حملوں کا سامنا کر چکا ہوں۔ مجھ پر کبھی کسی عدالت کے حکم پر پابندی نہیں لگی نہ کسی عدالت نے یہ پابندی ختم کرائی۔ ایک قاتلانہ حملے کی انکوائری چیف جسٹس آف پاکستان نے کی لیکن وہ میرے نامزد کردہ ملزم کو انکوائری کمیشن کے سامنے بلانے میں ناکام رہے۔ 

ستم ظریفی تو یہ تھی کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے مشہور زمانہ تھانہ رمنا میں میرے خلاف ایک ایسے واقع کی ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دیا جو شمالی وزیرستان میں کئی سال قبل پیش آیا جب تھانہ رمنا کا وجود ہی نہ تھا۔ 

کسی کو اچھا لگے یا برا عدالتیں بے چارے سیاستدانوں کو پھانسی بھی لگا دیتی ہیں اور جیل میں بھی ڈال دیتی ہیں لیکن مشرف کے معاملے پر سرنڈر کردیتی ہیں۔ 

جن ججوں کے فیصلے ساس اور بیٹے کے مفادات کا شکار ہو جائیں وہ نوے دن میں الیکشن نہیں کرا سکتے۔ 

آگے کی بھی سن لیں۔ الیکشن جب بھی ہوئے اقتدار انہیں نہیں ملے گا جو ایک کروڑ بیس لاکھ میں کسی پارٹی کا ٹکٹ بیچ رہے ہیں۔

بشکریہ جنگ نیوزکالم