82

26 اپریل 1986 (آخری حصہ)

فرانسیسی سائنسدان سوزان سولومن ہے، جو انٹارکٹک کے فرانسیسی اسٹیشن پر ایک عرصے تک متعین رہی اور سترہ سائنسدانوں کی ٹیم کی سربراہ تھی۔

وہاں ایک مہینے تک برف پر مختلف تجربات کرنے کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچی کہ زمین کی فضا کے حفاظتی غلاف اوزون میں امریکا کے رقبے کے برابر جو سوراخ ہوچکا ہے، اسے ماحول کی آلودگی کے علاوہ نیو کلیائی تجربات بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچا رہے ہیں۔ یاد رہے کہ چند برس پہلے امریکیوں نے فرانس کے کانکورڈ طیاروں کو بھی اوزون کے غلاف کو نقصان پہنچانے کا ذمے دار ٹھہرایا تھا۔

امریکی محقق کارل ساگان اور روسی سائنسدان نکیتا موسیو یو اس بات پر متفق رہے ہیں کہ دنیا میں اگر نیو کلیائی جنگ چھڑ گئی تو اس کے نتیجے میں نہ صرف یہ کہ کروڑوں ٹن دہکتی ہوئی راکھ دنیا پر برسے گی جس کی وجہ سے دنیا مکمل تاریکی میں ڈوب جائے گی اور ’’ نیوکلیائی رات ‘‘ کا آغاز ہوگا بلکہ اوزون کا غلاف بھی پارہ پارہ ہوجائے گا۔ یہ وہ غلاف ہے جو کرۂ ارض پر انسان کو سورج کی بالائے بنفشی شعاعوں سے محفوظ رکھتا ہے۔

فرانسیسی سائنسدان ریوز نے لکھا کہ دنیا پر نیو کلیائی راکھ کی گرد کی جو چادر تنے گی، سورج کی گرمی اور روشنی اس دبیز چادر سے گزر نہیں سکے گی جس کے نتیجے میں دنیا کا درجہ حرارت نقطہ انجماد سے بیس اور تیس درجے نیچے گرجائے گا۔

تب دنیا میں اس نیو کلیائی ’’ سردی ‘‘ کا آغاز ہوگا جس کی تباہ کاریوں کا انسان ابھی اندازہ بھی نہیں کرسکتا۔ موسموں کی اس اچانک تبدیلی کے سبب سمندروں اور ہواؤں میں بھیانک تلاطم ہوگا جو خوفناک طوفانوں کو جنم دے گا۔ بے پناہ سردی اور سورج کی روشنی زمین پر نہ پہنچنے کے سبب روئیدگی ختم ہوجائے گی۔

جیکوارڈ بتاتا ہے کہ سال چھ مہینے بعد نیو کلیائی راکھ کی برسات جب ختم ہوگی اور ’’ نیو کلیائی رات ‘‘ سے دنیا کو نجات دینے کے لیے سورج کی روشنی زمین پر پہنچے گی تو اوزون کا غلاف تباہ ہوجانے کے سبب، سورج کی وہی روشنی جو دنیا کے لیے سرچشمہ حیات تھی، اس کی بالائے بنفشی شعاعیں دنیا میں تباہی مچا دیں گی۔

اور جب یہ سب کچھ ہورہا ہوگا اس وقت کرۂ ارض پر انسان کا نام و نشان بھی نہیں ہوگا۔ جیکوارڈ لکھتا ہے کہ یورپ اور امریکا کے وہ لوگ جو اس خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ زیر زمین جوہری پناہ گاہیں انھیں موت سے، ہلاکت اور عذاب سے محفوظ رکھیں گی۔ وہ اپنے آپ کو محض بہلا رہے ہیں۔ اس کا اصرار ہے کہ اپنی ایجاد کا پہلا لقمہ تر خود انسان ہوگا جو نیو کلیائی جنگ کا آغاز ہوتے ہی بھاپ بن کر اُڑ جائے گا، خاک بن کر بجھ جائے گا۔

اس مرحلے پر مجھے فلم ’’ لیٹر فرام اے ڈیڈ مین‘‘ یاد آتی ہے جس میں عام انسانوں کے نام، مستقبل کی جانب سے بھیجا جانے والا ایک کھلا ہوا خط جو ہماری نفرتوں اور ہماری دشمنی کی لایعنیت ہم پر عیاں کرتا ہے۔

ہمارے ذہنوں میں اس سوال کو اٹھاتا ہے کہ ہم ایک ایسی جنگ کیوں لڑیں جس میں ہر فریق محض ہارنے کے لیے لڑے گا اور یہ ہار چند انسانوں یا چند قوموں کی نہیں، تمام انسانیت کی ہوگی۔

’’ دی لیٹر فرام اے ڈیڈ مین‘‘ کا ایک کردار کہتا ہے ’’ اب وقت آگیا ہے کہ ہم یہ بات تسلیم کر لیں کہ انسان کی تاریخ ہر زندہ شئے کو ملیا میٹ کر دینے کی تاریخ ہے۔ انسان کو دانش دی گئی تھی لیکن وہ اس دانش کو استعمال کرنے کے طریقے نہیں جانتا تھا۔

اس کی ذہانت نے وہ تمام طریقے ایجاد کیے جن کے ذریعے انسان اور انسانیت مکمل طور پر خودکشی کرسکیں۔ وقت آگیا ہے کہ ہم انسان اس بات کا اعتراف کر لیں کہ ہم مکمل طور پر ناکام رہے ہیں۔ ہم انسانیت کے نام پر ایک تہمت ہیں۔ فطرت نے ہمیں جو کچھ عطا کیا تھا ، ہم نے اس میں سے ذرہ برابر بھی استعمال نہیں کیا۔‘‘

26؍ اپریل 2023 کو تاریخ کے بدترین ایٹمی حادثے کو رونما ہوئے 37 سال گزرچکے ہیں۔ اس موقع پر مجھے آئن اسٹائن یاد آتا ہے جس نے امریکی صدر کو ایک خط لکھا تھا جس میں اس نے کہا تھا کہ ’’ اگر مجھے گمان بھی ہوتا کہ جرمنی ایٹم بم بنانے میں کامیاب نہ ہوسکے گا تو میں اس بم کے سلسلے میں کچھ نہ کرتا۔‘‘ آئن اسٹائن نے اپنی آخری عمر اسی احساس جرم کے ساتھ بسر کی تھی اور پھر اس کا کفارہ اس طرح ادا کیا کہ آخری سانس تک جوہری اسلحے اور جنگی جنون کے خلاف اپنی پوری قوت سے لکھتا اور بولتا رہا۔

آئن اسٹائن نے جوہری اسلحے کے خلاف اس وقت آواز بلند کی جب ترقی یافتہ ملکوں کے صرف رہنما ہی نہیں، ان کی رائے عامہ بھی تباہ کن ہتھیاروں کو تیار کرنے اور موقع آنے پر اسے ’’ دشمن ‘‘ کے خلاف استعمال کرنے کے حق میں تھی۔ یہی وہ جنگجویانہ رویہ تھا جس نے دنیا میں ایٹم بم کے حصول کو قوموں کی بڑائی اور ان کی عزت نفس کا مسئلہ بنا دیا۔

آئن اسٹائن، برٹرینڈ رسل، آندرے سخاروف وہ لوگ تھے جنھوں نے ’’ غداری ‘‘ اور ’’ وطن دشمنی ‘‘ کے الزام سنے اور سہے۔ انھیں ماؤف بوڑھوں کے نام سے پکارا گیا۔ ان کے ہم وطنوں نے ان پر گندے انڈے اور ٹماٹر برسائے۔ برٹرینڈرسل کو لندن کی سڑکوں پر گھسیٹا گیا اور اس خوش خیال فلسفی کے ساتھ کسی مجرم اور آوارہ گرد کا سا سلوک کیا گیا۔

آئن اسٹائن نے جلاوطنی کی زندگی گزاری، آندرے سخاروف نے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں لیکن ان لوگوں نے ہمت نہیں ہاری، اپنی آواز مدھم نہیں ہونے دی۔ یہ لوگ تنہا اس عذاب ناک سفر کو طے کرتے رہے جو یہ آنے والی نسلوں کی زندگی، ان کی خوشحالی اور ان کی خوش خیالی کے لیے کر رہے تھے۔ انھوں نے یہ دکھ ان کے لیے اٹھائے جو ابھی پیدا بھی نہیں ہوئے تھے۔

غرض ایک طرف نیوکلیائی اندھیرے اور رگوں میں خون جما دینے والی سردی کا دہشت ناک تصور ہے تو دوسری طرف روشنیوں سے جگمگاتے ہوئے شہر، قصبے اور دیہات ہیں۔ ایک جانب تابکاری سے اذیت ناک موت کے گھاٹ اترتا ہوا انسان ہے تو دوسری جانب طبی مراکز میں بچائی جانے والی انسانی جانیں ہیں۔

متعدد فرانسیسی، برطانوی، امریکی اور روسی سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ ہم انسان اور انسانیت کی مکمل تباہی کی ذمے داری نہیں لے سکتے۔ ہم جانتے ہیں کہ کسی بھی نیو کلیائی جنگ کی صورت میں دنیا کا خاکستر ہوجانا اور بنی نوع انسان کا بلکہ دنیا سے ہر ذی حیات کا نابود ہوجانا حتمی ہے۔

اسی لیے ہم دنیا بھر کے انسانوں کو ان خطرات سے آگاہ کرنا چاہتے ہیں جو ان کے سروں پر اور ان کی آنیوالی نسلوں کے مستقبل پر منڈلا رہے ہیں۔

یہ ہمارے ضمیر کا مسئلہ ہے اور ہمارے وجود کا بھی۔ ہم اپنے بعد اپنی نسلوں کی صورت میں زندہ رہنا چاہتے ہیں، اپنی زمین کو ان کی آنکھوں سے دیکھنا چاہتے ہیں اور اسے ان کی انگلیوں سے محسوس کرنا چاہتے ہیں۔ اسی لیے ہم ان اداروں اور ان افراد کے خلاف مسلسل صدائے احتجاج بلند کرتے رہیں گے جو انسانوں کو اس اجتماعی خودکشی کی طرف دھکیل رہے ہیں۔

انسان نے تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھا، اگر کچھ سیکھا ہوتا تو بار بار پرانی غلطیاں نہیں دہراتا۔ یو کرین کا چرنوبل ایٹمی پاور پلانٹ بند پڑا ہے۔ اطلاعات ہیں کہ روس نے اس علاقے پر فروری میں قبضہ کرلیا تھا اور تابکاری کے اثرات والی جگہ کے قریب خندقیں بھی کھود لی گئی تھیں۔

اب نہیں معلوم کہ چرنوبل کس کے قبضے میں ہے۔ امید کی جانی چاہیے کہ دنیا کی اقوام پچھلی دو صدیوں کے تنازعات اور جنگوں کو 21 ویں صدی میں جاری رکھنے سے گریز کریں گی تاکہ ہماری خوبصورت دنیا ایٹمی جنگ کے باعث فنا ہونے سے محفوظ رہے۔

بشکریہ ایکسپرس