کسانوں کی آزمائش

گندم کی فصل کی کٹائی کے سلسلے میں چند روز کے لیے لاہور سے گاؤں کا رخ کیا ہے لیکن گاؤں پہنچتے ہی ان تکلیف دہ مناظرنے طبیعت مکدر کر دی کیونکہ ایک روز پہلے کی بارش اور ژالہ باری نے میرے کسان بھائیوں کی سال بھر کی محنت کو تباہ و برباد کر دیا ہے۔

وادی سون میں گندم کی فصل جو چند روز پہلے تک اپنے جوبن پر تھی اور کسان ہر روز اپنے لہلاتے کھیتوں کو دیکھ کر خوشی سے پھولے نہیں سما تے تھے کہ اس بار گندم کی فصل ان کے گزشتہ فصلوں کے خسارے کو پورا کر دے گی لیکن خدا کی ذات کو کچھ اور ہی منظور تھا۔

گندم کی کٹائی کے وقت ایک ضرب المثل بہت مشہور ہے کہ گندم کی فصل جب تیار ہو جاتی ہے تو کسان یہ کہتے سنائی دیتے ہیں کہ انھیں اس وقت تو ’’سونے کی ’’کنی‘‘ بھی قبول نہیں ہے‘‘ یعنی کہ بارش کی ایک بوند بھی نہیں برسنی چاہیے۔

اگر اس دوران بارش ہو جائے تو کسانوں کی سال بھر کی محنت برباد ہو جاتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ غریب کسان اپنی فصل کی محبت میں سونے کی بارش کو بھی ٹھکرانے کو تیار دکھائی دیتے ہیں، ایک اور ضرب المثل بھی بہت مشہور ہے کہ ’’ جنہاں دے گھر دانے انہاں دے کملے وی سیانے‘‘ یعنی جس گھر میں سال بھر کھانے کے لیے گندم موجود ہو ،ان کے گھر میں اگر کوئی کم عقل بھی موجود ہے تو اس کو بھی آپ عقل مند ہی سمجھیں۔ پنجابی کے ہر محاورے کے پیچھے ایک پوری تاریخ، حقائق اور سبق ہوتا ہے اور محض لفظی ترجمہ ممکن نہیں ہوپاتا ۔

بہر حال لاہور کی بے مقصد مصروف زندگی سے جان چھڑا کراس مرتبہ گاؤں پہنچ کر بھی وہ خوشی نصیب میں نہ تھی جس کے لیے کئی سو کلو میٹر کا سفر طے کیا تھا۔

کسان بھائیوں کے اداس چہرے یہ بتا رہے تھے کہ ان کی سال بھر کی محنت ژالہ باری کی وجہ سے برباد ہو گئی ہے اور گندم کے خوشوں میںجو کچھ بچ گیا ہے وہ اب ان کی سال بھر کی خوراک کی ضرورت بھی پوری نہیں کر سکتا ،کجا کہ ان کو فصل کی فروخت سے مالی فائدہ بھی ہو جاتا ۔

قدرتی آفات انسانی زندگی کا لازم و ملزوم حصہ ہیں اﷲ تبارک و تعالیٰ اپنے بندوں کو ایسی ہی آزمائشوں سے گزار کر اپنے وجود کا احساس دلاتا ہے کہ کوئی ایسی ان دیکھی ذات بھی موجود ہے جو جب چاہے کچھ بھی کر سکتی ہے اور شاید ہمارے اعمال ہی ایسی آزمائشوں کا باعث بنتے ہیں۔

ہم مسلمانوں میں توکل بالکل ختم ہو چکا ہے اور ہم اس ان دیکھی ذات پاک کی رحمت سے زیادہ شاید اپنے زمینی خداؤں اور اپنے زور بازو پر زیادہ بھروسہ کرنے لگے ہیں، یہی وجہ سمجھ میں آتی ہے کہ نفسا نفسی کے اس دور میں ہم نے اپنے سے کم وسیلہ لوگوں کی خبر گیری میں کوتاہی برتنا شروع کر دی ہے اور ہم اب صرف اپنے پیٹ کوہی دیکھ رہے ہیں اورگردو پیش کی کوئی خبر نہیں رکھتے کہ ہمارا ہمسائیہ یا کوئی عزیز رشتے دار کس حال میں زندگی گزار رہا ہے اور اسے ہماری مدد کی کس قدر ضرورت ہے ۔

اﷲ تعالیٰ ہمارے نصیب میں جو رزق لکھ دیتے ہیں اس میں ان لوگوں کا بھی ایک حصہ مقرر ہے جو کم وسیلہ ہیں اور ہمارے ساتھ ہی جیسے تیسے جسم و جاں کارشتہ برقرار رکھے ہوئے ہیں ۔صاحب استطاعت اپنے رزق میں سے اگر کسی کی مدد کرتے ہیں تو وہ صرف اپنا فرض انجام دیتے ہیں کیونکہ ان کے رزق کے ساتھ اﷲ تعالیٰ نے کسی اور کا رزق بھی وابستہ کر دیا ہوتا ہے اور ان لوگوں کا کام صرف اپنے رزق میں سے ان کم وسیلہ افراد کوان کا حصہ پہچانا ہوتا ہے لیکن وہ یہ سمجھ لیتے ہیں کہ وہ اپنے رزق میں سے ان کو کچھ حصہ پہنچا رہے ہیں حالانکہ اﷲ تعالیٰ نے ان کو صرف وسیلہ بنایا ہوتا ہے۔

گاؤں میں کاشتکار بھائیوں سے فصل کے خراب ہونے کا افسوس کیا تو جواب میںکہنے لگے کہ اﷲ کو یہی منظور تھا لیکن وہ پر عزم تھے کہ جس ذات پاک نے ان کو اس آزمائش میں ڈالا ہے وہی مسبب ا لاسباب ہے اور وہ اگلی فصل کی کاشت کے لیے کمر باندھ چکے ہیں ۔

میں اکثر لکھتا ہوں کہ اگر توکل کی انتہاء دیکھنی ہو توان کسانوں کو دیکھیں جو اپنی تمام جمع پونچی فصل کی کاشت کے لیے زمین کی تیاری سے لے کر بیج، کھاد اور آب پاشی کے لیے مٹی میں ملا دیتے ہیں اور پھر فصل کی دیکھ بھال میں مصروف ہو کررحمت خداوندی کے منتظر رہتے ہیں کیونکہ وہ یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ انسان کورزق کی فراہمی کا وعدہ اﷲ تعالیٰ کا ہے اور وہی ان کی محنت کا اجر دے گا۔

ہم شہروں میں رہنے والے کیا جانیں کہ ہمارے کسان بھائی ہمارے پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے کتنی محنت کر تے ہیں، شہروں میں ہمیںاجناس کی گرانی کا گلہ رہتا ہے لیکن ہم نہیںجانتے کہ ان اجناس کی تیاری کے لیے کس قدر محنت ہوتی ہے اور ان اجناس سے حاصل شدہ آمدن سے سال بھر کے بعد کسی بیٹی کے بیاہ کے لیے جہیز تیار ہوتا ہے۔

بشکریہ روزنامہ آج