91

کمرشلزم+فاشزم=؟

وقت کی رفتار تیز ہوگئی ہے۔ آپ جب یہ سطور پڑھ رہے ہوں گے۔ بہت کچھ ہوچکا ہوگا۔ اللہ تعالیٰ اس سرزمین کی حفاظت کرے۔ عقل اور تدبر ملک بدر ہوچکے ہیں۔پارلیمانی نظام میںالجھے ہوئے مسائل، انتشار،افراتفری کا ایک ہی حل ہوتا ہے۔ وسط مدّتی انتخابات۔ پارلیمانی جمہوریتوں کی تاریخ سے اس کی مثالیں لی جاسکتی ہیں۔ سنگین سے سنگین بد حالی بھی نئے مینڈیٹ سے دور ہوتی رہی ہے۔ مگر یہ ان ملکوں میں ہوتا ہے جہاں ایک سسٹم کی عملداری ہوتی ہے۔ افراد کی نہیں آئین کی برتری ہوتی ہے۔ہمارے ہاں جو کچھ ہورہا ہے۔ مسائل کی جھاڑیاں پھیلتی جارہی ہیں۔ جڑوں سے جڑیں نکل رہی ہیں۔ شاخوں سے شاخیں پھیل رہی ہیں۔ بہت سے کمزور دل والے پریشان ہیں۔ نفسیاتی حقیقت یہ ہے کہ آپ میں سے ہر ایک ہم وطن ملکی صورت حال سے دل برداشتہ ہے۔ سونے سے پیشتر دعاکرتا ہے۔ صبح اٹھ کر پھر دیکھتا ہے کہ حالات کی پیچیدگی کچھ دور ہوئی ہے کہ نہیں۔ معاملات اسی طرح الجھتے نظر آئیں تو بعض اوقات برداشت جواب دے جاتی ہے۔ ذہنی امراض بڑھ رہے ہیں۔

تشویش ناک امر یہ ہے کہ کوئی ریاستی عہدیدار، ادارتی سربراہ، حکومتی شخصیات، سیاسی لیڈر، میڈیا کوئی بھی یہ نہیں سوچ رہا نہ کوئی عملی قدم اٹھارہا ہے کہ ہر روز جس قسم کے پیغامات دیے جارہے ہیں۔ ادارے اداروں کو جس طرح للکار رہے ہیں۔ ہمارے لیڈر جس قسم کی جنگی زبانیں استعمال کررہے ہیں۔ اس سے عام مائوں بہنوں بچوں بزرگوں کے ذہنوں پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ان کے دلوں پر کیا گزرتی ہے۔ خاص طور پر ہمارے ہم عصر جو 70 سے اوپر کے برسوں میں سانس لے رہے ہیں۔ان کاکیا حال ہوتا ہے۔ ٹی وی چینل جو عوام کی معلومات کا ذریعہ ہیں۔ وہ خبروں میں ،تجزیوں میں ،تبصروں میں جن الفاظ، اصطلاحات، تراکیب سے سامعین ناظرین کو آگاہ کررہے ہیں۔ وہ کبھی تیز آندھی کے جھکڑوں کی طرح ان کے ذہنوں کو زیر و زبر کرتی ہیں۔کبھی سیلابی لہروں کی طرح ساتھ لے چلتی ہیں۔ چینل خوش ہوتے ہیں کہ ان کی ریٹنگ بڑھ رہی ہے۔ لیکن سننے والوں پر کیا بیتتی ہے۔ ان کے دل کی دھرکنیں بڑھتی ہیں یا متزلزل ہوتی ہیں۔ اس سے انہیں سروکارنہیں۔

کسی فرد یا ادارے کی طرف سے ایسی آواز نہیں آتی ۔ جس سے یہ تسلی ہو کہ اب ملک کسی نتیجے کی طرف رُخ کررہا ہے۔ الجھی ہوئی لٹیں سلجھ رہی ہیں۔ خلق خدا پر ظلم و استبداد کم ہورہا ہے۔ اب لوگوں کے گھروں پر شب خون نہیں مارے جارہے ۔ نوجوان لاپتہ نہیں ہورہے ہیں۔ مائیں اپنے جگر کے ٹکڑوں کے لئے فریاد نہیں کرر ہیں۔ بلوچستان والوں کو بشارت مل رہی ہے کہ اب ان کی محرومیاں دور ہورہی ہیں۔ جنوبی پنجاب کے والدین کو نوید مل رہی ہے کہ اب ان کی اولادیں بے روزگار نہیں رہیں گی۔ پنجاب کے میدانوں سے چوہدریوں اور خان صاحبان کا زور ٹوٹ رہا ہے۔ افسوسناک رجحان یہ ہے کہ سیاسی لیڈروں۔ کارکنوں اور عہدیداروں کو مزا اس صورت میں آتا ہے کہ ان کے بڑے کی طرف سے اپنے مخالف سیاستدان کو کس زبان میں جواب دیا جارہا ہے۔ میں انتہائی کرب سے مگر دل کی گہرائی سے یہ بات کررہا ہوں کہ 75سال میں کسی وزیراعظم۔ کسی وزیر۔ کسی سیاسی سربراہ کو یہ درشت لہجہ۔ گالم گلوچ۔ اختیار کرتے نہیں دیکھا تھا۔ سات دہائیوں کے بعد تو ایک نو آزادملک کو تہذیب و تمدن میں بہت آگے ہونا چاہئے تھا۔

تاریخ اور تہذیب کے ایک طالب علم ہونے کی حیثیت سے یہ تو میرا یقین ہے کہ تاریخ کے پہیے کو پیچھے دھکیلا نہیں جا سکتا اسلئے میں یہ تو نتیجہ اخذ نہیں کروں گا کہ پاکستانی معاشرہ پیچھے جا رہا ہے۔ کوشش ضرور ہو رہی ہے۔ مگر ہمارے عوام کی اکثریت ذہنی طور پر آگے بڑھ رہی ہے۔ اشرافیہ یا حکمران طبقے مال و دولت اور تمام مواقع ہونے کے باوجود ذہنی طور پر آزاد نہیں ہیں انہیں دولت کی ہوس نے اپنے مفادات کا غلام بنا دیا ہے۔ وہ اپنے ذاتی مفادات کی تکمیل کیلئےہر اصول کی نفی کر رہے ہیں۔ ان میں سے اکثر دہری شہریت کے حامل ہیں۔ اسے گلوبلائزیشن کہیں یا کچھ بھی۔ اس سے جو روایتی حب الوطنی کہلاتی تھی۔ ایک سر زمین سے وابستگی جو عشق کی حد تک ہوتی تھی۔ اب بے معنی ہو گئی ہے۔ اب جس وطن سے ترک ہورہا ہے نہ اس سے وہ پُرجوش قربت رہی ہے اور جس نئے وطن کا پاسپورٹ حاصل ہوا ہے نہ اس کو اپنی زمین سمجھا جا رہا ہے۔ وطن پرستی، زمین کی فرزندی، سب غیر متعلق ہو گئے ہیں۔ قوم پرستی پس منظر میں چلی گئی ہے۔ کمرشل مفادات، زندگی کی آسانیاں فوقیت حاصل کر گئی ہیں۔ رشتے داری کمرشل ہے۔ سرمایہ لگانا بھی سرمایہ بنانے کیلئے ہے۔ حتیٰ کہ یہ بھی ہو رہا ہے کہ بہت سی ریاستیں کمرشل بنیادوں پر شہریت پیش کررہی ہیں۔ جب پیسے کی بنیاد پر آپ کسی ترقی یافتہ ملک کے شہری ہو سکتے ہیں تو پھر کہاں کی زمیں۔ کہاں کی فرزندی۔ جذباتیت بھی وہیں دکھائی جارہی ہے جہاں کچھ پیسوں کا فائدہ ہو۔ افراد ہو یا کمپنیاں۔ سب کا نقطۂ نظر تجارتی ہے۔

سوچنے کا مرحلہ ہے کہ اب ملّی نغمے۔ زمین سے الفت۔ سرحدوں سے جذباتی لگائو اب اس شدت کا نہیں ہے۔ جو کچھ صدیاں پہلے ہوتا تھا۔ کیا کوئی یونیورسٹی یہ تحقیق کررہی ہے۔ کوئی تجزیہ کار یہ دیکھ رہا ہے کہ گلوبلائزیشن سے۔ ترک وطن سے ۔ دہری شہریت سے اپنی سر زمین سے یگانگت جذباتی طور پر کم ہونے سے کیا افراد، سرکاری ملازمین، وزراء، ارکان اسمبلی، صنعت کاروں، ٹیکنو کریٹس اور اقتصادی ماہرین کا اپنے شہر، اپنے صوبے اور ملک کی بہبود۔ ترقی کیلئے سوچ میں خلوص رہا ہے یا یہ رشتہ صرف کمرشل ہے۔ امکانات اور مواقع موجود ہیں کہ کسی دوسرے ملک میں اپنی صلاحیتوں کی بنیاد پر آگے بڑھا جا سکتا ہے۔ پُر سکون زندگی گزاری جا سکتی ہے۔ بیٹوں بیٹیوں کو تحفظ مل سکتا ہے تو یہ سوچ معروضی ہے یا نہیں۔ ایسی خواہش اگر پیدا ہورہی ہے تو کیا اسے وطن سے لاتعلقی کہا جاسکتا ہے۔ اگر ایسی سوچ زیادہ پھیل رہی ہے۔ تو یہ اس ملک کیلئےتشویشناک ہے یا نہیں۔

میں تو اس سے یہ سبق حاصل کررہا ہوں کہ اب آمریت، جمہوریت، آئین، پارلیمان سب مفروضے ہوگئے ہیں۔ اب اصل حقیقت ہے۔ بہتر حکمرانی، بلدیاتی اداروں سے لے کر قومی اسمبلی اور سینیٹ تک، یہ سب انتظامی یونٹ ہیں۔ ضلع بھی، صوبے بھی، وفاق بھی، جذبات بہت پیچھے چلے گئے ہیں کمرشلزم غالب ہے۔ جن ملکوں میں کمرشلزم کے اصول اور آداب کا خیال رکھا جا رہا ہے وہاں افراد پر امن زندگی گزار رہے ہیں۔ جہاں کمرشلزم پر بھی جاگیردار، سردار غالب ہیں وہاں پاکستان جیسا حال ہے۔ جب کمرشلزم اور فاشزم مل جائیں پھر آئین نئے سرے سے لکھے جاتے ہیں۔

بشکریہ جنگ نیوزکالم