101

اس دنیا میں آنے کے بعد

اس دنیا میں وارد ہونے کے بعد یعنی اس دنیا میں آنے کے بعد خود بخود ہمیں بہت سی باتیں سمجھ میں آنے لگتی ہیں۔ لوگ ایک دوسرے سے عداوت کیوں رکھتے ہیں؟ ایک دوسرے سے نفرت کیوں کرتے ہیں؟ خود کو اعلیٰ اور دوسروں کو ادنیٰ کیوں سمجھتے ہیں؟ ہمیں اسباب سمجھنے میں زیادہ دیرنہیں لگتی۔ جغرافیائی تغیر میں بٹی ہوئی اس دنیا میں ایک ہی رنگ روپ کے لوگ نہیں رہتے۔ وہ ایک زبان نہیں بولتے۔ ان کا عقیدہ ایک نہیں ہوتا۔ ان کے رسم و رواج، تہذیب و تمدن ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں۔ اس دنیا میں آنے کے بعد ہمیں معلوم ہونے لگتا ہے کہ یہ دنیا قدرتی طور پر بٹی ہوئی ہے۔ اس بٹی ہوئی دنیا میں بٹے ہوئے لوگ رہتے ہیں۔ یہ بٹے ہوئےلوگوں کی دنیا ہے۔زمانہ قدیم میں آج کے دور کی طرح دنیا لوگوں سے کھچا کھچ بھری ہوئی نہیں تھی۔ اس قدر کم ہوتی تھی آبادی کہ شاذ و نادر ہی ایک دوسرے سے مختلف تہذیب و تمدن والے لوگوں کا آپس میں آمنا سامنا ہوتا تھا۔ اور جب آمنا سامنا ہوتا تھا تب آمنا سامنا خیرسگالی کے لئے کم اور ایک دوسرے کی جانچ پڑتال کرنے کےلئے زیادہ ہوتا تھا۔ تاریخ گواہ ہے کہ قوموں نے ایک دوسرے کا اقتصادی عروج، مال و زر کی افراط اور آسودگی اور خوشحالی غصب کرنے کے لئےخون کی ندیاں بہادی تھیں۔ انسان اپنی تاریخ میں، وجہ چاہے کچھ بھی ہو، اقتصادی نصب العین کے لئے لڑتا رہا ہے۔ اکیسویں صدی گواہ ہے کہ پچھلے ایک سو سال کے دوران تمام جنگیں اقتصادی برتری کےلئے لڑی گئی تھیں۔ عقیدوں کے پھیلائو کے لئے لڑی گئی جنگوں کے درپردہ مقصد اقتصادی توسیع ہی رہا ہے۔ لمبی بحث ہے۔ پھر کبھی تاریخ کو کھنگالیں گے۔ میں عرض کررہا تھا کہ اس دنیا میں آنے کے بعد کچھ باتوں کا پتہ خود بخود چل جاتا ہے۔ کچھ باتیں آہستہ آہستہ ہماری سمجھ میں آنے لگتی ہیں۔

بٹی ہوئی دنیا میں کچھ ممالک یا معاشرے ایسے بھی ہیں جہاں آپ کا جائز کام رشوت دیے بغیر نہیں ہوسکتا۔ ایسے معاشروں میں رشوت دینے اور رشوت لینے کو عیب نہیں سمجھا جاتا۔ مگر دنیا میں کئی ایک ممالک ہیں جہاں کے لوگ رشوت دینے اور لینے سے بیگانے ہیں۔ ان کے تمام کام مروجہ مساوی برتائو اور انصاف کے تحت خود بخود ہوتے رہتے ہیں۔ کوئی کسی کی حق تلفی نہیں کرتا۔ لوٹ کھسوٹ کو تحفظ نہیں دیا جاتا۔ ہیرا پھیری کےلئے کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔ مگر کچھ ممالک اور معاشروں میں جنم لینے کے بعد یہ تمام دغا بازیاں، فریبیاں، بے ایمانی، لاقانونیت، فوراً ہماری سمجھ میں آجاتی ہیں۔ بدبودار معاشرے میں جنم لینے کے بعد دیکھتے ہی دیکھتے ہمیں بدبو سے انسیت پیدا ہوجاتی ہے۔ بدبو ہمارے وجود میں سرایت کرجاتی ہے۔ تب بدبو ہمیں بدبو نہیں لگتی۔ معاشرہ خود الزام عائد کرتا ہے، سزا تجویز کرتا ہے، اور خود سزا پر عمل درآمد کرتا ہے۔ ہزاروں، لاکھوں لوگ نعرے بلند کرتے ہوئے سزا یافتہ شخص کو کبھی جلتے ہوئے، کبھی سنگسار ہوتے ہوئے، اور کبھی لاٹھیوں، لوہے کی سلاخوں سے، ڈنڈوں سے، خنجروں اور چھریوں سے لہولہان دیکھتے ہوئے محظوظ ہوتے ہیں۔ خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ہم ایسے معاشرے میں نہیں رہتے۔ ہمارے ہاں لاقانونیت نہیں ہوتی۔ حق تلفی نہیں ہوتی۔ ملزم الزام سے بری اور فریادی کال کوٹھڑی میں نہیں سڑتے۔ ہمارے معاشرے میں ہیرا پھیری نہیں ہوتی۔ لوٹ کھسوٹ نہیں ہوتی۔ ہمارا معاشرہ نیک اور پرہیزگاروں کا معاشرہ ہے۔دنیا میں کئی ممالک ایسے ہیں، جی چاہتا ہے، وہاں جاکر عافیت سے باقی ماندہ زندگی بسر کی جائے۔ وہ اجنبی ممالک ہوتے ہیں۔ ان کا کلچر، رہن سہن ہمارے رہن سہن سے مختلف ہوتے ہیں۔ مگر وہاں پر آپ کی عزت نفس مجروح نہیں ہوتی۔ کوئی آپ سے آپ کے عقیدہ کے بارے میں پوچھ گچھ نہیں کرتا۔ اختلاف رائے کی سزا موت نہیں ہوتی۔ ایسے ممالک میں ایک بنیادی اصول مروج ہوتا ہے۔ اس اصول پر آپ کو عمل پیرا لازمی طور پر ہونا پڑتا ہے۔ وہ اصول سیدھا سادہ ہے۔ آپ کا تعلق چاہے کسی بھی ملک سے ہو، کسی بھی معاشرے سے ہو، نئے ملک میں آپ کو کچھ ایسا کرنے کی اجازت نہیں ہوتی جس سے کسی اور کی عزت نفس مجروح ہو۔ خود جیو، دوسروں کو جینے دو۔ بامعنی اختلافِ رائے کےلئے تحمل اور برداشت لازمی عناصر مانے جاتے ہیں۔ ایسے ممالک میں کسی کے پاس اتنا اضافی وقت نہیں ہوتا جسے وہ فضول بحث مباحثوں کی نذر کردے۔ وہ لوگ اس بات پر بحث نہیں کرتے کہ مدر ٹریسا جنت میں جائے گی یا دوزخ میں جائے گی۔ جغرافیائی تغیر کی طرح عقیدتمندوں نے آسمانوں کو بھی پارہ پارہ کردیا ہے۔ مدر ٹریسا عیسائی تھیں۔ ان کو جنت یا دوزخ میں جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ ان کی اپنی جنت اور دوزخ ہے، Hell and Heaven۔ دنیا کے تمام عقیدتمندوں کے پاس اپنی اپنی جنت اور دوزخ ہے، مگر ان کی جنت اور دوزخ کے نام مختلف ہیں۔ ہندو اپنی جنت اور دوزخ کو سورگ اور نرگ کہتے ہیں۔

اب ہم آتے ہیں اپنے مطلب کی بات پر۔ اس اچھی بری دنیا میں آنے کے بعد ہمیں کچھ عرصہ یہاں گزارنا پڑتا ہے۔ یہ ہماری مجبوری ہے۔ منفی ایک سو پچاس سے کم اور گرمیوں میں ایک سو پچاس فیرن ہائٹ درجہ حرارت سے زیادہ شدت کی گرمی میں زندگی گزارنی پڑتی ہے۔ اور یہ زندگی آپ کھلے آسمان کے نیچے نہیں گزار سکتے۔ سرچھپانے کے لئے آپ کو ایک مکان کی ضرورت رہتی ہے۔ پیٹ پالنے کے لئے آپ تا عمر جانوروں کا شکار کرنے کےلئے دوڑ نہیں سکتے۔ آپ کھیتی باڑی کرتے ہیں۔ فاصلے کم کرنے کےلئے آپ رفتار پر عبور حاصل کرلیتے ہیں۔ یہ کام دل لگانے سے نہیں ہوتے۔ آپ کی مجبوری ہوتے ہیں۔ تمام سائنسی اور تکنیکی ایجادیں یعنی ایجادات ضرورت کے تحت عالم وجود میں آتی ہیں۔ گم نام منزل کی طرف نامعلوم سفر پر روانہ ہونے کے لئے آپ پلیٹ فارم پر کھڑے ہیں۔ آپ نہیں جانتے کہ گاڑی کب آئے گی۔ کب تک آپ پلیٹ فارم پر وقت گزاریں گے۔ یہ آپ پر منحصر ہے کہ عارضی طور پر پلیٹ فارم پر وقت گزارتے ہوئے آپ پلیٹ فارم کو صاف ستھرا رکھیں یا پلیٹ فارم پر گند پھیلائیں۔ یاد رکھیں کہ آنے والی نسلیں پلیٹ فارم کو دیکھ کر اندازہ لگائیں گی کہ آپ کس قابل تھے۔ آپ کی خصلت کیا تھی۔

بشکریہ جنگ نیوزکالم