72

ملکی استحکام۔ دو اداروں کے ہاتھ میں

جون کا مہینہ اپنے ساتھ حدت اور شدت تو لاتا ہی ہے۔ لیکن بجٹ کے بھیانک خوابوں سے بھی ڈرارہا ہوتا ہے۔2023 میں جون اقتصادی حبس اور اعداد و شُمار کے شکنجے بھی لارہا ہے۔ اقتصادی ماہرین بھی اس وقت سخت بوکھلائے ہوئے ہیں۔ وفاق ایوان ہائے صنعت و تجارت، صوبائی اور ضلعی چیمبرز، تاجر تنظیمیں سبھی انگلیاں دانتوں میں دبائے ہوئے ہیں کیونکہ مئی کے تیسرے ہفتے میں بھی آئندہ سال کی معیشت سنبھالنے کی ترجیح ریاست کے اداروں اور حکومت کی وزارتوں میں کہیں دکھائی نہیں دے رہی۔ حالانکہ یہ معیشت ہے۔ جس نے آئندہ بارہ مہینے 22کروڑ زندگیوں سے کھیلنا ہے۔ عالمی اداروں کی طرف سے دبائو بڑھ رہا ہے کہ پاکستان اپنے اقتصادی معاملات پر توجہ دے۔ وزارت خزانہ، وزارت تجارت، وزارت منصوبہ بندی ان سب کی فوقیت 2023-2024کا بجٹ ہونا چاہئے۔

ہماری تو اپوزیشن لیڈر عمران خان سے بھی یہ گزارش رہی ہے کہ مختلف جائزوں کے مطابق جب ان کی سیاسی مقبولیت ملک گیر ہے تو ان کی بھی ترجیح ملکی معیشت ہونی چاہئے۔ انتخابات جب بھی ہوں۔ اس کے بعد انہیں جہاں بھی حکمرانی کے لئے مینڈیٹ ملے گا۔ وہاں سب سے پہلے انہیں معیشت کے چیلنجوں سے ہی نمٹنا ہوگا۔ اور وہ جب روایتی سیاستدانوں سے عوام کو حقیقی آزادی دلانا چاہتے ہیں تو ان کی طرف سے آئندہ کم از کم 12برس یعنی2035 تک کا اقتصادی منظر نامہ سامنے آنا چاہئے۔ وہ اپنے حقیقی ماہرین اقتصادیات کو ذمہ داری دیں کہ وہ اس ایک سال کی معاشی ناکامیوں سے آئندہ برسوں میں پیدا ہونے والی پیچیدگیوں کا معروضی جائزہ لے کر قوم کو بتائیں کہ وہ آنے والی اقتصادی آندھیوں کا مقابلہ کیسے کریں گے۔ کیونکہ ماہرین کے مطابق 2018 سے 2022 تک کی معاشی پالیسیاں اتنی کامیاب نہیں تھیں۔ پھر وہ خود بھی کہتے ہیں کہ انہیں بہت سے کام کرنے نہیں دیے گئے۔

دوسری طرف موجودہ حکومت کی دونوں مرکزی پارٹیاں بھی گزشتہ کئی دہائیوں سے بجٹ پیش کرتی آئی ہیں۔ انہیں بھی اپنے اقتصادی منیجروں کو آئندہ 12سال کے معاشی انتظام پر مبنی لائحہ عمل کا حکم دے دینا چاہئے۔ آپ کے بیٹوں بیٹیوں ،پوتوں پوتیوں، نواسوں نواسیوں کو یہیں رہنا ہے وہ اقتصادی اتار چڑھائو کا شکار ہوں گے۔ اس لئے ان سے بھی قوم توقع کرتی ہے کہ نہ صرف یہ دو پارٹیاں بلکہ حکمران اتحاد میں شامل دوسری پارٹیاں بھی آئندہ 12برس کی معاشی مشکلات اور امکانات پر مشورے دیں۔

یہ طے ہے کہ سیاسی استحکام اقتصادی چیلنجوں سے نمٹے بغیر نہیں قائم ہوسکتا۔ ہمارا ہدف ملک کی مستحکم معیشت ہونا چاہئے۔ جو اس وقت یقیناً نہیں ہے اور اس اندازِ فکر کے جوخطرناک نتائج برآمد ہوں گے۔ وہ اس ایک سال میں رونما ہونے والی انہونیوں سے کہیں زیادہ حیران کن ہوسکتے ہیں۔ اور یہ ہم سب کو بھگتنا ہوں گے۔ اداروں کو بھی، افراد کو بھی۔ صوبوں کو اور سیاسی جماعتوں کو بھی۔

75سال کے دوران پاکستانیوں کی قسمت کے فیصلے جو دو ادارے کرتے آرہے ہیں۔ اس وقت ان کی صورت حال کا معروضی جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ مختلف ادوار میں مختلف فیصلوں اور اقدامات کی وجہ سے ان دونوں کو وہ احترام اور وقار نہیں ملا ہے جو ان کا حق ہے۔ یہ ایک سسٹم کا حصّہ ہیں۔ ایک بڑی مشینری کے کُل پرزے۔ ان کی موجودگی کا غیر معمولی تاثر نہیں ہوتا ۔ اب بد قسمتی سے دیکھئے کہ ایک محترم ادارے کو 9مئی کے سانحوں کی وجہ سے سخت سزائوں اور فوجی عدالتوں کا راستہ اختیار کرنا پڑ رہا ہے۔ اپنے ہی لوگوں کے خلاف یہ بھی اتنا ہی مشکل ہے۔ جتنا اپنے لوگوں پر گولی چلانا۔ پھر سویلین کے خلاف مقدمات فوجی عدالتوں میں چلانے پر بھی بحث چھڑے گی۔دوسرا ادارہ کسی حد تک مذاکرات اور مشاورت کا راستہ اختیار کرنا چاہتا ہے۔ وہ سیاسی پارٹیوں کو مذاکرات پر آمادہ کررہا ہے۔ پہلے بھی ایسی کوشش کرچکا ہے۔ پی ٹی آئی کے سربراہ کو ریلیف دے کر بھی اس نے جلائو گھیرائو روکنے میں مدد کی تھی۔ لیکن یہ دونوں ادارے اس وقت متحارب حلقوں کی طرف سے تنقید کا ہدف ہیں۔

ملک میں استحکام کی چابی ان دو اداروں کے ہاتھ میں ہی ہے۔ یہ دونوں ایک دوسرے کی طاقت پاکستان کے کروڑوں سنجیدہ درد مند ان دونوں اداروں کا کردار ایسا چاہتے ہیں کہ وہ نفرتیں ختم کروائیں۔ سیاسی مخالفین کو ملکی مفاد میں ایک میز پر بیٹھنے پر مجبور کریں۔اگر چہ حکومت وقت کی آرزو یہ نہیں ہے۔ قومی اسمبلی کے متعدد اجلاسوں۔ مشترکہ نشستوں میں اعلیٰ عدلیہ اور بالخصوص چیف جسٹس کے خلاف جس قسم کی زبان استعمال کی گئی ، نعرے لگائے گئے۔ سپریم کورٹ کے سامنے دفعہ 144کے باوجود جلسہ۔ تقریریں۔ اس سے ملک میں استحکام کی راہ ہموار نہیں ہوتی۔ اور نہ سیاسی مخالفین کے درمیان مذاکرات کا سازگارماحول پیدا ہوتا ہے۔تاریخ گواہ ہے کہ یہ دونوں ادارے پہلے اس امر کا بھی خیال رکھتے تھے کہ ملک کے اصل مالک عوام کی تمنّائیں کیا ہیں۔ پہلے یہ اندازہ سڑکوں۔ میدانوں اور جلسہ گاہوں سے کیا جاتا تھا۔ اب اس میں ایک بڑا عنصر سوشل میڈیا کی اسکرینیں ہوگئی ہیں۔ جو کسی کے کنٹرول میں نہیں ہیں۔

اب سیاسی نقشہ یہ ہے کہ مقبولیت میں پی ٹی آئی یقیناً آگے ہے۔ لیکن پی ڈی ایم کے سربراہ عمران خان کو اپنی سیاسی بصیرت کے باوصف ’’غیر ضروری سیاسی عنصر‘‘ کہتے ہیں۔ اس اصطلاح کے پس منظر میں بہت طویل داستانیں ہیں۔ مولانا کی خواہش یہ ہے کہ اس عنصر کو سیاسی میدان میں نہیں ہونا چاہئے۔ پارٹی کو کالعدم قرار دیا جائے ۔ سربراہ کو ہمیشہ کیلئے نا اہل ٹھہرایا جائے ۔پی ڈی ایم اور ان کی ہم خیال طاقتیں بھی۔ اسی ہدف کیلئے آمادہ نظر آتی ہیں۔ اس سے مزید پیچیدگیاں پیدا ہونگی۔ ملک کو جس سیاسی استحکام اور معاشی اثبات کی ضرورت ہے وہ حاصل نہیں ہوسکے گا۔

کس کو پیچھے ہٹنا ہوگا۔ کس کو تصادم کا راستہ چھوڑناہوگا۔ ملکی مفاد میں کیا اقدامات ہیں۔ سیاسی حقائق یہ ہیں کہ وفاقی حکومت کی سربراہی مسلم لیگ(ن) کے پاس ہے۔مگر اس کی سیاسی طاقت جس صوبے میں تھی وہ نظر نہیں آرہی ۔ پی پی پی کے پاس سندھ ہے۔ جمعیت علمائے اسلام کے پاس بلوچستان اور کے پی کے میں کچھ علاقے ہیں۔ بلوچستان کی پارٹیوں کے پاس بلوچستان ہے۔ پی ٹی آئی کو اگر میدان میں نہیں رہنے دیا جاتا تو سیاسی فائدہ پاکستان پیپلز پارٹی کو ہوگا۔ اور بلاول کہہ چکے ہیں اب کراچی کی طرح پورے پاکستان میں جیالوں کی حکومت ہوگی۔

حکومت کسی کی بھی ہو۔ پاکستان کو اقتصادی استحکام میسر آنا چاہئے۔ ادارے جماعتیں اسکی اہمیت سمجھیں۔ یہ منزل مخالفت سے نہیں، مفاہمت سے ملے گی۔

بشکریہ جنگ نیوزکالم