90

تشدد کو جواز بخشے والے؟

آج اس مملکت بدنصیب کے حالات کس قدر دگرگوں ہیں عوام غربت، بیروزگاری اور مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں لیکن دوسری طرف امرا کی ایلیٹ کلاس ہے جنہیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ان کے وہی لچھن ہیں جیسے کوئی ایشو ہی نہیں ہے انہی میں اعلیٰ عہدوں پر فائز کچھ افراد ہیں جو بے اصولی کی تمام حدود کو انصاف کے نام پر پار کر رہے ہیں۔ تیسری طرف ہمارے پیارے راج دلارے جناح ثالث صاحب ہیں جو ہوس اقتدار میں ملک کیلئے خوفناک سونامی بنے کھڑے ہیں ۔کسی کو کوئی پروا نہیں کہ یہ ملک ان شعبدہ بازیوں کا متحمل ہے یا نہیں بس مجھے اقتدار تک پہنچنا ہے چاہے لاشوں کو مسلتے ہوئے جانا پڑے، چاہے ہچکولے کھاتی معیشت مزید برباد ہو جائے ’’اوبھائی ملک کی قیمت پر اقتدار کا سودا نہ کرو‘‘ شعور کی یہ آواز کیا دو مرتبہ پہلے سنی گئی ہے جو اب سنی جائے گی؟

9مئی کو اس ملک میں جو کچھ ہوا 47اور 71کے بعد اس کی کوئی مثال نہیں ملتی ہے۔ 77ء میں PNAکی اور پھر 83ء میں MRDکا اگرچہ بھرپور ایجی ٹیشن ہوا تھا مگر یوں چن چن کر فوجی املاک، کینٹ ایریاز اور بالخصوص کور کمانڈر ہائوس یا فوجی یادگاروں پر اس نوعیت کے حملے نہیں ہوئے تھے۔ اندھوں کو بھی نظر آ رہا تھا کہ یہ سب کچھ پری پلان تھا ،سوشل میڈیا کے پھیلائو کے اس دور میں ایسی کوئی چیز کیسے چھپ سکتی ہے ، یہ لوگ ثبوتوں کی بات کرتے ہیں کیمروں کی آنکھوں نے کس قدر چہروں کو بطور ثبوت آگ لگاتے اور تباہی ڈھاتے محفوظ کرلیا ۔آج اگر یہ لوگ اس نوع کی الزام تراشی کر رہے ہیں کہ یہ ہمارے ورکر نہیں تھے ایجنسیوں کے لوگ تھے تو انہیں شرم آنی چاہئے، اگر حملہ آور ایجنسیوں کے لوگ تھے اور وہی پکڑے گئے ہیں تو پھر پی ٹی آئی چیئرمین کو تکلیف کاہے کی ہے ؟وہ کیوں کہہ رہے ہیں کہ ہمارے آٹھ ہزار ورکر پکڑے گئے ہیں جبکہ وڈیوز میں یہ سب بلوائی بلوے کرتے دیکھے جاسکتے ہیں۔

آئین و جمہوریت پر ایمان رکھنے والے ایک سویلین کا نظریہ ہر گز یہ نہیں ہو سکتا کہ عام سویلینز کا کورٹ مارشل ہو یا ان کے خلاف کارروائی آرمی ایکٹ کے تحت ہو لیکن دوسری طرف یہ پہلو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا کہ پرتشدد حملے سوچی سمجھی پلاننگ کے ساتھ کینٹ ایریاز میں فوجی پراپرٹیز پر کئے گئے ہیں اگر سخت ایکشن نہیں لیا جائے گا تویہ اس مجرمانہ ذہنیت کی حوصلہ افزائی گردانی جائے گی،بدقسمتی سے جس کا بدترین مظاہرہ ہماری جوڈیشری میں کیا جا رہا ہے ۔

کیا دنیا میں کبھی ہمیں ایسے ہوا ہے کہ ایک شخص ساٹھ ارب روپے کرپشن کے الزام میں عدالتی ریمانڈپر ہو ،اپنے لوگوں کو مسلسلہنگامہ آرائی پر اکساتا چلا آ رہا ہو، سپریم جوڈیشری کا چیف جج اسے ضمانت طلب کیے بغیر ہی نہ صرف اسکی ضمانت منظور کروانے کا اہتمام کروائے بلکہ کہے کہ ’’آپ کو دیکھ کر خوشی ہوئی ‘‘ بہارو پھول برسائو میرا محبوب آیا ہے، آپ میرے مہمان بن کر تین بیڈ کے ریسٹ ہائوس میں رہئے وہاں اپنی فیملی اور دس افراد کو بلا کر ان سے گپ شپ کیجئے، آرام سے سو جائیے اور اب جو توجیہات کی جا رہی ہیں، یہ عذرِ گناہ بدتر از گناہ کے مترادف ہیں ۔

ہمارے لوگ نہ جانے کیوں محض طاقت کی زبان سمجھتے ہیں آج جب عوامی طاقت کا مظاہرہ ہوا تو کہا جا رہا ہے کہ صرف آئین نہیں حالات کو بھی دیکھنا پڑتا ہے اگر امن نہ ہو تو پھر قانون پر عملدرآمد نہیں ہو سکتا یہی بات تو روز اول سے آئین کا خالق عوامی امنگوں کا ترجمان ادارہ کہتا چلا آ رہا ہے کہ آئین کی محض ایک شق کو نہیں تمام شقوں کو ملاحظہ کرتے ہوئے حقائق کی مطابقت میں تلخیوں کو بھی سمجھنا پڑتا ہے ،شفافیت کے تقاضے بھی پورے کرنا پڑتے ہیں قومی سلامتی و یکجہتی کے بھی کچھ تقاضے ہوتے ہیں ۔شکر ہے اگر آج آپ کو ادراک ہو گیا ہے کہ فوجی اثاثوں اور انسٹالیشنز کو بے دردی سے جلایا جا رہا ہے ۔

کور کمانڈر کانفرنس اور نیشنل سیکورٹی کمیٹی کی میٹنگ میں بروقت جو فیصلے کئے گئے ہیں وہ اس دہشت گردی اور غنڈہ گردی کا بدیہی تقاضا ہیں، خود وکلا اور قانون دانوں کے اندر سے بھی اس نوع کی آوازیں اٹھ رہی ہیں کہ بلوائیوں پر آرمی ایکٹ کے تحت مقدمات چلنے چاہئیں ۔نیشنل سیکورٹی کمیٹی کے اجلاس میں تمام ذمہ داران نے شرکت کرتے ہوئے صائب فیصلے کئے ہیں منافرت و محاذ آرائی کی بجائے مکالمے اور جمہوری اقدار کی راہ دکھائی گئی ہے یہ بھی کہا گیا ہے کہ ذاتی اور سیاسی فائدے کیلئے جلائو گھیرائو اور املاک کے نقصان کوکسی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا تشدد کے خلاف زیرو ٹائرنس کی پالیسی اپنائی جائے گی ۔

اگر اس نوع کے ٹھوس اقدامات نہیں کیے جاتے تو پارلیمینٹ کی تقاریر ہوں یا دھرنے کی شعلہ بیانیاں، کور کمانڈرز کانفرنس کی وارننگ یا تنبیہات ہوں یا نیشنل سیکورٹی کمیٹی کے مذمتی فیصلےسب گیدڑ بھبھکیاں قرار پائیں گے۔

بشکریہ جنگ نیوزکالم