جنات (پہلا حصہ)

جنات کا ذکر قرآن میں بھی آیا ہے۔ پوری ایک سورۃ ’’سورۂ جن‘‘ کے نام سے 29 ویں پارے میں موجود ہے۔ جنات رحمانی بھی ہوتے ہیں اور شیطانی بھی۔ کہا جاتا ہے کہ رحمانی جن مسلمان ہوتے ہیں اور کسی کو ستاتے نہیں ہیں، جب کہ شیطانی جن اکثر لوگوں کو پریشان کرتے ہیں۔

جنات، آسیب، بھوت پریت، پچھل پیری، چڑیلیں اور چھلاوے کے واقعات ہر جگہ سننے کو ملتے ہیں، متعدد ملکوں میں ہارر موویز بنائی گئی ہیں، ڈرامے بنائے گئے ہیں۔ راشد اشرف نے تین جلدوں میں ایسے پراسرار واقعات جمع کرکے ’’حیرت کدہ‘‘ کے نام سے شایع کیے ہیں جو بہت مقبول ہوئے۔

مجھے ان نادیدہ مخلوق کے ذکر سے ہمیشہ سے دلچسپی رہی ہے، کچھ حیرت انگیز واقعات ذاتی طور پر پیش آئے کچھ قریبی عزیزوں پر گزرے، جن کا ذکر میں نے اپنی آپ بیتی ’’ نگار خانہ ‘‘ میں تفصیل سے کیا ہے۔ ان نادیدہ مخلوقات کی کارستانیوں اور کرشمہ آرائیوں کا ذکر ہر عہد میں ملتا ہے۔

کراچی میں ایم۔اے۔جناح روڈ پر پرانی نمائش اور پارسی کالونی میں کئی بہت بڑے بڑے بنگلے کھنڈر بنے ہوئے ہیں، اگر آپ بندر روڈ سے سیدھے پرانی نمائش کی طرف آ رہے ہوں تو سائیڈ پر کئی بنگلے خالی پڑے نظر آئیں گے یہ تقریباً چھ سات بنگلے ہیں جو ڈراؤنا منظر پیش کرتے ہیں۔ ان بنگلوں کے بارے میں عام طور پر یہ مشہور ہے کہ ان میں جنات کا بسیرا ہے۔

ایم۔اے۔جناح روڈ پر ریڈیو پاکستان کے مقابل یعنی ایک بہت بڑی عمارت میں جنات کا بسیرا ہے۔ یہ بنگلے اور کثیرالمنزلہ بلڈنگیں برسوں سے خالی پڑی ہیں، اس شہر کراچی میں جہاں دوسروں کی زمینوں پر، پلاٹوں پر راتوں رات قبضے ہو جاتے ہیں وہیں انتہائی اہم اور معروف علاقوں میں یہ عمارتیں خالی کھنڈر بنی پڑی ہیں۔ ایم۔اے جناح روڈ پر ایک پلازہ مکمل نہ ہو سکا، کہ وہاں بھی جنوں کا بسیرا ہے۔

اس بات کا ذکر راشد اشرف کی مرتب کردہ تصنیف ’’حیرت کدہ‘‘ میں بڑی تفصیل سے ملتا ہے۔ایک پلازہ کے ساتھ ہی اور کثیرالمنزلہ عمارت تعمیر ہوئی جس میں اسپتال قائم ہوا لیکن یہ اسپتال بھی چل نہ سکا، اب یہ عمارت بھوتوں کا مسکن پیش کرتی ہے، چونکہ عمارت ایک طرف سے جھک رہی ہے اس لیے اسے توڑا جا رہا ہے، اس کا بیسمنٹ اور گراؤنڈ فلور ہیرونچیوں کا ڈیرہ ہے۔

جنات کی چند خصوصیات نمایاں ہوتی ہیں، یہ خود کو ظاہر نہیں کرسکتے لیکن جس روپ میں چاہیں خود کو ظاہر کرسکتے ہیں۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ شہروں میں مٹھائی کی دکانیں آدھی رات تک کھلی رہتی ہیں کہ دیر رات جنات انسانی روپ میں آ کر مٹھائی خریدتے ہیں۔ آج جو کتاب میرے زیر مطالعہ ہے اس کا نام ہے ’’جنات‘‘۔ جناب رئیس امروہوی کے موقر اخبار میں چھپنے والے کالمز اس میں شامل ہیں، یہ کتاب ویلکم بک پورٹ نے شایع کی ہے۔ رئیس امروہوی نے اپنے کالموں میں جناتوں کا بڑی تفصیل سے ذکر کیا ہے۔

انھوں نے اپنے کالموں میں لوگوں کے مشاہدات اور تجربات کو اکٹھا کیا ہے اور فیصلہ لوگوں پر چھوڑ دیا ہے۔ کتاب بہت دلچسپ ہے اور نادیدہ مخلوق کے ذکر سے معمور ہے۔

عام طور پر یہ تاثر ہے کہ جنات بلی، سانپ اور چھپکلی کی صورت اختیار کرلیتے ہیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جنات ہمیں نظر نہیں آتے ورنہ وہ گھر بنا کر ہی رہتے ہیں۔ اور یہ بھی سنا ہے کہ اگر وہ خود کو ظاہر کردیں تو انسان خوف سے مر جائے۔ ایک جگہ رئیس امروہوی رقم طراز ہیں کہ:

’’سب رنگ ڈائجسٹ‘‘ کے مدیر شکیل عادل زادہ لکھتے ہیں کہ والد (عادل ادیب مرحوم) کے انتقال کے بعد گھر میں تایا زاد بھائی کامل ہمارے ساتھ رہتے تھے، مشہور تھا کہ ان پر سیّد جن آتے ہیں، اکثر ایسا ہوتا کہ کامل بھائی کی آنکھیں نیلی پیلی ہو جاتیں، مستانہ وار حرکتیں کرنے لگتے، برسات کی ایک شام کا ذکر ہے کہ گھر میں سب نے طے کیا کہ پوریاں تلی جائیں، چنانچہ کڑھائی چڑھا دی گئی اور پوریاں تلنی شروع ہوگئیں۔

کامل بھائی کو کھانے اور پکانے میں خاص دخل ہے، چنانچہ اس مہم میں وہ بھی پیش پیش تھے وہ بڑے انہماک سے پوریاں تلنے میں مصروف تھے کہ کیفیت بدل گئی، اتفاقاً پوریاں نکالنے والا تکلا اِدھر اُدھر ہو گیا، ڈھونڈا مگر نہ ملا۔ جب پوریاں جلنے لگیں تو کامل صاحب نے بحالت استغراق انگلیاں تیل میں ڈال دیں اور روانی سے پوریاں نکالنے لگے، جس طرح تکلے سے نکالتے ہیں، ہم سب حیران و ششدر رہ گئے لیکن اماں نے ٹوکا کہ چپ رہو، شور نہ مچاؤ۔ سیّد صاحب (جن) موجود ہیں۔‘‘

جن کس طرح صورت بدل لیتے ہیں، یہ معاملہ دلچسپ ہے۔ خان بہادر نقی محمد خان (مرحوم) اپنی دلچسپ ترین سوانح عمری ’’عمر رفتہ‘‘ میں لکھتے ہیں ’’ایک روز میرے پڑوسی مقیم الدین انصاری (سپرنٹنڈنٹ محکمہ سروے)نے ایک عجیب واقعہ بیان کیا ان کو پیمائش سروے اور نقشہ کشی کے سلسلے میں بعض اوقات ایسے مقامات پر بھی جانا ہوتا تھا جو میلوں تک غیر آباد تھے۔

ایک مرتبہ ان کا کیمپ ایسے ہی پہاڑی مقام پر تھا، مقیم الدین انصاری بیان کرتے ہیں کہ میں اپنے بڑے ڈیرے میں کام میں مصروف تھا کہ ایک اجنبی شخص چق اٹھا کر اندر آگیا اور سلام کے بعد میرے قریب فرش پر بیٹھ گیا، میں حیران تھا کہ ان پہاڑوں اور غیر آباد مقام پر انسان کا کیا کام؟ وضع قطع شریفانہ، لکھنو کا قدیم لباس زیب تن، بیل دار سفید ٹوپی، ململ کا کرتا، سفید انگرکھا، ڈھیلے پائنچے کا پاجامہ، سبز مخملی پاپوش، عطر میں بسے ہوئے گندمی رنگت خوب صورت سڈول جسم، خوش نما چہرہ، چھوٹی چھوٹی مونچھیں، خشخشی ڈاڑھی، عمر اندازاً چالیس سال۔ میں نے سگریٹ پیش کیا۔

کہنے لگے، میں چائے پانی، سگریٹ، پان، حقہ کسی چیز کا عادی نہیں ہوں۔ میں نے کہا، اس جنگل میں آپ کی کیا خاطر تواضح کروں؟ کہنے لگے تکلفات کی ضرورت نہیں ہے، اس جنگل میں آپ لوگوں کو اکثر ان پہاڑوں میں دیکھتا ہوں، آج ملنے کو جی چاہا، چلا آیا۔ آپ کے کام میں حارج نہیں ہونا چاہتا۔ میں نے کہا حضرت! وقت اپنا، کام اپنا، جب تک جی چاہے بیٹھیے، جنگل میں آپ رہتے کہاں ہیں؟ نام پوچھا تو کہا گمنام ہوں، یہ کہہ کر کہ یار! زندہ صحبت باقی۔‘‘ کہہ کر چق اٹھا کر چل دیے اور قریب کے خشک نالے میں اتر کر غائب ہوگئے، میرے ہمراہیوں نے اِدھر اُدھر دیکھا تو پتا نہ چلا۔ تین چار دن بعد پھر آگئے۔

کپڑے ویسے ہی صاف ستھرے، میلوں تک نہ وہاں دھوبی نہ استری۔ سمجھ میں نہ آیا کہ یہ کیا طلسم ہے، چند منٹ بعد کہنے لگے آپ لوگ بڑے لاپرواہ ہیں یہ بڑا نقشہ جو بچھا ہے اس کے نیچے بڑا کالا سانپ تھا، ہم لوگ یکبارگی اٹھ کھڑے ہوئے، نقشے کو اٹھایا تو کالا سانپ تھا، میرے آدمی ڈنڈے پتھر لینے دوڑے، سانپ کہیں قنات کے نیچے سے نکل کر غائب ہو گیا، اس گڑ بڑ میں وہ بزرگ بھی نظروں سے اوجھل ہوگئے۔

ایک روز پھر آگئے، اشعار سنائے باتیں کیں اور چلتے وقت مجھ سے کہنے لگے میری نگرانی نہ کرائی جائے، دو ماہ بعد جب ہم کام ختم کرکے واپس جا رہے تھے، تو اسی صاف ستھرے حلیے میں میرے ایک سپاہی کو ملے اور اس کو کہا ’’تم لوگوں نے پتا لگا لیا کہ میں کون ہوں؟‘‘ کتاب بہت دلچسپ ہے اس لیے باقی آیندہ   

(جاری ہے)  

رئیس فاطمہ

بشکریہ روزنامہ آج