74

ایک دَوڑ ابھی باقی ہے

14مئی 2023 کو ترکیہ میں جو پارلیمانی و صدارتی انتخابات ہُوئے ہیں، ساری دُنیا کی نظریں ان پر مرکوز تھیں کہ جمہوریہ ترکیہ ایک غیر معمولی اسلامی ملک ہے۔

جناب طیب اردوان نے پہلے وزیر اعظم اور پھر صدر بن کر ترکیہ کو مشرقِ وسطیٰ،جنوبی ا یشیا، مغربی ممالک اور شمالی امریکا میں مزید اہمیت سے ہمکنار کیا۔ اُنہوں نے بیک وقت امریکا کا بھی برابری کی بنیاد پر سامنا کیا ہے اور رُوس کا بھی ۔سرکشیدگی اور غیرت کے ساتھ ترک قوم کا عالمی فورموں پر سر بلند رکھا ۔ طیب اردوان کو بلا شبہ کئی معاشی بحرانوں اور تہمتوں کا سامنا بھی کرنا پڑا ہے ۔

اب بھی یہ بحران اُن کے تعاقب میں ہیں لیکن وہ ہار نہیں مانے ۔ ترکیہ ، پاکستان کا برادر، اسلامی اور معتمد دوست ملک ہے اور ہمیشہ رہا ہے۔

خصوصاً مسئلہ کشمیر بارے جناب طیب اردوان نے جس طرح کھل کر پاکستان کا ساتھ دیا ہے، ہم اِن محبتوں اور تعاون کے لیے ترکیہ کے مقروض اور ممنون ہیں ۔ پاکستان کے کئی دفاعی منصوبوں میں بھی ترکیہ اہم کردار ادا کررہا ہے ۔ یوں ہم ترکیہ کے پارلیمانی و صدارتی انتخابات اور ان کے نتائج سے لاتعلق نہیں رہ سکتے ۔

ساری دُنیا کے سرویز اور تجزیوں میں یہی پیش گوئیاں کی جارہی تھیں کہ 14مئی کو ترکیہ کے پارلیمانی و صدارتی انتخابات میں کھڑی دونوں شخصیات،  69سالہ طیب اردوان اور73سالہ کیمال کلچ دار اولو، برابر برابر رہیں گی ۔ نتائج سامنے آئے ہیں تو یہ قیافے، سرویز اور تجزیئے درست ہی ثابت ہُوئے ہیں ۔

ترکیہ کی سپریم الیکشن کونسل نے اعلان کیا ہے کہ صدارتی انتخابات میں دونوں شخصیات میں سے کوئی بھی نہیں جیتا۔ طیب اردوان نے49.5فیصد اور کیمال کلچ در اولو نے45.9فیصد ووٹ حاصل کیے ہیں ۔ ترکیہ انتخابی قوانین کے مطابق جیتنے والے اُمیدوار کے لیے لازم ہے کہ وہ50فیصد یا 50فیصد سے زائد ووٹ حاصل کرے؛ چنانچہ طیب اردوان اور کیمال کلچ در اولو کو جیت سے ہمکنار ہونے کے لیے ابھی ایک اور دوڑ(Run Off)کا مقابلہ جیتنا ہے ۔

یہ دَوڑ28مئی2023 کو ہو رہی ہے ۔ ایک حقیقت مگر واضح ہو چکی ہے کہ ترکیہ کے پارلیمانی انتخابات میں جناب طیب اردوان کی جماعت، جسٹس پارٹی ، بھاری اکثریت سے جیت چکی ہے۔600کے ایوان میںاردوان صاحب کی پارٹی نے266 سیٹیں اورکلچ در اولو کی پارٹی نے166 سیٹیں حاصل کی ہیں۔

تیسرے صدارتی اُمیدوار،کنعان اوگان، نے5.17فیصد ووٹ لیئے ہیں۔ کہا جارہا ہے کہ صدارت سازی کی نتیجہ خیز دَوڑ میں کنعان اوگان کنگ میکر کا کردار ادا کریں گے۔حیرانی کی بات ہے کہ ترکیہ انتخابات پر نظر رکھنے والے چار عالمی آبزرویشن اداروں(OSCEاور ODHIRاور OSCEPAاور PACE)نے انقرہ میں15مئی کو اپنی مشترکہ پریس کانفرنس میں الزام لگایا ہے کہ ’’ترکیہ پارلیمانی و صدارتی انتخابات میں شفافیت نہیں تھی۔‘‘ ترکیہ وزارتِ خارجہ نے اِس الزام کی سختی سے تردید بھی کی ہے اور اِسے ’’مذمتی و بیہودہ ‘‘ بھی قرار دیا ہے ۔

ترکیہ کے پارلیمانی و صدارتی انتخابات کی جنگ تین عناصر کی اساس پر لڑی جا رہی ہے :(1) معیشت (2) سول رائٹس (3) فروری2023میں آنے والا مہلک زلزلہ، جس میں 50ہزار سے زائد ترک شہری لقمہ اجل بن گئے ۔ ترکیہ میں حالیہ مہنگائی45فیصد تک پہنچ گئی ہے۔

اور زلزلہ زدگان جناب طیب اردوان سے ناراض ہیں کہ اُن کی مطلوبہ دستگیری ابھی تک نہیں کی گئی ہے اور یہ کہ زلزلہ میں جو عمارتیں زمین بوس ہو گئی تھیں، اُن میں زیادہ تر عمارات مبینہ طور پر اردوان صاحب کے منظورِ نظر ٹھیکے داروں نے تعمیر کی تھیں ؛ چنانچہ ناراضی کا زلزلہ بھی طیب اردوان پر گرا ہے ۔

صدارتی رَن آف میں طیب اردوان نے اپنی آخری اُمیدیں ’’استنبول‘‘ شہر سے اور کیمال کلچ دراولو نے ’’ازمیر‘‘ شہر سے وابستہ کررکھی ہیں۔ ’’استنبول‘‘ طیب اردوان کا اور’’ ازمیر‘‘ کیمال کلچ در اولو کا ’’اسٹرانگ ہولڈ‘‘ کہا جاتا ہے۔

ترکیہ کے یہ صدارتی و پارلیمانی انتخابات در اصل دو اُمیدواروں کے درمیان نظریئے کی جنگ بھی ہے۔ دونوں اُمیدواروں ، کیمال کلچ در اولو اور طیب اردوان ،کی سوچ اور فکر کے دھارے الگ الگ بہہ رہے ہیں۔ یوں اُن کے پیروکاروں کے جھکاؤ اور رجحانات کا اندازہ بھی لگایا جا سکتا ہے ۔

دونوں صدارتی اُمیدواروں کے افکار کا رنگ کیا ہے، اِس کا اندازہ ہم صرف ایک مثال سے لگا سکتے ہیں: 14مئی سے قبل جب صدارتی و پارلیمانی انتخابات کی مہم اپنے اختتام کو پہنچی تو گھر جانے سے پہلے کیمال کلچ در اولو نے ترکیہ کے بابائے قوم مصطفیٰ کمال پاشا ( جو سیکولرازم کا نشان سمجھے جاتے ہیں) کے مقبرے پر حاضری دی اور اپنے سیکڑوں پیروکاروں اور ووٹروں سے خطاب کیا۔ جب کہ طیب اردوان نے گھر جانے سے قبل مسجدِ حاجیہ صوفیہ ( جو سیکڑوں سال سے گرجا گھر تھی اور اب طیب اردوان کے حکم سے مسجد میں تبدیل کر دی گئی ہے) میں حاضر ہُوئے اور وہاں اپنے سیکڑوں چاہنے والوں سے خطاب کیا اور اپنے دلکش وعدوں کو ایک بار پھر دہرایا ۔

بیک وقت منعقد ہونے والے ترکیہ پارلیمانی و صدارتی انتخابات میں ہر ترک ووٹر کو ایک ووٹ اپنے پسندیدہ صدارتی اُمیدوار کو دینا ہوتا ہے اور دوسرا ووٹ پارلیمانی اُمیدوار کو۔ ترکیہ صدر کا انتخاب منتخب شدہ ارکانِ پارلیمنٹ نہیں بلکہ براہِ راست ترک عوام کرتے ہیں ۔یوں اقتدار پر ترکیہ صدر کی طاقت اور گرفت کہیں زیادہ بڑھ جاتی ہے ۔اِسی طاقت کے حصول کے لیے طیب اردوان نے ترکیہ میں پارلیمانی نظامِ حکومت کو صدارتی نظامِ حکومت میں بدل دیا تھا۔

اِس صدارتی نظامِ حکومت کی بنیاد پر ترکیہ میں اپوزیشن اور ترک عوام کو منتخب صدر سے کئی شکایات بھی پیدا ہو چکی ہیں۔ اِن شکایات کو ختم کرنے کے لیے ہی ترکیہ کی6اپوزیشن سیاسی جماعتوں نے متحد ہو کر اپنا متفقہ اُمیدوار، کیمال کلچ در اولو، طیب اردوان کے خلاف صدارتی انتخابی میدان میں اُتارا تھا۔

بات مگر بنی نہیں ہے کہ ابھی صدر کے انتخاب کی اگلی دَوڑ باقی ہے۔ ابھی28مئی کوRun Offکے لیے میدان سجنا ہے۔ تب ترکیہ صدر کا تاج مذکورہ دونوں معزز اُمیدواروں میں سے کسی ایک کے سر سجے گا۔

ترکیہ کے تازہ انتخابات میں ہم پاکستانیوں کے لیے کئی سبق بھی ہیں :(1) انتخابات میں عوام کی طرف سے بھرپور جذبے اور پورے شعور کے ساتھ حصہ لیا جائے ۔ اور جب نتائج آ جائیں تو صبر اور حوصلے کے ساتھ اِنہیں دل سے قبول کرتے ہُوئے اگلے پانچ سال کا انتظار کیا جائے (2)جس طرح ترکیہ صدر ، جناب طیب اردوان، نے جمہوریت اور مملکت کے مخالفین کی سرکوبی کی ہے، اِسی طرح پاکستان کے حکمرانوں کو بھی ، اصول و ضوابط کی بنیاد پر، جمہوریت اور مملکت کے جملہ مخالفین و معاندین سے نمٹنا چاہیے۔

پاکستان میں 9 مئی 2023 کو جن قوتوں اور گروہوں نے آتشیں اقدامات کیے، گرفتار عناصر کو عبرتناک سزائیں دینے اور اُنہیں انجام و کیفر کردار تک پہنچانے کا وقت ہُوا چاہتا ہے ۔

اب بھی اگر کمزوریوں کے کارن مصلحتوں سے کام لیا گیا تو مفسد اور پُر فتن عناصر پھر سر اُٹھائیں گے اور مملکت ِ خداداد پاکستان کا اُسی طرح جلاؤ اور گھیراؤ کریں گے جس طرح 9مئی کے بد قسمت دن کیا گیا اور ساری دُنیا میں مملکتِ خداداد کے جملہ حکمرانوں کی کمزوریوں ، نالائقیوں اور نااہلیوں کا مذاق اُڑایا گیا۔

بشکریہ ایکسپرس