میری راتوں کے مقدر میں سحر ہے کہ نہیں

 یادش بخیر گورنمنٹ کالج پشاور میں جن دنوں پروفیسر بختیار خان پرنسپل تھے ان دنوں طلبہ کی بہت سی تنظمیں فعال تھیں اور ہر روز کسی نہ کسی تنظیم کا جلسہ کالج گراؤنڈ یا کالج کی لمبی راہداریوں میں ہوا کرتا تھا، جس کے بعد وہ طلبہ کو کلاسز کے بائیکاٹ کی ترغیب دیتے یا پھر زبردستی کالج بند کرا دیتے تھے، تو بختیار خان ایک میٹنگ بلا لیتے جس میں صورت حال پر بات ہوتی اور حالات کی بہتری کے لئے تجاویز مانگی جاتیں، لیکن جونہی کوئی پروفیسر تجویز دینا شروع کرتے بختیار خان انہیں بیچ میں روک کردوسرے پروفیسر سے پوچھتے،پھر ان کی بھی پوری تجویز سنے بغیر کسی اور سے رجوع کرتے بالآخر کسی ایک پروفیسر کو پوری بات کرنے دیتے اور ان کی تجویز کے دوران مسلسل تائید میں سر ہلاتے رہتے اور پھر اسی تجویز میں اپنی تائیدِ مزید شامل کر کے اس پر عمل کرتے، یہ تو بہت دنوں بعد ہمیں علم ہوا کہ وہ اپنا ذہن گھر سے ہی بنا کر لاتے اور کم و بیش سو پروفیسرزمیں سے کوئی ایک اپنا ہم خیال انہیں مل ہی جاتا جو ان کے دل کی بات کرلیتا،ایک بار عجیب اتفاق ہوا کہ ایک سٹوڈنٹ نے ایک پروفیسر سے کوئی گستاخانہ بات کی جس نے پہلے سٹاف روم میں آکرپروفیسر صاحبان کو بتایا اور پھر مل کر پرنسپل کے آفس جا کر اس لڑکے کے خلاف ایکشن لینے کا کہا۔ انہوں نے فوراً میٹنگ بلائی اور حسب عادت تجاویز مانگیں سب کو غصہ تھا اس لئے سب لڑکے کو کالج سے نکالنے کی بات کرتے رہے تھے مگربختیار خان بہت ٹھنڈے مزاج کے ایک مدبرشخص تھے وہ جانتے تھے کہ لڑکے کو کالج سے نکالنے کے بعد کالج میں ہنگامے پھوٹ پڑیں گے، اس لئے انہیں ایسی کسی تجویز کا انتظار تھاجس میں لڑکے کو اس بات پر آمادہ کیا جائے کہ وہ پروفیسر موصوف سے آکر معافی مانگے مگر پروفیسر صاحبان کا مؤقف یہ تھا کہ سٹوڈنٹ کی یہ حرکت قابل معافی ہر گز نہیں اگر لڑکے کو سزا نہ ملی تو پھر یہ روز کا معمول بن جائے گا،اچانک میرے قریب بیٹھے پروفیسر جمیل کاظمی کھڑے ہوئے اور کہنے لگے کہ”یہ واقعہ کوئی نیا نہیں ہے ہماری تاریخ گواہ ہے کہ ایسا پہلے بھی ہو چکا ہے، کل شاہجہان(مغل بادشاہ) کے ساتھ ان کے بیٹے اورنگزیب نے کیا کیا تھا، سب کو علم ہے اس لئے دل بڑا کر کے درگذر سے کام لیا جائے،اتنا کہہ کر چپ ہو گئے سب پریشان کہ جمیل کاظمی نے کس بات کو کس بات سے جوڑ لیا،تو مجھے اٹھ کر وضاحت کرنا پڑی کہ جمیل کاظمی نے یہ واقعہ اس رعایت کی وجہ سے سنایا ہے کہ پروفیسر کانام اتفاق سے شاہجہان ہے اور جس سٹوڈنٹ نے گستاخی کی ہے اس کا نام اورنگزیب ہے، ہمیشہ ایسا ہی ہو تا ہے کہ جب بھی میٹنگز ہوتی ہیں ہر مقرر کی یہی خواہش ہوتی ہے کہ ایوان اس کی رائے یا تجویز سے متفق ہو جائے، لیکن ہر آنے والے مقرر بات شروع تو یہیں سے کرتا ہے کہ مجھ سے پہلے جو کہا گیا وہ درست ہے مگر میں یہ سمجھتا ہوں کہ ہمیں حالات و واقعات کو اس طرح نہیں لینا چاہئے، گویا اتفاق اور اختلاف دونوں کو ساتھ لے کر اپنی بات کی جاتی ہے، لیکن گزشتہ روز مجھے ایک ایسی محفل میں شرکت کا موقع ملا جہاں سارے مقررین ایک دوسرے سے متفق تھے، بس فرق اگر کوئی تھا تو وہ ان کے لب و لہجے کا تھا کہ کسی نے بات دھیمے لہجے میں کی اور کسی نے قدرے جذباتی انداز میں کی مگر کوئی اختلافی بات سامنے نہیں آئی کیونکہ اس میٹنگ کے ایجنڈا کے حوالے سے دوسری کوئی رائے نہیں ہو سکتی تھی اور ایجنڈا عام آدمی کے ازحد دشوار شب و روز کے بارے میں تھا،جس میں مہنگائی اور بے روزگاری سے لے کر نوجوان نسل کا مایوسی کی وجہ سے بہت بڑی تعداد میں ملک چھوڑنا بھی تھا، در اصل یہ اکٹھ ایک بلا کے انسان دوست اور ہمدرد شخصیت خالد ایوب کا تشکیل کردہ پشاور اور پختونخوا قومی جرگہ کا اکٹھ تھا، خالد ایوب پاکستان کے عموماًاور خیبر پختونخوا کے خصوصاًعام آدمی کے دکھوں کے مداوا کے لئے ایک زمانہ سے کوشاں ہے،مجھے یاد ہے کہ جب گورگٹھری تحصیل کی طرف انتظامیہ کی خاطر خواہ توجہ نہیں تھی تو ان دنوں پشاور کو ماضی کی طرح پھولوں کا شہربنانے کی سعی کرنے والے چند ایک دلسوزوں میں خالد ایوب کا نام بھی اس لئے سرخیلوں میں شامل تھا کہ جب بھی اجڑے پجڑے پشاور کی تزئین کی خواہش رکھنے والے احباب سر جوڑ کر مشاورت کرتے تھے اور ان کے بر عکس خالد ایوب اپنے ہم خیال دوستوں کے ساتھ مل کر عملی اقدام پر زور دیتا تھا چنانچہ اس گورگٹھڑی تحصیل میں ایک بہت بڑی تعداد میں ہم لوگوں کو لے کر وہ آئے تھے ا ور اپنے ساتھ وہ کسی نرسری سے خریدے ہوئے چھوٹے بڑے پھولوں کے گملے اور لگانے کے لئے پھولوں کے ان گنت پودے بھی لے کر آئے تھے جو ہم نے گورگھٹڑی کے ایک کونے کو دیکھتے ہی دیکھتے خوب سرسبز و شاداب بنا لیا تھا۔ مجھے خوشی یہ ہوتی ہے کہ عام آدمی کے مسائل کا علم لے کر وہ جب بھی آواز دیتے ہیں تو ان کے ہم خیال دوست فوراً اکٹھے ہو جاتے ہیں، اس دن قومی جرگہ میں بھی بہت سے دوست اکٹھے تھے اور خالد ایوب امیر مینائی کے اس شعر کی تفسیر بنے اِس وقت عوام کو درپیش مسائل پر گفتگو کر رہے تھے
 امیرؔ جمع ہیں احباب درد ِ دل کہہ لے
 پھر التفات ِ دل ِ دوستاں رہے نہ رہے
 قومی جرگہ میں شریک ہر شخص اس بات پر افسردہ تھا کہ موجودہ حالات میں جہاں عام آدمی کے لئے سانس لینا بھی دشوار ہے وہاں قومی اداروں کی کارکردگی بدتر سے بدترین ہوتی جارہی ہے اور بگاڑ کی اصل وجہ یہ بھی ہے کہ اس بگاڑ کا پوچھنے والا کوئی نہیں ہے کیونکہ صاحبان اختیار و اقتدار اپنے اپنے مفادات کے کھونٹے سے بندھے ہوئے ہیں، اقتدار اور اختیار حاصل کرنے سے پہلے اپوزیشن میں رہتے ہوئے عوام کو طاقت کا سر چشمہ کہتے ان کی زبان نہیں تھکتی تھی مگر پھر اقتدار میں آتے ہی ”ہر کہ در کان نمک رفت نمک شد“ وہ سب بھول جاتے ہیں اس لئے میں نے قومی جرگہ میں سقراط کو کوٹ کرتے ہوئے یہی کہا کہ صاحبان اقتدار کا یہ رویہ ساڑھے چار سو برس قبل مسیح سے اب تک یکساں چلا آرہا ہے، کہ ان کی سوچ یہی ہوتی ہے کہ اشیا ء کو کیسے مہنگا کیا جائے کہ ہمیں زیادہ منافع ملے۔ لیکن ایک اور بات بھی زیر بحث آئی کہ ان دنوں تو عام آدمی کی مایوسی اتنی بڑھ گئی ہے کہ وہ چپ ہو گیا ہے مجھے پھر بختیار خان یاد آگئے وہ ہر میٹنگ میں یہ بات ایک تواتر سے کہتے تھے کہ مسائل پیدا کرنے والے طلبہ کم بہت کم ہیں مگر منظم ہیں، جب کہ کالج میں پڑھنے والے اچھے سٹوڈنٹس کی اکثریت ہے شاید نوے فی صد سے بھی زیادہ مگر وہ منظم نہیں ہیں اورخالد ایوب اس قومی جرگہ کے ذریعے اکثریت میں پسے ہوئے اپنے لوگوں کو متحرک اور منظم کرنے کے لئے اپنی سعی کررہا ہے تا کہ وہ اپنے منتخب کردہ لوگوں سے کم سے کم ساحر لدھیانوی کی نظم متاغ ِ غیر کے ان دو مصرعوں کی زبان میں اتنا تو کہہ سکیں کہ 
 پوچھ کر اپنی نگا ہوں سے بتا دے مجھ کو 
 میری راتوں کے مقّدر میں سحر ہے کہ نہیں 

بشکریہ روزنامہ آج