184

آپا جان کی حقیقی آزادی

آپا نے بہت دنوں کے بعد فون کیا تھا ۔ کوئی لمبی تمہید باندھے بغیر ہی انہوں نے اطلاع دی کہ کل ان کی ایک پرانی دوست اسلام آباد آ رہی ہے اور وہ تم سے ملنا چاہتی ہے لہٰذا کل صبح دس بجے تم میرے گھر آ جائو اور وہیں وہ تم سے مل لے گی۔ آپا کو ناں کہنا کافی مشکل ہے کیونکہ چند سال پہلے ہی وہ یونیورسٹی سے ریٹائر ہوئی ہیں اور ان کی پروفیسرانہ تمکنت ابھی برقرار ہے۔ میں نے یہ تو نہیں پوچھا کہ آپ کی دوست کون ہے اور اسے مجھ سے کیوں ملنا ہے لیکن میں نے منمناتے ہوئے عرض کیا کہ کل صبح دس بجے آنا ممکن نہیں کیونکہ مجھے کالم لکھنا ہے آپ گیارہ بجے کا وقت رکھ لیں۔ خلاف توقع آپا جان نے میری گستاخی نظر انداز کردی اور کہا ٹھیک ہے گیارہ بجے تمہارا انتظار کروں گی۔ اگلی صبح میں مقررہ وقت پر ان کے گھر پہنچا تو بھائی جان برآمدے میں بیٹھے اخبار پڑھ رہے تھے۔ مجھے دیکھتے ہی ہڑ بڑا گئے اور پوچھا ’’خیریت ہے ناں؟ مارشل لا تو نہیں لگ گیا؟‘‘ میری ہنسی نکل گئی۔ میں نے ہنستے ہوئے پوچھا کہ آپ کو دن میں بھی ڈرائونے خواب کیوں آنے لگے ہیں؟ بھائی جان نے طنزیہ انداز میں کہا کہ تم نے کئی مہینوں کے بعد شکل دکھائی ہے اور وہ بھی صبح کے وقت، اس لئے مجھے یہ لگا کہ کچھ نہ کچھ ہوگیا ہے اور تم گرفتاری کے خوف سے بھاگ کر میرے پاس آئے ہو تاکہ میں تمہاری ضمانت کا بندوبست کروں۔ اب میں سنجیدہ ہوگیا اور بھائی جان سے کہا کہ آپ مجھے تیس سال سے جانتے ہیں، میں گرفتاری کے ڈر سے بھاگنے والا نہیں اور یہ بھی جان لیجئے کہ جب مارشل لا آتا ہے تو اس کے ساتھ فوجی عدالتیں بھی آ جاتی ہیں اور فوجی عدالتوں میں آپ جیسے نامی گرامی وکیل بھی کسی کی ضمانت نہیں کرا سکتے۔ بھائی جان نے اثبات میں سر ہلایا اور عینک اتار کر کہا کہ اس مرتبہ فوجی عدالتیں پہلے آگئی ہیں مارشل لا کہیں پیچھے رہ گیا ہے۔ اس دوران آپا جان بھی نمو دار ہوگئیں اور اپنے شوہر نامدار کو تجاہل عارفانہ سے بتایا کہ حامد کو میں نے بلایا ہے آپ جا کر نہائیں دھوئیں اور پھر ڈرائنگ روم میں آیئے گاکیونکہ نسرین لاہور سے آئی ہے۔ نسرین کا نام سن کر بھائی جان رنج و الم کی تصویر بن گئے اور دکھی لہجے میں کہنے لگے کہ یار میں نے بہت کوشش کی کہ نسرین کے بیٹے کا کچھ پتہ مل جائے لیکن کچھ پتہ نہیں چلا۔ مجھے سمجھ آ چکی تھی یہ کسی لاپتہ نوجوان کا معاملہ ہے جسے پاکستان کے ایک نامور وکیل صاحب بازیاب نہیں کرا سکے اور اب اس معاملے سے مجھے نمٹنا تھا۔

آپا جان نے میرے لئے پرتکلف ناشتے کا اہتمام کر رکھا تھا لیکن ان کی مہمان دوست کی سوجی ہوئی آنکھیں دیکھ کر مجھے ناشتہ بھول گیا۔ ان کا نام نسرین تھا اور ان کے ساتھ ایک اور خاتون بھی تھیں جو انہیں باجی کہہ رہی تھیں۔ معلوم ہوا کہ نسرین صاحبہ کا نوجوان برخوردار 9 مئی کو عمران خان کی گرفتاری کے خلاف ہونے والے احتجاج میں شامل تھا اور پھر اچانک غائب ہوگیا۔ میں بار بار پوچھ رہا تھا کہ کیا برخوردار نے توڑ پھوڑ اور جلائو گھیرائو میں حصہ لیا؟ اس کی والدہ نے جواب دینے کی بجائے بار بار یہی کہا کہ ہم تو پاکستان کی خاطر گھر سے نکلے تھے لیکن ظالموں نے ہمارے بچے غائب کردیئے۔ انہیں روتا دیکھ کر آپا جان بھی رونے لگیں تو نسرین صاحبہ کے ساتھ آنے والی خاتون نے انہیں کہا کہ باجی انہیں پوری با ت بتائو۔ اب جو پوری بات سامنے آئی تو وہ یہ تھی کہ 9 مئی کو نسرین صاحبہ اس ہجوم میں شامل تھیں جس نے کور کمانڈر لاہور کے گھر کے اندر گھس کر وہ کیا جو پہلے کبھی نہ ہوا تھا۔ اس ہنگامے سے فارغ ہو کر نسرین صاحبہ نے اپنے بیٹے کو وہاں بلایا تاکہ وہ انہیں گاڑی میں آ کر لے جائے۔ بیٹا وہاں پہنچا تو اس نے بھی ماں کی دیکھا دیکھی چار نعرے لگا دیئے۔

جیو فینسنگ میں دونوں ماں بیٹا کی کور کمانڈر ہائوس کے آس پاس موجودگی کا پتا چل گیا۔ بیٹا پکڑا گیا اور ماں مفرور تھی۔ یہ کہانی سن کر ہماری آپا جان گھبرا گئیں اور انہوں نے نسرین سے پوچھا ۔’’کیا تم 9مئی کو کور کمانڈر کے گھر میں گھسی تھیں؟‘‘ نسرین نے روتے ہوئے کہا کہ میں اکیلی تو نہیں تھی۔ اور پھر انہوں نے چار پانچ دیگر خواتین کا نام بھی لے دیا۔ یہ سن کر آپا جان نے کہا کہ فون پر تو تم اپنے آپ کو بے گناہ قرار دے رہی تھیں اب پتہ چلا کہ تم بلوائیوں میں شامل تھیں۔ یہ سن کر نسرین صاحبہ نے کہا کہ ’’نہیں نہیں! ہم نے کوئی آگ نہیں لگائی۔ یہ آگ تو حکومت نے خود لگوائی تھی‘‘۔ وہ پھر سے پھوٹ پھوٹ کر رونے لگیں۔

آپا جان نے کہا کہ جس فون سے تم نے مجھے کال کی کیا یہ فون 9 مئی کو تمہارے پاس تھا؟ نسرین صاحبہ نے کہا کہ آپ بھول گئیں میں نے آپ کو لینڈ لائن سے کال کیا تھا۔ یہ سن کر آپا نے سُکھ کا سانس لیا اور مجھے وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ آئی ایم سوری، میں 9مئی کو ہنگامہ کرنے والوں کی کوئی مدد نہیں کرسکتی۔ اس دوران بھائی جان بھی آگئے ۔ ان کو حقائق کا پتہ چلا تو پریشان ہوگئے۔ نسرین کو تسلی دیتے ہوئے کہا کہ اگر آپ خود کو بے گناہ سمجھتی ہیں تو سرنڈر کر دیں، شکر کریں کہ آپ کو کم از کم کسی فوجی عدالت میں تو پیش کیا جائے گا، بلوچستان کے لاپتہ افراد کو تو کسی فوجی عدالت میں بھی پیش نہیں کیا جاتا۔ اپنے میزبانوں کے رویے میں تبدیلی دیکھ کر نسرین صاحبہ کو چپ لگ گئی۔ انہوں نے امداد طلب نظروں سے مجھے مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے تو ہمیشہ فوجی عدالتوں کی مخالفت کی ہے کیا آپ آئندہ بھی مخالفت کریں گے؟میں نے جواب میں کہا کہ جی میں فوجی عدالتوں کی حمایت نہیں کرسکتا لیکن کاش کہ آپ لوگ عمران خان کے دور میں بھی آرمی ایکٹ کے تحت بننے والی عدالتوں کی مخالفت کرتے لیکن عمران خان کی غلطیاں تو آپ کو نظر ہی نہیں آتیں۔ نسرین صاحبہ نے جواب میں کہا کہ ہم تو پچھلے سال عمران خان کے حامی بنے ہیں جب اس نے حقیقی آزادی کا نعرہ لگایا اس سے پہلے تو ہم بھی اس کی حکومت سے بڑے تنگ تھے۔ میں نے پوچھا کون سی حقیقی آزادی؟ نسرین صاحبہ تنک کر بولیں ’’امریکی غلامی سے آزادی‘‘۔ اس سے پہلے کہ میں کچھ بولتا آپا جان جلال میں آگئیں۔انہوں نے انگلی گھماتے ہوئے کہا کہ تمہارا عمران خان پچھلے سال جس امریکہ پر سازش کا الزام لگا رہا تھا آج اسی امریکہ سے مدد کے لئے منت سماجت کر رہا ہے۔ تم لوگوں کو شرم آنی چاہئے کہ امریکہ سے امداد امپورٹ کرتے ہو اور امپورٹڈحکومت نامنظور کا نعرہ بھی لگاتے ہو۔ یہ سن کر نسرین تلملا گئیں اور ہمار ی آپا جان کا بھید کھولتے ہوئے کہا کہ کچھ ہفتے پہلے تم نے اپنے بھانجے کےلئے پی ٹی آئی کا ٹکٹ مانگا اور میں نے بھی تمہاری سفارش کی تھی آج عمران خان برا کیسے ہوگیا؟ آپا صوفے سے کھڑی ہوگئیں اور اعلان کیا میرا بھانجا کل پی ٹی آئی چھوڑ دے گا۔

بشکریہ جنگ نیوزکالم