9 مئی:ذمہ داروں سے کیا سلوک کیا جائے

انسان نے فوج کا ادارہ اس زمین پہ ہوش کی آنکھ کھولتے ہی تشکیل دے دیا تھا ۔ ایسے جوان ، جو اپنی جان ہتھیلی پہ رکھ کر دشمن کو روک سکیں ۔ انہیں نہ صرف تنخواہ ادا کی جاتی تھی بلکہ اپنی جان خطرے میں ڈالنے والوں سے مخلوق محبت بھی کرتی ۔ ان کے قصیدے لکھے جاتے ۔لوگ ان کے عشق میں مبتلا ہوتے ۔ ہمارا کلچر مختلف ہے ۔ یورپ میں پہلی اور دوسری جنگِ عظیم میں جانے والے جوانوں سے خواتین نے لازوال محبت کی داستانیں رقم کیں۔ لٹریچر ان سے بھرا پڑا ہے۔

جنگی طور پر پاکستانی فوج کی کارکردگی بے مثال ہے ۔ اپنے سے کئی گنا بڑا دشمن پیدائشی طور پر اس کی تاک میں تھا۔ اس نے ہمیشہ اسے ناکوں چنے چبوائے ۔ 65ء کی جنگ میں اس نے لازوال بہادری کی داستان رقم کی۔ 71ء کی جنگ پہ جو طعنہ زنی کی جاتی ہے ، وہ حماقت پہ مبنی ہے ۔ 2200ک لومیٹر دور جس زمین پہ پاک فوج کی کوئی کمک پہنچ ہی نہیں سکتی تھی، اس کا دفاع کیا جاتا۔ مشرقی پاکستان دراصل ہم نے سیاسی بساط پر اس لئے کھویاکہ بھٹو سے دو گنا سیٹیں رکھنے والے شیخ مجیب الرحمٰن کو اقتدار سے محروم رکھا گیا۔ باقی تاریخ ہے ۔

ابھی کل اس فوج نے ہمیں دہشت گردی کے خلاف جنگ جیت کر دی۔ معلوم عسکری تاریخ کا یہ ایسا واقعہ ہے، جیسا کبھی سنا گیا، نہ دیکھا گیا۔ یہ سب کچھ اس حال میں کیا گیا کہ بھارت نے مشرقی سرحدوں پہ پاکستانی فوج کو انتہائی حد تک انگیج رکھا۔ اس کے علاوہ کلبھوشن یادیو جیسی سازشیں بھی کیں۔ اس کے علاوہ سویت یونین کی افغانستان آمد سے پورا فائدہ اٹھا کر جنرل ضیاء الحق کی قیادت میں وہ ایٹمی پروگرام مکمل کیا گیا، جس کی بنیاد بھٹو نے رکھی تھی۔ افغانستان میں امریکی اتحادی افواج کی آمد کے بعد پاکستان کو مکمل تباہی سے بچالیا گیا۔ یہ سب عظیم کارنامے ہیں ۔

ابھی نندن کا واقعہ ابھی کل کی بات ہے ۔ پاکستان نے بھارت کے چار حساس مقامات پر گولے پھینکے، جہاں ہائی ٹارگٹ شخصیات موجود تھیں ۔ بعد ازاں بھارتی طیارے اندر آئے تو انہیں آنے دیا گیا اور پھر دو کو گرا دیا گیا ۔ بھارت کی پوری دنیا میں شدید سبکی ہوئی کہ اس کا طیارہ پاکستانی حدود کے اندر پڑا ہوا تھا ۔ اس کے بعد ابھی نندن کوواپس بھیج دیا گیا ۔ بغیر کسی جانی نقصان کے عظیم اہداف حاصل کر لئے گئے ۔

یہ سب کچھ لکھنے کے بعد فوجی قیادت سے کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں ، ایک مثال کے ساتھ۔ ایک گھر نے اپنی حفاظت کی ذمہ داری سب سے طاقتور بھائی کے سپرد کر رکھی ہے ۔ دشمن ہمسایہ جب بھی اس گھر پہ حملہ کرتا ہے تو وہ اپنے گھر کا دفاع بخوبی کر لیتا ہے ۔اپنے سے کئی گنا بڑے دشمنوں کو تگنی کا ناچ نچا دیتا ہے ۔ ایک دن مگر جب وہ اپنی ڈیوٹی مکمل کرنے کے بعد گھر لوٹتا ہے تو آگے اس کے اپنے بہن بھائی، جن کی حفاظت کا ذمہ اس نے اٹھا رکھا ہے ، ہاتھوں میں ڈنڈے لئے اپنے محافظ ہی کے خلاف نعرے بازی کر رہے ہیں ۔ اب اس صورتِ حال میں اسے کیا کرنا چاہئے ۔ کیا وہ اپنے عسکری تجربے سے فائدہ اٹھا کر سب کی خوب پھینٹی لگائے تو مسئلہ حل ہو جائے گا؟ سب جانتے ہیں کہ اس طرح مسئلہ حل نہیں ہوگا بلکہ مزید بگڑ جائے گا ۔ اسے ان کے ساتھ بات کرنا ہوگی ۔ ان کی غلط فہمیاں رفع کرنا ہوں گی اور اگر خود اس سے کوئی غلطی سرزد ہو رہی ہے تو اس سے ہٹنا ہو گا۔ اگر آپ کے خونی رشتے دار آپ کے خلاف ہو جائیں تو انہیں جنگی میدان میں زیر نہیں کیا جا سکتا۔ غلط فہمیاں رفع کرنے کے سوا اور کوئی راستہ نہیں ۔ فوج اور قوم آپس میں خونی رشتے دار ہیں ۔ یہ رشتے داری کبھی ختم نہیں ہو سکتی ۔

میری دانست میں خرابی کی بنیاد اس وقت رکھی گئی، جب 2018ء کے الیکشن سے قبل فوجی قیادت نے عمران خان کی درخواست پر اس کے سر پہ ہاتھ رکھنے کا فیصلہ کیا۔ اس کے بعد باقی سب اسی غلط فیصلے کا نتیجہ ہے ۔ فوجی قیادت کوکپتان کو یہ جواب دینا چاہئے تھا کہ اگر آپ اپنے بل پر الیکشن جیت کر حکومت میں آجائیں تو فوج آپ کو سر آنکھوں پہ بٹھائے گی ۔ نہ ہم آپ کے اقتدار کی راہ میں کوئی روڑے اٹکائیں گے اور نہ ہم اس ضمن میں آپ کی کوئی مدد کر سکتے ہیں ۔

فوجی قیادت کو میرا ایک مشورہ ہے ۔ آپ 9مئی کو فوجی تنصیبات پہ توڑ پھوڑ کرنے والوں کو معاف کر دیں ۔ اگر ابھی نندن کو چھوڑا جا سکتا ہے تو اپنے ہم وطنوں کو کیوں نہیں ۔ حملوں میں ملوث نوجوانوں سے انہیں ڈائیلاگ کرنا چاہئے ۔ اگر بلوچستان اور قبائلی علاقے کے دہشت گردوں سے مذاکرات ہو سکتے ہیں تو ان تعلیم یافتہ نوجوانوں سے کیوں نہیں ۔ یقیناً فوج اس بات پہ قادر ہے کہ ان نوجوانوں کے خلاف قانونی کارروائی کر کے انہیں کڑی سزا دلوا سکے ۔ اس سے مگر فوج مخالف جذبات میں شدت آئے گی ۔ جن لڑکے لڑکیوں کو سزائیں ملیں گی ، وہ اگر ثابت قدم رہے تو وہ ہیرو بن کے ابھریں گے ۔

فوج کو جنرل راحیل شریف کے اس بیان پر قائم ہو جانا چاہئے۔ انہوں نے کہا تھا : ہم دوسرے تمام اداروں کی عزت کرتے ہیں مگر اپنے ادارے کی عزت بھی ہر صورت میں کروائیں گے ۔ دوسری کوئی صورت نہیں ۔اس مقصد کے لئے عمران خان سے مذاکرات ہو سکتے ہیں ۔ الیکشن کتنے عرصے ٹالا جا سکتاہے ۔ عمران خان کے حق میں اگر 70فیصد رائے عامہ ہموار ہے تو اسے کیونکر بدلا جا سکتا ہے ۔

                                                                                                                                                                                                                                           بلال الرشید       

 

بشکریہ روزنامہ آج