161

   مفاد پرست ٹولہ کبھی انقلابی نہیں ہوسکتا

رواں ماہ مئی کے آخری عشرے میں پاکستان تحریک انصاف کے سیاسی قائدین کی جانب سے پے درپے پریس کانفرسوں میں پارٹی چھوڑنے کیساتھ ساتھ سیاست سے کنارہ کشی کے اعلانات نہ صرف حیران کن ہیں بلکہ جمہوریت کے لئے نقصان دہ بھی ہیں۔ ان قائدین میں شیریں مزاری، فیاض چوہان، فواد چوہدری نمایاں ہیںاور تادم تحریر اشاعت تک نہ جانے اور کتنے سیاسی رہنما پاکستان تحریک انصاف کو بائے بائے کر جائیں۔حیرانی اس بات پر ہورہی ہے کہ ان سیاسی رہنمائوں کی انقلابی تقریریں،ٹویٹر/فیسبک اور پریس کانفرسوں میں مکے ہلا ہلا کر سیاسی مخالفین اور ریاستی اداروں کو للکارا جاتا تھا اور بعض اوقات تو یہ نعرہ بہت شدومد سے مارا جاتا تھا کہ" لے کر رہیں گے آزادی، تمہارا باپ بھی دے گا آزادی"۔ایک منچلے دوست کے بقول عمران احمد خان نیازی کی22سالہ جدو جہدسے بنی پارٹی 22 دن کی سختی نہ جھیل سکی۔یہ بھی حقیقت ہے کہ عمران خان کو چھوڑنے والے مفاد پرستوں کا ٹولہ تھا جو الیکٹیبلزکے نام پر عمران خان پارٹی میں شامل کرتے رہے اور پارٹی کے حقیقی اور پرانے کارکن و قائدین کھڈے لائن لگاتے گئے۔مشکل کی اس گھڑی میں شائد آج بھی عمران خان کے دیرینہ ساتھی عمران خان کیساتھ نظر آئیں مگر لوٹے اور مفاد پرست سیاسی افراد چند دن کی سختیوں کو برداشت نہ کرپائیں اور عمران خان کو چھوڑتےچلے جائیں۔اور یہ بھی حقیقت پر مبنی بات ہے کہ اگرپارٹی لیڈر خود ایک دن بھی جیل جانے کو تیار نہ ہو تو دیگر پارٹی قائدین کیونکر قید و بند کی صعوبتیں برداشت کریں گے۔یہ قابل ذکر ہے کہ تحریک انصاف کے دوست احباب کے نزدیک موجودہ دور حکومت میںپی ٹی آئی رہنمائوں کے خلاف ظلم وستم کی انتہا کی جارہی ہے۔یا تو پی ٹی آئی دوستوں کی یادداشت بہت کمزور ہے یا پھر بہت ہی بھولے بھالے ہیں۔ یاد رہے عمرانی دور حکومت میں اپوزیشن رہنمائوں کی جھوٹے اور من گھرٹ مقدمات میں گرفتاریوں پر پی ٹی آئی دوست ، چینلز پر بیٹھے نام نہاد تجزیہ کار، ففتھ جنریشن وار کے نام نہاد مجاہدین لُڈیاں ڈالا کرتے تھے۔اور بدترین ریاستی تشدد، عدالتوں میں بیٹھے ہوئے تحریک انصاف کے حمایتی ججز کی طرفداری کے باوجود بھی اپوزیشن جماعتوں خصوصا پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی کے سیاسی قائدین کے خلاف مقدمات عدالتوں میں ثابت نہ ہوپائے۔ اور بادل ناخواستہ ججوں کو ان قیدیوں کو چھوڑنا پڑا۔قارئین خصوصا پاکستان تحریک انصاف کے دوستوں کی یاددہانی کے لئے اک مختصر ترین لسٹ قلمبند کی جارہی ہے۔ جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ عمران خان اور عمران خان کی حمایتی خلائی مخلوق کی جانب سے عمرانی دور حکومت میںکس طرح چُن چُن کر حزب اختلاف کے سیاستدانوں یہاں تک کہ انتہائی محنتی و قابل بیوروکریٹس کو مہینوں کے حساب سے پابند سلاسل کیا جاتا رہا۔احد چیمہ1148دن۔سید خورشید شاہ 765دن۔حمزہ شہباز 627 دن ۔فواد حسن فواد 510دن۔خواجہ سعد رفیق نے 462 دن ۔میاں نوازشریف 374 دن ۔حنیف عباسی 352دن۔ شہبازشریف 340دن ۔حافظ نعمان 305دن۔کامران مائیکل 270 دن ۔راجہ قمر السلام 248دن۔شاہد خاقان عباسی  222دن۔یوسف عباس 215دن۔ فریال تالپور 187 دن ۔آصف علی زرداری 185دن۔خواجہ آصف  176 دن ۔رانا ثناء اللہ  174 دن ۔مریم نوازشریف 157 ۔مفتاح اسماعیل 140 دن ۔احسن اقبال  66 دن۔میاں جاوید لطیف56دن۔کیپٹن صفدر 53 دن اورعرفان صدیقی 6دن بنا کسی جرم جیل میں گزارے ۔عمرانی دور حکومت نے ان افراد کے اوپر ظلم و ستم کے پہاڑڈھائےمگر آفرین ہے ان قیدیوں پر جوبے قصور جیلوں میں سڑتے تو رہے مگر نہ تو آزادی کے لئے ان افراد نے عمرانی حکومت کے آگے اپنا سر جھکایا اور نہ ہی اپنی سیاسی جماعت اور لیڈرشپ سے غداری کی۔ سوشل میڈیا پر درج بالا افراد کی عدالتوں کے اندر اور باہر میڈیا سے بات چیت موجود ہے جس میں بخوبی دیکھا جاسکتا ہے کہ کس طرح یہ افراد ججز اور میڈیا کے سامنے اپنے موقف پر ڈٹے ہوئے دیکھائی دیئے ۔یہ افراد ججز کو مخاطب کرتے ہوئے کہتے تھے کہ جج صاحب آپ 7دن کے جسمانی ریمانڈ کی بجائے 90 دن کا ریمانڈ کا حکم نامہ جاری کریں لیکن عمرانی حکومت ہمیں ہمارے اصولی موقف سے ایک انچ پیچھے نہیں ہٹا سکتی۔میڈیاپر کسی فرد کا رونا پیٹنا اور بین ڈالنا نظر نہ آیا۔دوسری جانب پی ٹی آئی میں شامل مفاد پرستوں کا ٹولہ چند دن کی صعوبتیں برداشت نہ کرپایا ۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ مودہ حالات میں تحریک انصاف استعفوں کی وجوہات 9مئی کے سانحات ہیں جب پی ٹی آئی رہنمائوں کی سربراہی میں پی ٹی آئی ورکرز نے پاکستان کی حساس عمارتوں اور تنصیبات پر حملے کئے اور شدید نقصان پہنچایا۔چونکہ یہ واقعات صریحا ریاست پاکستان پر حملہ آور ہونے کے مترادف ہیں ، انہی وجوہات کی بناء پر پی ٹی آئی سیاسی قائدین کے لئے ان مقدمات کا سامنا کرنا کسی صورت ممکن نہیں ہے کیونکہ پی ٹی آئی قیادت نے  9مئی کو ریاستی ریڈ لائن کراس کرلی تھی۔یاد رہے عمرانی دور حکومت میںقید وبند کی صعوبتیں برداشت کرتے ہوئے ان افراد نے اسٹیبلشمنٹ میں موجود کچھ افراد کے کرداروں پر تنقید ضرور کی مگر بحیثیت ادارہ ملٹری و عدلیہ کی ریڈ لائن کو کبھی کراس نہ کیا۔ مگر دوسری جانب 9مئی کے دن پی ٹی آئی قیادت کی جانب سے پاکستان کی حساس تنصیبات کو براہ راست نشانہ بنانا ناقابل معافی و ناقابل تلافی جرائم ہیں۔ ابھی بھی وقت ہے پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کو 9 مئی واقعات پر نہ صرف کھل کر مذمت کرنی چاہیے بلکہ بحیثیت قومی لیڈر قوم کے سامنے براہ راست معافی بھی مانگنی چاہیے۔ آئینی و قانونی طور پر پاکستان کے کسی ادارے کے فرد کے کردار پر تنقید کی جاسکتی ہے مگر پورے ادارے کے خلاف کھل کر محاذ آرائی ، پرتشدد اور دہشت گردی اقدامات کسی صورت قابل قبول نہیں ہوسکتے۔یاد رہے انقلاب کسی مقصد، نظریہ کے تحت وقوع پذیر ہوتے ہیں۔یہی وجہ کہ انقلاب کے لئےافراد اپنا تن من دھن قربان کرنے کے لئے تیار ہوجاتے ہیں مگر مفاد پرست ٹولہ کبھی انقلابی نہیں ہوسکتاکیونکہ انکے نزدیک انکا انقلاب صرف انکا مفاد ہوتا ہے۔

بشکریہ اردو کالمز