جنات (آخری حصہ)

کراچی میں بابا نوری کے مزار پر ہر جمعرات کو بہت رش ہوتا ہے، ایک طرف کچھ عورتیں جالیوں کے پاس بیٹھی نظر آتی ہیں، بعض لڑکیاں اور خواتین جالی پکڑے بیٹھی ہوتی ہیں، یہ وہ عورتیں ہیں جن پر آسیب، جن یا چھلاوے کا اثر ہے۔ پنڈی کے قریب بابا مہر علی شاہ کے مزار پر بھی میں نے ایسی خواتین کو دیکھا ہے۔

میری چچا زاد بہن پر آسیب مسلط تھا، وہ تلاوت بہت اچھی کرتی تھیں، مہر علی شاہ کے مزار پر جانے سے وہ آسیب دور ہوا۔ اس کا تفصیلی ذکر میں نے ’’ نگار خانہ ‘‘ میں کیا ہے۔ رئیس امروہوی نے لوگوں کے تجربات اور مشاہدات پر مبنی خطوط کو اپنے کالموں کا حصہ بنایا ہے۔ ایک جگہ اکبر شاہ جن کا ذکر ہے۔

ڈاکٹر مسعود احمد چشتی (بلاک نمبر6، سینٹرل طیبہ کالج، سرگودھا) لکھتے ہیں کہ ایک نوجوان باکرہ لڑکی کو ہر سال ایک سانپ مقررہ تاریخ یعنی 29 اگست کو ڈستا ہے۔ اس سے پہلے تین چار سانپ مارے جا چکے تھے مگر ڈسنے والے سانپ کا پتا نہیں چلتا تھا۔ خط و کتابت کے ذریعے آپ کے مشورے پر لڑکی کو چراغوں کے سامنے بٹھایا گیا، اور لڑکی سے کہا گیا کہ وہ پلک جھپکائے بغیر چراغ پر نظریں جما دے۔

اس کے بعد سورۃ جن کی تلاوت شروع کی گئی، جب سورہ جن کی دوبارہ تلاوت کی جا رہی تھی تو لڑکی پٹخنی کھا کر زمین پر گر پڑی جیسے کسی نادیدہ ہاتھ نے اسے زمین پر پٹخ دیا ہو۔ لڑکی نے اس حیران کن کیفیت میں اعلان کیا کہ میرا نام اکبر شاہ جن ہے اور میں فلاں بزرگ کے خدام میں شامل ہوں۔

ان نے بزرگ کا نام لے کر کہا۔ جن سے کہا گیا کہ وہ لڑکی کو پراسرار سانپ کے کاٹنے سے نجات دلا دے، لیکن کوئی تسلی بخش جواب نہ ملا۔ اب اس جن گرفتہ لڑکی کی حرکات سنیے! پورا گھڑا جس میں چھ سات سیر پانی تھا غٹاگٹ پی گئی، چائے کی چھ پیالیوں والی کیتلی کی ٹونٹی منہ لگا کر پی گئی، لڑکی کو بتلائے بغیر ایک شخص کو بھیجا گیا کہ وہ جن اتارنے والے عامل کو بلا لائے، تو لڑکی نے چیخ چیخ کر کہا کہ عامل کو بلانے سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا وہ میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔

ڈاکٹر اس دورے کو ہسٹریا کا دورہ قرار دیتے ہیں، چنانچہ ایک شخص کو کہا گیا کہ وہ برومائیڈ (ہسٹریا کی دوا)لے آئے، تو لڑکی نے کہا کہ وہ ہسٹریا کی مریضہ نہیں ہے، مریضہ کو بتائے بغیر سادہ پانی میں برومائیڈ ملاکر اسے پینے کے لیے دیا، لڑکی نے تھپڑ مار کر اس گلاس کو توڑ دیا اور کہا، سادہ پانی میں برومائیڈ ملا کر پلانے سے تمہیں شرم نہیں آتی، مجھے سادہ پانی دو۔ لڑکی پر اکبر شاہ جن مسلط ہے اور کسی بھی عامل کو جن اتارنے میں کامیابی نہ ہوئی۔ وہ اتنی کمزور ہوچکی ہے۔

یہ 1973 کے واقعات ہیں۔ اب پتا نہیں وہ لڑکی زندہ بھی ہے یا نہیں۔ ڈاکٹر مسعود احمد چشتی نے15 دسمبر 1972 کے خط میں رئیس امروہوی کو لکھا کہ لڑکی کی زبان سے اکبر شاہ جن کی جو معلومات حاصل ہوئیں وہ یہ ہیں کہ اکبر شاہ ڈھائی لاکھ جنوں کے قبیلے کا سردار ہے، وہ قبیلہ لاہور میں مدفون ایک معروف بزرگ کے دست مبارک پر مشرف بہ اسلام ہوا۔ اکبر شاہ جن کے قبیلے کے افراد خود عمل و وظائف درود و اذکار میں مشغول رہتے ہیں لہٰذا ان پر عملیات اثرانداز نہیں ہوتے۔

ڈاکٹر اے۔آر جاوید (پوسٹ آفس سکرنڈ، ضلع نوابشاہ) کے خط کا اقتباس ملاحظہ ہو۔ کہتے ہیں ہمارا پیشہ زمینداری ہے اور خاندان کے چار پانچ خاندان بھائی وغیرہ ایک ہی احاطے میں رہتے تھے۔

ہماری بھابھی کا قاعدہ تھا کہ جب سے وہ بیاہ کر آئی تھیں، صبح چار بجے اٹھتیں اور گھر کے کام کاج میں لگ جاتیں، وہ مویشیوں کا گوبر اٹھاتیں، جھاڑو دیتیں اور صبح ہوتے ہی سب گھر والوں کے لیے ناشتہ بناتیں، محنت کے سبب بھابھی کا معدہ کافی مضبوط تھا، چھ سات روٹیاں کھانے کے بعد بھی کہتیں کہ میرا پیٹ نہیں بھرا، ہم سوچتے یہ کام زیادہ کرتی ہیں اس لیے بھوک بھی زیادہ لگتی ہے، اتنا کام کرنے کے باوجود ان کے ماتھے پہ کبھی بل نہ آتا نہ کبھی شکوہ کرتیں کہ اتنے لوگوں کا کام ان پر کیوں ڈال دیا گیا ہے۔

چھ ماہ تک یہی صورت حال رہی، پھر اچانک ان کی بھوک کم ہونے لگی اور وہ بہت کمزور ہوگئیں، ان پر دورے پڑنے لگے ، وہ کھڑے کھڑے گر جاتی تھیں اور بے ہوش ہو جاتی تھیں، پانچ چھ ماہ تک یہی حالت رہی، دنیا بھر کے علاج کروائے گئے، لیکن ان کے دورے بند نہ ہوئے تو لوگوں نے روحانی علاج کا کہا، کئی عاملوں کو دکھایا لیکن کوئی کامیابی نہ ہوئی، پھر ایک بار کسی عامل کا پتا چلا کہ وہ بہت پہنچے ہوئے ہیں اور کئی لوگوں کو فائدہ بھی ہوا ہے، لہٰذا ان عامل کو بلوایا گیا ان کے ساتھ ایک ان کا خلیفہ بھی تھا۔

جوں ہی عامل صاحب نے گھر کے اندر قدم رکھا، بھابھی کو شدید دورہ پڑا، عامل صاحب کو اس کی اطلاع دے دی گئی، انھوں نے والد صاحب کو ایک آیت بتائی اور کہا، یہ آیت پڑھ کر مریضہ پر دم کر دو۔ والد صاحب نے ایسا ہی کیا، جیسے ہی آیت پڑھ کر والد صاحب نے بھابھی کے پھونک ماری، وہ ہوش میں آگئیں۔ دورے کی کیفیت دور ہوگئی۔ عامل صاحب نے حکم دیا کہ مریضہ شام تک قرآن شریف کی تلاوت کرتی رہے، بھابھی نے حکم کی تعمیل کی تو انھیں ایسا محسوس ہوا (یہ بھابھی کا بیان ہے) کہ جیسے کوئی سایہ ان کے اندر گھوم رہا ہے، عشا تک بھابھی تلاوت کرتی رہیں، عشا کے بعد عامل صاحب نے عمل کا ارادہ کیا زمین پر چادر بچھا دی گئی، چادر پر بھابھی کو بٹھا دیا گیا، خود عامل صاحب دور ایک چارپائی پر بیٹھ گئے۔

ریت سے بھرا ایک ڈبہ منگوایا گیا، اس میں اگربتیاں گاڑ دی گئیں، خیر پہلے عامل صاحب نے کوئی وظیفہ پڑھا، پھر کلام پاک کی تلاوت شروع کی، اس کے بعد مریضہ سے پوچھا ’’تو کون ہے؟‘‘ لیکن کئی مرتبہ پوچھنے پر بھی جواب نہ ملا تو انھیں جلال آگیا اور تیور بدل کر کہنے لگے ’’بتاتا ہے یا نہیں کہ تو کون ہے؟ ورنہ تیرا کوئی اور علاج کروں؟‘‘ اس پر مریضہ نے کہا ’’میں جن ہوں‘‘ ’’کیا نام ہے تیرا؟‘‘ عامل صاحب نے پوچھا تو مریضہ نے کہا ’’ میرا نام ہنومان جن ہے۔‘‘ عامل صاحب نے پوچھا تو مریضہ کو کیوں پریشان کرتا ہے؟ تو مریضہ نے جواب دیا ’’ اس نے میرے گھر پر پیشاب کیا ہے۔‘‘ ’’تمہارا گھر کہاں ہے؟‘‘ عامل نے پوچھا۔ میرا گھر بیری کے درخت کے نیچے ہے۔

(بیری کا درخت ہمارے گھر سے تھوڑی دور پر ہے)۔ پھر عامل صاحب نے پوچھا ’’ تم اسے چھوڑ کر جاتے ہو یا نہیں؟‘‘ پھر تو عامل صاحب نے ڈانٹنا شروع کردیا، آخر جن نے اقرار کیا کہ ’’ جاتا ہوں‘‘ عامل صاحب نے کہا جاتے وقت کوئی نشانی دے کر جاؤ۔ جن نے کہا ’’کس قسم کی نشانی؟ ‘‘ عامل صاحب نے کہا کہ جس چادر پہ مریضہ بیٹھی ہے اسے نکال کر دور پھینک دو۔ مریضہ کو گرادو۔ اگر بتیاں بجھا دو، یہ ہے تمہارے جانے کی نشانی۔ پھر ایسا ہوا، چادر ہلتی نظر آئی، لیکن مریضہ بیٹھی رہی، اگر بتیاں جلتی رہیں، عامل نے غصے میں کہا کہ ’’ تمہیں جو حکم دیا گیا ہے اس کی تعمیل کرو، ورنہ تمہاری خیر نہیں۔‘‘ عامل صاحب کے حکم کی تعمیل کی گئی۔

اگربتیاں بجھ گئیں، مریضہ کے نیچے سے چادر نکل گئی۔ وہ زمین پر گر پڑی۔ بھابھی نے کلمہ پڑھا، عامل صاحب نے کہا ’’ جاکر سو جاؤ۔‘‘ بھابھی کافی نڈھال نظر آرہی تھیں۔ دوسرے روز عامل صاحب نے ہمارے گھر کی بھیڑ کے کان سے خون نکالا اور اس خون سے بھابھی کے لیے تعویذ لکھا اور کہا اس بھیڑ کو صدقہ کردو، گھر میں نہ رکھنا یا پھر اس کو ذبح کر کے اس کا گوشت غربا و مساکین میں بانٹ دو۔ ہم لوگوں نے کہا آپ سے زیادہ مستحق کون ہوگا، آپ ہی لے لیجیے، لہٰذا بھیڑ انھیں دے دی گئی اور بھابھی ٹھیک ہوگئیں۔

بشکریہ روزنامہ آج