سوشل میڈیا اور سکرین ٹائم

جامعیت پیش لفظ ہے۔ عصر حاضر کو ’معلومات کا دور‘ کہا جاتا ہے تاہم ’خبر (جامع معلومات)‘ کی اہمیت کم نہیں ہوئی بلکہ اِس کی مانگ پہلے سے زیادہ ہو گئی ہے کیونکہ خبر و خبریت اور خیر و خیریت کے درمیان ’عافیت‘ تلاش کرنے والوں کی نظر میں ’ ایک دوسرے پر سبقت لیجانے کا طریقہ (پبلسٹی اسٹنٹ) ہے۔ قارئین و ناظرین اور سامعین کے نکتہ¿ نظر سے سوچا جائے کہ یہ رجحانات کسی فرد کے ذہن پر کیا اثر ڈال رہے ہیں؟ یہ فطری بات ہے کہ انسان بنیادی طور پر منفی پہلوﺅں پر زیادہ توجہ مرکوز کرتا ہے۔ اسے رویئے کو نفسیاتی علوم میں ’منفی تعصب‘ کہا جاتا ہے جن کے درمیان توازن قائم کرنے کا ہنر کامیابی کہلاتا ہے۔ کوئی بھی خبر اچھی یا بُری نہیں ہوتی لیکن اُسے اچھا یا بُرا بنا کر پیش کیا جا سکتا ہے اور یہی وہ نکتہ ہے جہاں سوشل میڈیا پر ’بُری خبروں‘ کی گولہ باری نے معاشرے میں ایک خاص قسم کی بے حسی‘ مایوسی اور گردوپیش سے بے نیازی کو جنم دیا ہے‘ جس کی وجہ سے ذہنوں میں موجود شکوک و شبہات (فطری منفی تعصب) حاوی ہو چکا ہے اور اِس سے بڑے پیمانے پر پولرائزیشن (لاتعلقی) دیکھنے میں آ رہی ہے۔ پرتشدد واقعات اور پل پل کے سماجی و سیاسی حالات سے متعلق افراتفری پر مبنی ویڈیوز سے کوئی ایک بھی مسئلہ حل کرنے میں مدد نہیں مل رہی البتہ مسائل کی شدت بحرانی صورت اختیار کر چکی ہے۔ جب کسی بھی مرحلے پر منفی تبصروںسے واسطہ پڑتا ہے تو یہ عمل تناو¿ کا باعث بنتا ہے‘ جسے امریکن سائیکولوجیکل ایسوسی ایشن (اے پی اے) نے ’ہیڈ لائن سٹریس ڈس آرڈر‘ کہا ہے تاہم اِس ’خرابی (ڈس آرڈر) سے متاثر ہونے والوں کے لئے کوئی علاج تجویز نہیں کیا جاتا۔ ایک مطالعہ سے معلوم ہوا ہے کہ کورونا وبا کی وجہ سے دو فیصد بالغ افراد ’جذباتی پریشانی‘ کا شکار ہوئے۔ اِس تناو¿ کی وجہ سے مختلف نفسیاتی مسائل پیدا ہوئے جن کی وجہ سے ’پوسٹ ٹرومیٹک سٹریس ڈس آرڈر‘ دیکھا گیا۔ اِس قسم کی بیماری میںتناو¿ کے ہارمون کا اضافہ ہوتا ہے‘ خون میں چربی (کولیسٹرول) بڑھ جاتی ہے۔ اعتماد میں کمی‘ بے خوابی‘ تنہائی و بے بسی کا احساس پیدا ہوتا ہے کیونکہ اگر کسی شخص پر مایوسی طاری ہو تو اُس کے معمولات تبدیل ہو جاتے ہیں۔ منفی خبریں سب کو متاثر کرتی ہیں لیکن کچھ پسماندہ گروہ اِس سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ خواتین شامل ہیں
 کیونکہ وہ مردوں کے مقابلے جلد تناو¿ کا شکار ہو جاتی ہیں‘ جس کے نتیجے میں اُن کی ذہنی صحت متاثر ہوتی ہے۔ سوشل میڈیا پرصنفی بنیادوں پر تعصبات اور خواتین کے خلاف تشدد کے واقعات کا ذکر بہت کثرت سے ہوتا ہے ۔ ایسی خبروں سے وہی طبقہ زیادہ متاثر ہوتا ہے جو خود کو غیرمحفوظ تصور کرنے لگتا ہے۔ ذہن کے کسی حصے میں یہ خوف رہتا ہے کہ کہیں اگلا ہدف میں تو نہیں؟ اعتماد کے مسائل اور ان کے وجود کے بارے میں سوالات پیدا ہوتے ہیں! مسلسل تشویش اور بڑھتے ہوئے تناو¿ کی وجہ سے جسمانی صحت متاثر ہوتی ہے اور صرف خواتین ہی نہیں بلکہ مرد بھی سوچنے لگتے ہیں اور اپنے اردگرد موجود مستقل تعصبات کو محسوس کرتے ہیں۔ پھر سوشل میڈیا صارفین انٹرنیٹ کا استعمال کرتے ہوئے خبروں کی تشہیر شروع کر دیتے ہیں جس سے کوئی خبر گھر گھر اور ہاتھوں ہاتھ موبائل فونز کے ذریعے پھیل جاتی ہے، اس قسم کی خبریں جسے پھیلانے کی ذمہ داری سوشل میڈیا نے اپنے سر لے رکھی ہے۔ جہاں تک سوشل میڈیا کی بات ہے تو یہ اپنی آسان رسائی کی وجہ سے مقبول ہے اور بالخصوص نوجوان اِس کا جلد شکار ہو جاتے ہیں۔ نوجوانوں کی اکثریت سمارٹ فونز رکھتی ہے جنہیں اگر خبروں سے دلچسپی نہ بھی ہو تب بھی اُنہیں غیرمتعلقہ خبروں اور موضوعات سے واسطہ رہتا ہے۔ دوسری طرح نیوز ہولڈرز اس بات سے آگاہ ہوتے ہیں کہ اُنہیں کس طرح ناظرین کی توجہ حاصل کرنا ہے۔ جس کے لئے بصری کشش کے طور پر ’خاکوں (گرافکس)‘ کا استعمال کیا جاتا ہے اور اِس کے ذہنی صحت پر ممکنہ منفی اثرات کئی گنا زیادہ ہوتے ہیں۔ یہ منفی گرافکس زیادہ تر ”حساس مواد“ سے متعلق ہوتے ہیں اور یہ یک طرفہ طور پر صورتحال کا منفی رخ (نقصان دہ) پیش کرتے ہیں چونکہ انسان فطرت متجسس ہے اور وہ پوشیدہ چیزوں یا باتوں کو 
دیکھنا اور جاننا چاہتا ہے۔ اِس لئے وہ ایسی اطلاعات کی باآسانی شکار ہو جاتا ہے جو اُس کے ذہنی سکون کو متاثر کر دیتی ہیں۔ جب معلومات کا بوجھ بڑھ جائے تو‘ غلط معلومات کے امکانات بھی اُسی تناسب سے زیادہ ہو جاتے ہیں کیونکہ ہر کوئی تصدیق کے بغیر معلومات پھیلانے لگ جاتا ہے اور یوں شیئرنگ کسی وبائی مرض کی طرح پھیل جاتی ہے۔ جس کے لئے سوشل میڈیا پر معلومات کی تقسیم ایک عمومی روش بن گئی ہے اور اِس کا نتیجہ غصہ‘ تشویش یا خوف پھیلنے کی صورت برآمد ہو رہا ہے۔ نتیجتاً فیصلہ سازی پہلے سے زیادہ مشکل ہو گئی ہے۔ جب نوجوان ذہن‘ خاص طور پر‘ مسلسل منفی خبروں کے دباو¿ میں ہو اور وہ ایسی خبروں کو جذب بھی کر رہا ہو تو دنیا کے بارے میں اُس کے منفی تاثر کی حوصلہ شکنی کی بجائے یہ عمل باعث تقویت ہوتا ہے۔سوشل میڈیا کے ذریعے قابل مطالعہ اور حاصل مطالعہ مواد کے علاوہ آنے والی تخلیقات سے خود کو محفوظ رکھنے اور خبروں یا معلومات تک رسائی کو باآسانی کنٹرول کیا جا سکتا ہے لیکن اگر ایسا کرنے کی آمادگی اور ضرورت محسوس کی جائے۔ جہاں تک سوشل میڈیا کا تعلق ہے تو اِس کی مقبولیت کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ پاکستان میں تفریح کے مواقع بہت ہی کم ہیں۔ مہنگائی کی وجہ سے تفریح کے لئے جانا اور بھی زیادہ مشکل ہو گیا ہے اور چونکہ تفریح بھی کھانے پینے کی طرح ہی ضروری ہے تو اِس وجہ سے سوشل میڈیا مقبول ہوتے جا رہے ہیں۔ وقت ہے کہ ’سکرین ٹائم‘ کے بارے میں شعور اُجاگر کیا جائے۔ ہر عمر کے لئے ’سکرین ٹائم‘ کے الگ الگ پیمانے اور اِس کے الگ الگ اثرات ہیں جن سے متعلق معاشرے کی ہر سطح پر صحت مند مباحثوںکی ضرورت ہے۔ روایتی ذرائع ابلاغ ہوں یا سوشل میڈیا‘ اگر یہ ذہنی صحت کو متاثر کرتے ہوئے منفی رجحانات کو ہوا دے رہے ہیں تو ضرورت ہے کہ ہر عمر کے افراد کے لئے اِس سے حفاظت اور اِن میں تحفظ کا احساس اُجاگر کرنے کے لئے بھی شعوری کوششیں کی جائیں۔ ”ہیڈ لائن اسٹریس ڈس آرڈر“ بڑھتا ہوا نفسیاتی مرض (رجحان) ہے‘ جسے صرف مثبت مواد کی تخلیق کے ذریعے ہی روکا جاسکتا ہے جبکہ یہی وہ مرحلہ¿ فکر بھی ہے جہاں (بدلتے ہوئے حالات و ضرورت کے پیش نظر) صحافت (جرنلزم) کے اصول و قواعد اور اِن کی تشریحات پر نظرثانی ہونی چاہئے۔

بشکریہ روزنامہ آج