جن سے مل کر زندگی سے عشق ہو جائے وہ لوگ

پھاگن اور چیت کی رت میں ہونےوالی بارشوں کے بارے میں اگر ایک طرف پشتو روزمرہ کے مطابق ہم بچپن سے یہی سنتے آئے ہیں کہ بسا اوقات ان بارشوں کا دورانیہ اتنا کم ہوتا ہے کہ گائے کا ایک سینگ بھیگا اور دوسرا خشک ہوتاہے تو دوسری طرف جاڑوں کی بارش کے حوالے سے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ” جمعرات کی جھڑی ،آٹھ دن کھڑی‘ اور یہ منظر بارہا دیکھا گیا کہ کسی بھی جمعرات کو شروع ہونے بارش وقفے وقفے سے برستی ہوئے ا گلی جمعرات تک جاری رہتی، اب موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے ایسا کم کم ہوتا ہے اور اگر ہوتا بھی ہے تو ہمارے پاس اتنا وقت نہیں کہ ان چیزوں کے بارے میں سوچ سکیں،اس لئے جب بہت زمانوں بعد گزشتہ جمعرات سے شروع ہونے والی موسلا دھار بارش کا سلسلہ کسی طور رکنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا تو بہت سے لوگوں کو جمعرات کی جھڑی کا یقین آنے لگا ہے اور یہ اسی پھاگن کے مہینے کی دوسری موسلا دھار بارش ہے ، پہلی بارش پھاگن کی تیسری شام کو شروع ہوئی تھی اور خوب کھل کر برسی تھی اور دو د دن تک جاری رہی تھی ، مجھے یاد ہے کہ اسی تیز بارش میںایک تقریب کے لئے میں جا رہا تھا کہ راستے میں پولیس سروس آف پاکستان کے معروف دانشور ،ادیب اور مقبول کالمسٹ دوست ِ عزیز ڈاکٹر فصیح الدین کا فون آیا کہ میں کل صبح کچھ دیر کے لئے ریسرچ لائبریری پشاور میںہوں گا ممکن ہو تو آجاےئے کیونکہ بہت دنوں سے ملاقات نہیں ہو ئی، میں نے حامی بھر لی مگر اسی رات عزیز از جاں دوست شاعر افسانہ و ناول نگار علی اکبر ناطق کا فون آ یا کہ کل صبح پشاور آ رہا ہوں آپ سے ملاقات ہوگی، میں نے کہا ضرور آئیے گا کہنے لگے میرے ساتھ ایک جرمن فوٹو گرافر بھی ہوں گے انہوں نے آپ کی کچھ تصاویر کھینچنی ہےں، میں نے حیران ہو کر کہا خیر باشید،کہنے لگے شعراءاور ادباءکی تصاویر پر مبنی ان کی کتاب شائع ہونے والی ہے جس میں پاکستان سے بھی کچھ تخلیق کاروں کی تصاویر شامل کر نا چاہتے ہیں اور اس فہرست میں آپ کا نام بھی ہے، میں نے کہا چلیں آپ پشاور پہنچیں پھر بات کرتے ہیں، بارش دوسری صبح بھی تھی اس لئے سوچا کہ اس تیز
 بارش میں اسلام آباد سے ان کا آنا ممکن نہیں ہو گا، ویسے بھی میں گاو¿ں سے آ رہا تھا، لیکن راستے ہی میں ان کی کال آ گئی کہ وہ تو پشاور میں ہیں اور دوست عزیز ہمایوں اخوند کے گھر پر ہیں‘ میں نے کہا پہنچ کر رابطہ کرتا ہوں میں نے ڈاکٹر فصیح الدین کوصورت حال سے آ گاہ کیا کہ میں آج ریسرچ لائبریری نہیں آ پاو¿ں گا کیونکہ اسلام آباد سے کچھ شاعر دوست آ رہے ہیں، بلا کے محبتی اور یاروں کے یار ڈاکٹر فصیح الدین نے کہا دیکھیں گھر کی بجائے آپ دوستوں کے ساتھ لائبریری آ جائیں میرے کراچی سے ایک دوست بھی آئے ہوئے ہیں میں ان کے لئے گھر کا ناشتہ لے کر لائبریری آ رہا ہوں ‘آپ بھی آ جائیں مزہ آ جائے گا، پھر انہوں نے یہ کہہ کربات ہی ختم کر دی شعر و ادب سے جڑے مہمانوں کی تواضع کے لئے بھلا لائبریری سے بہتر کون سے جگہ ہو گی، میں نے علی اکبر ناطق سے بات کی کتابوں سے عشق کرنے والے علی اکبر ناطق نے فوراً حامی بھر لی، تیز بارش اور پشاور کی بے ہنگم ٹریفک کی وجہ سے مہمان ہم سے پہلے لائبریری پہنچ گئے جہاں مستعد عملے نے انکا استقبال کیا اور ان کی تواضع کا اہتمام کیا ان کے بعد ڈاکٹر فصیح الدین بھی اپنے گھر سے ہفت خوان اٹھائے لدے پھندے پہنچے اور حسب معمول میں سب سے آ خر میں پہنچا، بارش ہلکی پھوار میں بدل چکی تھی مہمانوں سے ملا مگرجرمن فوٹو گرافر نے مجھے بیٹھنے نہ دیا اور کہنے لگا کہ پہلے تصویر بناتے ہیں، میں نے کہا چلیں یہ کام پہلے نبٹ جائے تو بہتر ہے، فوٹو گرافر نے کہا کہ مصنوعی لائٹ میں تصویر کھینچنا مجھے پسند نہیں، 
میں نے کہا مگر باہر تو بارش ہے، کہنے لگا کو ئی بات نہیں، ، اب موصوف مجھے پشاور ریسرچ لائبریری سے باہر لے آیا، اور لائبریری کے اطراف میں دو تین گلیوں میں گھروں کی کئی دیواروں ِ ، نکڑوں ،کھلے نیم کھلے رنگین دروازوں اور دیواروں پر لکھی عبارتوں کے مفہوم پوچھ کر ان کے پیش منظر میں نہ جانے کتنی ہی تصاویر بنائیں ، میں تو ایک آدھ تصویر کا سوچ رہا تھا مصحفی یاد آگئے تھے
 مصحفی ہم تو یہ سمجھے تھے کہ ہو گا کوئی زخم
 تیرے دل میں تو بہت کام رفو کا نکلا
 اس فوٹو سیشن سے خود پر کسی فلمسٹار کا سا گمان ہونے لگا تھا،ادھرمسلسل ڈاکٹر فصیح الدین کے فون آ رہے تھے کہ آپ کہاں ہیں ؟ یہاں ناشتہ ٹھنڈا ہو رہا ہے،کئی گلیاں اس دل خوش کن پھوار میں گھومتے اور تصویر تصویر کھیلتے واپس آئے تو گھر کے بنے ہوئے دیسی مرغیوں کے گرم گرم سوپ کے اروما سے مہکی ہوئی لائبریری میں علی اکبر ناطق اور ڈاکٹر فصیح الدین کی ادب اور تاریخ پربہت مفید گفتگو ہو رہی تھی، کتابوں کی دنیا میں ڈاکٹر فصیح لدین کی محبتوں اور علم وادب کے چراغوں کی بے کراں روشنی بڑھتی جارہی تھی، مہمانوں کے پاس وقت محدود تھا انہوں نے اندرون شہر کی سیر بھی کرنا تھی ادھر ہمایوں اخوند کو بھی ظہرانہ پر اپنے مہمانوں کا انتظار تھا، لیکن ڈاکٹر فصیح الدین نے اتنی دیر میں میزوں پر پر تکلف ظہرانہ کا اہتمام کر لیا تھا، پولیس فورس میں اتنے بڑے عہدے پر فائز میرے دوست اپنے عملے کی موجودگی کے باو جود ایک ایک مہمان کو خو د سرو کرتے ہوئے مجھے بہت اچھے لگ رہے تھے ‘اپنے لوگوں کی علمی اور ادبی تربیت کے لئے اتنی بڑی ریسرچ لائبریری بنانے والے ڈاکٹر فصیح الدین کی بس ایک ہی تمنا ہے کہ اس کے اپنے لوگ اس لائبریری میں موجود علم و ادب کے اتنے بڑے ذخیرہ سے خود کو شرابور کرتے رہیں کتابیں اور مہذب عملہ ان کی راہ دیکھ رہا ہے، سرور بارہ بنکوی نے ایسے ہی پر خلوص لوگوں کے بارے میں کہا ہے۔
 جن سے مل کر زندگی سے عشق ہو جائے وہ لوگ
 آپ نے شاید نہ دیکھے ہوں مگر ایسے بھی ہیں

بشکریہ روزنامہ آج