وزیر اعظم شہباز شریف نے قومی اسمبلی سے اپنی پہلی تقریر میں معاشی بدحالی کا تذکرہ کرتے ہوئے ان اقدامات کا ذکر کیا جو اس صورتحال سے گلو خلاصی کا راستہ ہوگا مگراس کیلئےموزوںسیاسی حالات کا ہونا بہت ضروری ہے جبکہ پیچیدہ ترہوتی سیاسی صورت حال یہ واضح کر رہی ہے کہ معاشی بحالی کی راہ میں سب سے بڑا پتھر سیاسی صورت حال ہی ہوگی ۔اس لئے ضروری ہے کہ کم از کم ان سیاسی شخصیات کو ہم خیال بنا یا جائے جو ابھی ماضی قریب میں سیاسی طور پر ہم قدم تھیں یا جن سے گفتگو کی گنجائش پیدا ہو سکتی ہے ۔ اس سلسلے میں نواز شریف اور شہباز شریف کا مولانا فضل الرحمن کے گھر جانا بہت مثبت اقدام تھا ۔ مولانا فضل الرحمن یہ سمجھتے ہیںاور بالکل درست طور پر سمجھتےہیں کہ حالیہ انتخابات کے دوران جان بوجھ کر ایسا ماحول تشکیل دیا گیا کہ جے یو آئی ایف بھر پور طور پر انتخابی مہم نہ چلا سکے ، انتخابی مہم چلانا تو دور کی بات،انکے امید واروں اور کارکنوں کیلئےاپنے گھروں سےنکلنا بھی نا ممکن بنا دیا گیا تھا۔ مولانا کے مخالفین کو کامیابی نصیب ہوئی کیونکہ پی ٹی آئی کا وہاں پر کالعدم ٹی ٹی پی سے’’اتحاد‘‘تھا اور سب کو علم تھا کہ اگر اس اتحاد کی مخالفت میں متحرک ہوئے تو نتیجہ کیا ہو سکتا ہے ، ایسی کیفیت میں مقابلہ یک طرفہ ہی ہونا تھا ۔ مولانا فضل الرحمن بہت سیاسی فہم و فراست رکھنے والی شخصیت ہیں۔ مجھے اے پی سی لندن 2007 میں سفارت کاروں اور مولانا فضل الرحمن کے درمیان مترجم کے طور پر ان کی گفتگو کو سننے کا موقع ميسر آیا تھا اور میں اس وقت سے ان کی سیاسی فراست کا قائل ہو گیا تھا ۔ اور اب اسی سیاسی فراست کا امتحان ہے کیونکہ جے یو آئی ایف کو انتخابی عمل میں پیچھے دھکیلنے سے سیاسی طور پر فائدہ پی ٹی آئی کو ہوا جبکہ اس کا سیاسی نقصان جہاں جے یو آئی کو اٹھانا پڑا وہیں پر موجودہ حکمران اتحاد کو بھی اس سے زک پہنچی اور انکے سامنے ایک غیر حقیقی حزب اختلاف کو لا کھڑا کیاگیا ،خیال رہے کہ پنجاب میں بھی ایک حکمت عملی کے تحت پی ایم ایل این کو اتنی انتخابی کامیابی حاصل نہیں کرنے دی گئی جتنی ممکن تھی تا کہ پی ایم ایل این کو فری ہینڈ دستیاب نہ ہو ۔ اب اگر مولانا فضل الرحمن حکومتی اتحاد سے ناراض رہے اور انکی ناراضی کے سبب حکومت کو ملک کو پٹری پر چڑھانے میں دقت محسوس ہوئی تو اس صورت حال سے جہاں وطن عزیز کو نقصان ہوگا وہیں جن سیاسی مخالفین کو مولانا فضل الرحمن کی جگہ پر مسلط کیا گیا ان کو نئی زندگی ميسر آ جائے گی، اس لئے جے یو آئی ایف کو اپنے مؤقف پر نظر ثانی کرتے ہوئے حکومت کو سیاسی میدان میں اپنی مدد سے بہرہ مند کرنا چاہئے اور حکومتی اکابرین کو بھی اس حوالے سے اپنی کوششوں کو جاری رکھنا چاہئے ۔ جہاں تک محمود خان اچکزئی کا تعلق ہے ان کا ایک احترام قائم ہو گیا ہے اور حالیہ تاریخ میں بس ان کو’’غدار‘‘صرف پی ٹی آئی کے علی محمّد خان نے ہی قرار دیا تھا۔ ان کی پارٹی کے سینیٹر عثمان خان کاکڑ مرحوم میرے پاس لاہور تشریف لائے تھے اور میں نے انکے اعزاز میں تقریب منعقد کی تھی اور کچھ صحافی حضرات کو اس میں مدعو کیا تھا کہ ایک پاکستانی اپنے مسائل کو ہر صوبے میں آ کر بیان کر سکے ۔ مرحوم عثمان کاکڑنے میرے پاس آنے کو اس مقصد سے دہرایا کہ اب محمود خان اچکزئی کی شکایات کے ہدف پنجاب سے غدار غدار جیسی آوازیں سننے کو نہیں ملتیں ۔ اس وقت معاملہ یہ ہے کہ پی ٹی آئی کرپشن ، نااہلی اور نو مئی کے واقعات اور انکے اثرات سے جان چھڑانے کیلئے ہر اقدام کر رہی ہے ۔ آئی ایم ایف کو خط لکھنے سے بھی یہی مقصد حاصل کرنا ہے کہ حکومت کو اتنا دباؤ میں ڈال دیا جائے کہ وہ ان جرائم سے چشم پوشی کرنے پر مجبور ہو جائے۔ محمود اچکزئی کو صدارتی امیدوار بھی اسی لئے نامزد کیا گیا ہے کہ اس طرح سے پختونوں میں یہ ثابت کیا جائے کہ وہ بہت پختون پرست جماعت ہے اور کے پی کو تعصب زدہ کردیا جائے ورنہ عمران خان محمود خان اچکزئی کا کتنا احترام کرتے ہیں اس کیلئے صرف ایک وائرل کلپ دیکھنا سننا ہی کافی ہے ۔ اس ممکنہ صورتحال سے نبرد آزما ہونے کیلئے مکمل طور پر سیاسی ذہن کے ساتھ انتہائی باریک بینی سے معاملات طے کرنے کی ضرورت ہے۔
سیاسی عدم استحکام کو استحکام میں بدلنے کی غرض سے ہر ممکن قدم اٹھانا چاہئے ۔ مسئلہ یہ ہے کہ سیاسی مفاہمت تو پی ٹی آئی سے بھی ہونی چاہئے مگر انکے رویے کے سبب اسکا امکان ہی نظر نہیں آتا ۔ اس پارلیمنٹ کے آغاز کے ساتھ ہی کے پی کے اسمبلی میں ایک خاتون ایم پی اے سے جس نوعیت کا سلوک’’ ریاست مدینہ‘‘ بنانےکے دعوے داروں نے کیا وہ مستقبل میں انکے ارادوں اور طریقہ کار کو مکمل طور پر واضح کر رہا ہے ۔ اس لئے عرض کر رہا ہوں کہ معاشی بحالی اور ممکنہ تعصب کے مقابلے کیلئے ان تمام سیاسی اکابرین جیسے کہ مولانا فضل الرحمن ، اسفند یار ولی خان ، آفتاب خان شیرپاؤ ، اختر مینگل، ڈاکٹر عبدالمالک ، محسن داوڑ ، علی وزیر ، منظور پشتین وغیرہ سے گفتگو کا آغاز کردیا جائے اور شکوے شکایات کو رفع کرنے کی کوشش کی جائے کیونکہ معاشی بحالی کا راستہ سیاسی افہام و تفہیم سے ہی نکلتا ہے۔