135

نظریہ ناکام ہوتا ہے یا  نظریہ " ساز " ؟ 

دائیں بازو کے صالحین ہوں، دیندار ہوں یا پھر فتوئوں کے خوانچہ سجائے گلی محلے کے پیش نماز، سب لٹھ اٹھائے دنیا بھر کے نظریات کی حسب ’’توفیق‘‘ خدمت کرتے رہتے ہیں۔ ان سب کا مشترکہ اعلامیہ ہمیشہ سے یہی ہے کہ ’’فلاں نظریہ، وہ تو  جی فراڈ تھا۔ آپ نے دیکھا نہیں کہ اس نظریہ کا حشر کیا ہوا‘‘۔ دلائل کے کچے پکے جذباتی انبار اور یکطرفہ ٹریفک سے ظاہر ہے حادثے کا خطرہ نہیں اس لئے کچھ بھی کہہ دیتے ہیں۔ 
نظریات کی کامیابی یا ناکامی پر عملی انداز میں مکالمے کا حوصلہ ان میں ہے نہیں سو ہر تیس مار خان اپنا مال بیچتا پھر رہا ہے۔
 فقیر راحموں نے ایسے ہی ایک مچونے دوست  سے کہا تھا ’’جواب دینے کی آزادی پر کفر کی مہر اس لئے لگائی جاتی ہے کہ دینداروں کا بھرم قائم رہے‘‘۔ 
تمہید طویل ہورہی ہے سو معذرت۔ عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اگر کسی نظریہ کی ناکامی نظریاتی بنیاد پر قائم ریاست اور نظام کی عمارتیں تاریخ بُرد ہونے میں ہے تو پھر کائنات کے وجود میں آنے کے بعد سے اب تک جتنے بھی نظریات کی بنیاد پر ریاستوں اور نظاموں کی عمارتیں اٹھائی گئیں سب تاریخ کا رزق ہوئیں۔ مستقل اور مسلسل  کوئی چیز نہیں ماسوائے اس کے کہ تحقیق نئے جہانوں کے در وا کرتی رہی اور انسان مہذب معاشرے کی تشکیل کے ساتھ دیگر معاملات کے حوالے سے قانون سازی کرتا آرہا ہے۔
 میں یہ ہرگز نہیں کہتا کہ نظریہ مستقل نہیں ہوتا البتہ اگر نظریہ کی بنیاد پر قائم سماج، ریاست اور نظام تینوں اعتدال کے حسن سے محروم ہوجائیں تو ان کے لئے اپنے وجود کو برقرار رکھنا مشکل ہوجاتا ہے۔
 مذہب کی کوکھ سے جنم لینے والے سیاسی و معاشی اور حکومت سازی کے نظریات کو چونکہ ایک خاص قسم کے تقدس کی چادر اوڑھادی جاتی ہے اس لئے اس کی کامیابی و ناکامی کا تجزیہ کرنے والوں کو جان کے لالے پڑجاتے ہیں۔
 وجہ وہی ہے کہ مذاہب جب تطہیر ذات کو شرط اول قرار دیتے ہیں مذہبی رہنمائوں کی اکثریت اس کی  جگہ اندھی تقلید کو رواج دے کر خاص قسم کی فضا بنادیتے ہیں۔ 
بنیادی طور پر اس کج روی کے دو نقصان ہیں۔ اولاً فکری ارتقا کا راستہ کھوٹا ہوتا ہے اور ثانیاً تنگ نظری کی آگ بستیاں پھونکنا شروع کردیتی ہے۔
کڑوی کسیلی بات، چلیں یوں کہہ لیں تاریخ کا کڑوا سچ یہ ہے کہ فکری ارتقاء کو اندھی تقلید کی لاٹھیوں سے سبھی نے زدوکوب کیا وہ چاہے  ادیان کی ترویج کی ذمہ داری کا سودا سر میں جمائے ہوئے مذہبی رہنما تھے ۔ ان کی پشت پناہی (ساجھے داری) سے اقتدار پر قبضہ کرنے والے حکمران یا پھر سماجی و معاشی ارتقاء کے لئے ایسا نظریہ پیش کرنے  والوں کے جانشین جن کا خیال یہ تھا کہ ادیان کا نظام حکومت سے دور دور کا بھی کوئی تعلق نہیں بنتا البتہ ناکامی کی پھبتی کسنے میں احتیاط کی ضرورت اس لئے ہے کہ کج سارے نظاموں میں ہے وہ انسان نے بنائے ہوں یا ادیان کی کوکھ سے برآمد کئے گئے۔
 بطور خاص سمجھنے والی بات یہ ہے کہ کج کا جنم اور پروان چڑھنا ہر دو اس لئے ممکن ہوئے کہ غیرضروری طور پر خود کو حرف آخر کے طور پر پیش کیا گیا۔ 
حالانکہ ارتقا کا راستہ روکنے سے بدحالی و بربادی کا دوردورہ ہوتا ہے۔ میری دانست میں یہ فکر ہی احمقانہ ہے کہ فلاں نظریہ چونکہ بودا تھا اس لئے ناکام ہوا۔ سوال یہ ہے کہ اس اصول کو پھر انسانوں کے وضع کردہ نظام ہائے ریاست و سماج تک ہی تجزیہ کے لئے  اختیار کیوں کیا گیا  ان نظاموں  پر بات نہیں ہوسکتی جنہیں ادیان کا ’’بستمہ‘‘ دیا گیا۔ سو یہ منطق ہی فضول ہے کہ فلاں نظریہ سے بُنا گیا نظام ہائے وقت کی ٹھوکروں میں اس لئے آیا کہ وہ خاص انسانی سماج یا ہر کرہ ارض پر بسنے والے سارے انسانوں کی توقعات پر پورا نہیں اترپایا۔ 
معاف کیجئے گا نظریات یا ان کے خام مال سے بنے نظام حکومت کا قصور نہیں ہوتا۔ زوال کے ذمہ دار وہ لوگ ہوتے ہیں جو اعتدال کے حسن کو نظرانداز کرکے جابرانہ روش اپنالیتے ہیں ۔ مساوات کے نام پر وسائل پر اجارہ داری قائم کرلیتے ہیں۔
 ارتقا کو شخصی اقتدار کےلئے زہر قاتل سمجھتے ہیں اور نظریات پر حرف بہ حرف عمل کے بجائے جو ہم نے فرمایا وہی سماج کا مقدر ہے کی سوچ پر عمل کرتے ہیں ۔
 نظریات سے بنے ہوئے نظام کی ناکامی کی ذمہ داری ان خودغرضوں پر عائد ہوتی ہے۔ صحیح وقت پر غلط فیصلے بربادی کو دوآتشہ کردیتے ہیں۔
بدقسمتی سے ہم اس حقیقت پر مٹی پائو پروگرام پر نسل در نسل عمل کرتے چلے آرہے ہیں اس لئے سیدھے سبھائو تجزیہ غیرضروری ٹھہرتا ہے۔ سوویت یونین کا انہدام سوشلزم کی ناکامی ہرگز نہیں بلکہ سوشلزم کی آڑ لے کر پیدا کی گئی طبقاتی بالادستی کی سوچ اور اس سے جڑے ان فیصلوں کا نتیجہ ہے جن کا متحمل نہیں ہوا جاسکتا تھا۔
 اس لئے بغلیں بجانے کی ضرورت نہیں ورنہ پوچھا جاسکتا ہے کہ جس نظام کو دین فطرت کی روشنی میں وضع کیا گیا وہ ناکام کیوں ہوا اور یہ ناکامی ایک بار نہیں کم از کم پون درجن مرتبہ مقدر ہوئی۔ ستم بالائے ستم یہ کہ ان ناکامیوں کا ٹھنڈے دل سے تجزیہ کرنے کے بجائے یہودونصاریٰ اور ہنود پر ملبہ ڈال کر فکری عیاشی کا دروازہ کھول لیا جاتا ہے۔
  فکری عیاشی یہ ہے کہ ناکامیوں کا ذٓمہ دار کسی اور کو ٹھہراکر خوش عقیدگی کو پروان چڑھایا جائے ورنہ ایک عام طالب علم بھی اس امر سے بخوبی آگاہ ہے کہ حقیقت میں ، ارتقا اور تبدیلی کا راستہ روکے نہیں رکتا۔ اگر وقت کے ساتھ ساتھ ضرورتوں کا ادراک نہ کیا جائے تو پھر نقارخانوں میں طوطیوں کی آواز کوئی نہیں سنتا۔
ہمارے صالحین، دینداروں اور مذہبی ریاست کو انسانیت کے لئے نجات کامل کے طور پر پیش کرنے والے ہندوئوں، عیسائیوں اور یہودیوں کو مٓذہبی ریاست قائم کرنے کا حق دینے سے انکار کرتے ہوئے تاویل پیش کرتے ہیں کہ پھر ان ریاستوں میں مقیم دیگر مذاہب کے لوگوں کا حال اور مستقبل کیا ہوگا؟ 
مثال کے طور پر بھارتی جنتا پارٹی یا راشٹریہ سیوک سنگھ جیسے انتہا پسندانہ نظریات رکھنے والی ہمارے سماج کی جماعتیں بھارت کو ایک سیکولر ریاست دیکھنا چاہتی ہیں۔ اپنے ہاں سیکولر نظریات کو لادینی کے طور پر پیش کرتی ہیں۔
 یعنی  جو بھارت کے لئے حلال ہے وہ ہمارے لئے حرام ہے۔ عجیب منطق ہوئی اور اس سے عجیب بات یہ کہ یہ حضرات اس حقیقت کو تسلیم کرنے سے ہی انکاری ہیں کہ ادیان کی تعلیمات کی روح کو سمجھے بغیر جس قسم کی کچی پکی تعلیم مذاہب کے نام پر سارے دیتے ہیں اس سے بگاڑ بڑھتا ہے۔ 
بہت شوق سے یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ سوشلزم ناکام ہوا اب سرمایہ داری کا جنازہ اٹھنے کو ہے۔ اگر ادب کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے دریافت کرلیا جائے کہ کیا اموی ، عباسی، فاطمی اور عثمانی خلافتوں کے زوال کو اسلام کی ناکامی سے تعبیر کیا جاسکتا ہے تو آستینیں الٹ کر جھاگ اڑاتے ہوئے سوال کرنے والے کی جان کو آجاتے ہیں۔( یہ سوال تو قابلِ گردن زدنی ہے کہ خلافت راشدہ کے پانچ میں چار خلفا غیر طبعی طور پر دنیا سے کیوں رخصت ہوئے ؟ )  حالانکہ ان کے اس ردعمل میں ہی اصل جواب پوشیدہ ہوتا ہے۔ وہ یہ کہ نظاموں کا انہدام افراد کی کوتاہیوں کا نتیجہ ہوتا ہے اس کی ذمہ داری نظریہ کے سر نہیں تھوپی جاسکتی۔ المیہ یہ ہے کہ ریاستی نظام چلانے والوں کی ذاتوں کے گرد تقدس کا ہالہ کھینچ دیا جاتا ہے حالانکہ صاحبان اقتدار کے انداز حکمرانی پر شائستہ انداز میں گفتگو جرم ہرگز نہیں۔ ہاں کج بحثی اس سے سوا چیز ہے۔
مجھے احساس ہے کہ خالص روکھا سوکھا موضوع ہے اخبارات کے لئے لکھے گئے کالموں کی طرح مرچ مصالحے کی گنجائش نہیں۔ مگر کیا فقط اتنی سی بات پر بات پلٹ لی جائے؟ میرا جواب نفی میں ہے وجہ یہی ہے کہ میں کسی نظام حکومت کی ناکامی کو نظریہ کی ناکامی نہیں سمجھتا بلکہ اس فکر کا حامی ہوں کہ تجزیہ اس کا ہونا چاہیے کہ تنزلی کی ابتداء کہاں اور کیسے ہوئی۔ ذمہ دار کون ہے اور ظاہر ہے ذمہ داری ان پر ہی عائد ہوگی جو نظام کو چلارہے ہوں گے۔ 
اغیار کو مداخلت کا موقع تب ملے گا جب موقع دیا جائے گا۔ بدقسمتی یہ ہے کہ تجزیہ کرتے وقت ہم پھبتی کو تجزیہ قرار دیتے ہیں حسن تنقید سے خالی پھبتی بھی بھلا اذہان کو وسعت دے سکتی ہے؟
حرف آخر یہ ہے کہ ہر کس و ناکس کو اپنے نظریات کے حق میں دلائل کی عمارت اٹھانے کا حق  ہے البتہ دلائل دیتے وقت اپنی تاریخ کے سانحات، حکمرانوں کی غلطیوں اور اندھی تقلید کے جنون کا کاروبار کرنے والوں  کے پیدا کردہ مسائل کو ضرور مدنظر رکھنا چاہیے۔
 لاریب وسعت قلبی تبادلہ خیال سے مشروط ہے۔ دریا چلتے رہیں تو ماحول کے لئے مفید ہوتے ہیں۔ کھڑا پانی ایک دن ماحول پر بوجھ بن جاتا ہے اور بوجھ اتار پھینکنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا۔

بشکریہ اردو کالمز