وفاقی کابینہ کی تشکیل کا مرحلہ بھی طے کر لیا گیا اور اب حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ پاکستان کے عوام کو ہر ممکن حد تک وہ تمام سہولیات بہم پہنچائے کہ جو ممکن بھی ہیں مگر صرف بار بار کے سیاسی عدم استحکام کے سبب سے ان تک نہیں پہنچ سکیں ۔ شہباز شریف نے گزشتہ پی ٹی آئی دور میں بہت سخت حالات کا مقابلہ کیا اور یہ سب انکو اسلئے جھیلنا پڑا کہ وہ کسی طور بھی نواز شریف سے بیوفائی پر تیار نہ ہوئے ۔ نواز شریف اس بات پرکسی طور پرراضی نہ ہوئے کہ کوئی بھی ماورا ئےآئین ہو سکتا ہے ۔ وہ اپنے انہی خیالات کی وجہ سے سخت ترین حالات کا شکار ہو کر جلا وطنی کی زندگی گزارنے پر مجبور کر دیے گئے تھے ۔ نواز شریف سے ملاقات کیلئے میں جب جدہ ان کے گھر پر گیا تو پرویز مشرف کی آمریت کا سورج سوا نیزے پر تھا ۔ مسلم لیگ ن کیلئے سانس لینا تک محال تھا مگر اس سب کے باوجود نواز شریف یہ تہیہ کئے ہوئے تھے کہ چاہے جتنا مرضی راستہ روکا جائے مگر اپنے مؤقف سے کسی طور دست بردار نہیں ہونا، کیپٹن صفدر اور حسین نواز بھی ان ملاقاتوں میں موجود تھے۔ میرا سفارتکاروں سے گزشتہ پچيس برس سے زائد سے رابطہ ہے ، میں واپس آیا تو ایک پریس کانفرنس اور شام کو ڈنر میں تمام اہم ممالک کے سفارتکار شریک ہوئے اسحاق ڈار ، راجہ ظفرالحق اور اقبال ظفر جھگڑا مہمانان خصوصی تھے اور پاکستان میں موجود رہ کر آمریت کا مقابلہ کرنے کے عزم کا اظہار کر رہے تھے ۔ کچھ عرصہ بعد شہباز شریف جب جدہ سے لندن چلے گئے تو ان سے وہاں پر ملاقات ہوئی اور اس ملاقات میں شہباز شریف نے جدہ والا مؤقف ہی دہرایا کہ نواز شریف کا فیصلہ حتمی ہے اور چاہے آزمائش جتنی مزید کڑی ہو جائے سوچ کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا ۔ ان دنوں پرویز مشرف مسلم لیگ ن کے خلاف پولیس گردی کر رہا تھا جس سے میں بھی متاثر ہوا تھا اس پر شہباز شریف نے مجھے کہا تھا کہ نواز شریف کی قیادت میں دی گئی یہ قربانیاں رائیگاں نہیں جائینگی، ہم منزل ضرور حاصل کر لیں گے ۔ جب شہباز شریف نے جبری جلا وطنی ختم کر کے پاکستان آنے کی کوشش کی تو اس روز مشا ہداللہ خان مرحوم اور میں نے لاہور کے ایک ہوٹل میں میڈیا سیل قائم کیا ہوا تھا پولیس ہمیں دفاتر اور گھروں میں تلاش کرتی رہی جبکہ ہم ایک ہوٹل سے دنیا بھر کے میڈیا سے رابطےمیں تھے ۔ جب نواز شریف نے پہلی بار جلا وطنی ختم کر کے وطن واپس آنے کی کوشش کی اور ان کو دوبارہ جلا وطن کر دیا گیا اس روز اسلام آباد میں تھانہ آب پارہ میں مجھے بھی راجہ ظفرالحق اور اقبال جھگڑا کے ہمراہ پابند سلاسل کر دیا گیا تھا ۔ پھربالآخر آمریت انجام کو پہنچی اور ملک میں بحالی جمہوریت کا آغاز ہو گیا۔ سیاسی ادوار میں سیاسی جماعتوں کے تعلقات سرد و گرم ہوتے رہتے ہیں مگر اس میں اتنی شدت نہیں آتی کہ جمہوریت ہی پٹری سے اتر جائے۔ قوم 2013 کے انتخابات تک پہنچ گئی اور ملک میں سیاسی تبدیلی آگئی، نواز شریف وزیر اعظم بن گئے دوسرے لفظوں میں بدامنی، گرتی معیشت اور بد ترین لوڈ شیڈنگ کے مسائل پہاڑ بن کر سامنے کھڑے تھے مگر میاں شریف مرحوم کی نصیحت کہ محنت اور ثابت قدمی ، نتیجہ اسحاق ڈار نے سامنے لا کر کھڑا کر دیا تھااور پاکستان بس جی ٹوئنٹی میں شمولیت کے قریب تھا۔ اسی دوران جب نواز شریف دل کی بیماری کے باعث لندن چلے گئے تو ان کی مزاج پرسی کیلئے لندن گیا یہاں پر یہ پروپیگنڈہ کیا جا رہا تھا کہ وہ حکومتی معاملات سے لا تعلق ہیں مگر میں نے لندن جا کر مشاہدہ کیا کہ وہ ایک لمحہ کیلئے بھی اپنی ذمہ داریوں سے غافل نہیں ۔ پھر جولائی دو ہزار سترہ میں سازش کامیاب ہو گئی اور نواز شریف مريم نواز،کیپٹن صفدر وغیرہ سے عدالتی پیشیوں پر ملاقاتیں ہوتیں اور میں ہر بار ایک ہی احساس لے کر اٹھتا کہ آئینی نظام کا جو تصور جدہ میں نواز شریف سے سنا تھا وہ اس پر ڈٹے ہوئے ہیں ۔ 2018کے آر ٹی ایس زدہ انتخابات کے اگلے روز 26جولائی 2018کو نواز شریف، مريم نواز كکیپٹن صفدر سے اڈیالہ جیل میں ملاقات ہوئی اور میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ آنیوالے سخت حالات سے اچھی طرح واقف ہونے کے با وجود جو سوچ تھی اس پر مستحکم تھے ۔ آنے والا وقت اتنا کٹھن ثابت ہوا کہ حمزہ شہباز کو اپنی چھوٹی سی بیٹی کی تیمار داری تک نہ کرنے دی گئی اورانہیںجیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا گیاحالانکہ دنیا اس وقت بھی پی ایم ایل این کی گزشتہ حکومت کی کارکردگی معترف تھی ۔ جب شہباز شریف جیل میں تھے تو اس وقت کے چینی قونصل جنرل نے انکے نام ایک خط لکھا اور میرے حوالے کر دیا اب سوائے شہباز شریف کی عدالت پیشی کے وقت کے علاوہ اور کہیں وہ خط ان تک پہنچانا ممکن نہیں تھا اسلئے عدالت میں ہی انکے حوالے کیا۔ میڈیا پل پل کی خبر دے رہا تھا، یہ خط تو بریکنگ نیوز بن گیا کہ جس کو قیدی بنا کر عدالت لائے ہودنیا اسکی شہباز سپیڈ کا اعتراف کر رہی ہے۔ ان تمام افراد سے انکے علاوہ بھی متعدد بار ملاقات رہی مگر ان چیدہ چیدہ واقعات کو دہرانے کا مقصد یہ ہے کہ اس بات کو سمجھ لیا جائے کہ شہباز شریف حکومت انگاروں پر چلنے کے مترادف ہو گی ۔ اتنی طویل جدو جہد کے بعد عوام یہ شدید خواہش رکھتے ہیں کہ ان کے مسائل کو جلد از جلدحل کیا جائے تا کہ وہ سینہ تان کر کہہ سکیں کہ ہماری قیادت نے سختیاں بھی برداشت کیں اور عوام کو سختیوں سے نجات بھی دی۔ شروع میں عرض کیا تھا کہ وفاقی کابینہ تشکیل پا چکی اب کام، کام اور بس کام۔
123