3 مرتبہ وزارت اعلیٰ پنجاب کے عہدے پر فائز رہنے والے میاں شہباز شریف سے گزشتہ دنوں ایوان صدر میں سبکدوش صدر عارف علوی نے دوسری بار وزارتِ عظمیٰ کا حلف لیا۔ تقریب میں تینوں مسلح افواج کے سربراہان، مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف، وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز، پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری، چیئرمین بلاول بھٹو، چیئرمین سینیٹ، اسپیکر قومی اسمبلی، سینیٹر اسحاق ڈار سمیت (ن) لیگ کی سینئر قیادت، چاروں صوبائی گورنرز، سندھ اور بلوچستان کے وزرائے اعلیٰ نے شرکت کی تاہم خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور تقریب میں شریک نہ ہوئے۔میرے لئے یہ اعزاز کی بات ہے کہ میں بھی اس تقریب میں مدعو تھا اور ساتھ ہی میرے بھائی نومنتخب رکن قومی اسمبلی مرزا اختیار بیگ، مختلف ممالک کے سفیر، وزیراعظم کے دونوں صاحبزادے حمزہ شہباز اور سلیمان شہباز فیملی سمیت شریک تھے۔ حلف اٹھانے کے بعد وزیراعظم شہباز شریف نے اپنے بڑے بھائی میاں نواز شریف کے گھٹنوں کو احتراماً چھوکر انہیں گلے لگایا۔ بعد ازاں وزیراعظم نے آرمی چیف جنرل عاصم منیر، شریک چیئرمین پیپلزپارٹی آصف زرداری اور چیئرمین بلاول بھٹو سے مصافحہ کرکے ان کا شکریہ ادا کیا۔ اس موقع پر وزیراعظم سے حلف لینے والے صدر عارف علوی کچھ بجھے بجھے سے نظر آئے جنہوں نے اسمبلی کا اجلاس نہ بلانے کی آخری وقت تک کوشش کی۔ تقریب میںبیٹھا، میں یہ سوچ رہا تھا کہ یہ بھی حسن اتفاق ہے کہ 2018 میں عمران خان نے ایوان صدر کے اِسی ہال میں وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھایا تھا اور اُس وقت میاں نواز شریف اور اُنکی بیٹی مریم نواز اڈیالہ جیل میں پابند سلاسل تھے جبکہ آج عمران خان مکافات عمل کا شکار ہیں۔
یہ بات خوش آئند ہے کہ شہباز شریف کے حلف اٹھانے کے بعد ملک میں جاری سیاسی اور معاشی غیر یقینی صورتحال کا خاتمہ ہوا، پاکستان اسٹاک ایکسچینج انڈیکس اور ڈالر بانڈز میں بہتری آئی۔ وزیراعظم منتخب ہونے کے بعد شہباز شریف نے قومی اسمبلی میں اپنی پہلی تقریر میں کہا کہ میاں نواز شریف معمار پاکستان ہیں جن کی قیادت میں ملک میں خوشحالی کا دور آیا۔ شہباز شریف نے 9 مئی کے پرتشدد واقعات کی پرزور مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ملکی سلامتی کے اداروں پر حملے میں ملوث ملزمان کو کیفر کردار تک پہنچانا چاہئے۔ انہوں نے اپوزیشن کو میثاق معیشت اور مفاہمت کی دعوت دیتے ہوئے کہا کہ ہم سب مل کر ملک کو معاشی بحران سے نکالیں گے۔اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ 2017 میں جس طرح میاں نواز شریف کو اقتدار سے محروم اور سیاست سے باہر کرکے پابند سلاسل کیا گیا اور عمران خان کو اقتدار میں لایا گیا، اس طرز عمل سے ایک طرف ملک میں جمہوریت کمزور ہوئی تو دوسری طرف پاکستان معاشی طور پر عدم استحکام کا شکار ہوا اور 2018 کے بعد ملک میں سیاسی محاذ آرائی کا تسلسل جاری رہا۔ بعد ازاں سیاسی اشتعال میں غیر معمولی اضافہ ہوا جس سے پاکستان کی معیشت کو شدید نقصان پہنچا اور ملک ڈیفالٹ کے قریب جاپہنچا۔ PDM حکومت میں پی ٹی آئی رہنمائوں کی آخری دن تک یہ کوشش رہی کہ آئی ایم ایف پروگرام کو سبوتاژ کیا جائے اور اگر پاکستان ڈیفالٹ ہو تو اس کی ذمہ داری مسلم لیگ (ن) حکومت پر ڈال کر سیاسی فوائد حاصل کئے جائیں لیکن تمام تر سازشوں کے باوجود آئی ایم ایف سے معاہدے کی منظوری ہوئی اور 16 مہینوں پر محیط حکومت کے خاتمے پر شہباز شریف کا دعویٰ تھا کہ انہوں نے ملک کو ڈیفالٹ ہونے سے بچایا۔ نگراں حکومت کو یہ کریڈٹ ضرور جاتا ہے کہ اس نے آئی ایم ایف کی اصلاحات پر عملدرآمد کیا، ڈالر کنٹرول میں رہا، مہنگائی کی شرح پر قابو پایا گیا، اسٹاک مارکیٹ میں بہتری اور شرح سود میں اضافہ نہیں ہوا۔ خصوصی سرمایہ کاری کونسل کے قیام سے بھی ملک میں غیر ملکی سرمایہ کاری متوقع ہے اور یو اے ای، سعودی عرب سمیت دیگر خلیجی ممالک نے پاکستان میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کیلئے MOU پر دستخط کئے ہیں۔
موجودہ سیاسی اور معاشی صورتحال میں شہباز شریف کا وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز ہونا ایک مشکل فیصلہ ہے اور یہ عہدہ کوئی پھولوں کی سیج نہیں۔ حکومت کیلئے سب سے بڑا چیلنج آئی ایم ایف سے نیا معاہدہ کرنا اور اس کی شرائط پر سخت اور غیر مقبول فیصلے کرنا ہے جس سے حکومت عوام میں تنقید کا نشانہ بنے گی۔ پاکستان کو بیرونی قرضوں کی ادائیگی کیلئے سالانہ 25 ارب ڈالر درکار ہیں جس کے حصول کیلئے ہمیں دوست ممالک کے پاس جانا پڑے گا۔ اگر حکومت مہنگائی اور بیروزگاری کم کرنے میں کامیاب نہ ہوسکی تو تمام تر سخت اقدامات کی ذمہ داری مسلم لیگ (ن) کے کاندھوں پر آئے گی جس کا سیاسی طور پر اسے نقصان اٹھانا پڑے گا لیکن اگر (ن) لیگ حکومت آئی ایم ایف اور بجٹ چیلنجز سے نمٹنے میں کامیاب ہوجاتی ہے تو مستقبل قریب میں پی پی ارکان پارلیمنٹ کو وفاقی کابینہ میں شامل کئے جانے کا امکان ہے۔ شہباز حکومت درپیش سیاسی اور معاشی چیلنجز سے نمٹنے میں کتنی کامیاب ہوتی ہے، یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا۔