ایسے میں جب آئی ایم ایف کا وفد بیل آئوٹ پیکیج کے 1.1ارب ڈالر کی آخری قسط کے اجراکے جائزے کیلئے پاکستان میں مذاکرات میں مشغول تھا، دوسری طرف پی ٹی آئی اور اُسکے حامی واشنگٹن میں آئی ایم ایف کی عمارت کے باہر مذاکرات کو سبوتاژ کرنے کیلئے مظاہرہ اور آئی ایم ایف سے پاکستان کو قرض نہ دینے کا مطالبہ کررہے تھے۔ مظاہرین نے عمران خان کی رہائی اور فوج مخالف بینرز اٹھارکھے تھے اور پاک فوج کے خلاف نعرے بازی کررہے تھے۔ اس موقع پر ایک اشتہاری وین جس پر قد آور ٹی وی اسکرین نصب تھی، پر فوج مخالف نعرے نشر کئے جارہے تھے جسے شہر میں گھمانے کے بعد آئی ایم ایف کے دفتر کے سامنے کھڑا کردیا گیا تھا۔ مصدقہ اطلاعات ہیں کہ آئی ایم ایف دفتر کے باہر ہونے والا مظاہرہ پی ٹی آئی کی اعلیٰ قیادت کی ہدایت پر کیا گیا اور مظاہرے کا ٹاسک بانی پی ٹی آئی کے قریبی ساتھی شہباز گل کو دیا گیا تھا۔ مظاہرے کے بعد عمران خان نے پاکستان مخالف مظاہرے کو درست قرار دیا تاہم احتجاج کے دوران فوج مخالف بینرز سے لاعلمی کا اظہار کیا۔ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ عمران خان کو واشنگٹن میں آئی ایم ایف کے دفتر کے سامنے ہونے والے مظاہرے کا تو علم تھا مگر پاک فوج کے خلاف نعروں کا علم نہیں جس کی انہیں مذمت کرنا چاہئے تھی۔ یاد رہے کہ اس سے قبل عمران خان نے آئی ایم ایف کو ایک خط ارسال کیا تھا جس میں آئی ایم ایف سے پاکستان کو دی جانے والی امداد کو حالیہ انتخابات کے نتائج کے آڈٹ سے مشروط کرنے کا کہا گیا تھا مگر آئی ایم ایف نے پی ٹی آئی قیادت کے مطالبے کو مسترد کردیا تھا۔
یہ پہلا موقع ہے کہ کسی سیاسی جماعت نے ذاتی مفادات کیلئے عالمی مالیاتی ادارے کو خط لکھا ہو اور آئی ایم ایف کے دفتر کے باہر اپنے ہی ملک کے خلاف اس طرح کا مظاہرہ کیا ہو، یہ جانتے ہوئے کہ آئی ایم ایف کا پروگرام پاکستان کیلئے ناگزیر ہے اور اگر آئی ایم ایف پاکستان کی مدد کو نہیں آتا تو پاکستان سری لنکا کی طرح ڈیفالٹ سے دوچار ہوسکتا ہے۔ عمران کی پاکستان مخالف سوچ صرف آئی ایم ایف تک ہی محدود نہیں بلکہ وہ ملک دشمنی میں اتنے آگے نکل گئے ہیں کہ گزشتہ دنوں انہوں نے ایک خط یورپی یونین کو بھی تحریر کیا جس میں مطالبہ کیا گیا کہ یورپی یونین پاکستان کو دی گئی جی ایس پی پلس سہولت واپس لے۔ واضح رہے کہ جی ایس پی پلس پاکستان کو دی گئی ایک ترجیحی سہولت ہے جسکے تحت پاکستان کو یورپی یونین ڈیوٹی فری سہولت حاصل ہے۔ اگر یہ سہولت واپس لے لی گئی تو پاکستان کی یورپی یونین ایکسپورٹ جو تقریباً 9 ارب ڈالر ہے، بری طرح متاثر ہوگی، فیکٹریاں بند ہوجائیں گی اور ہزاروں افراد بیروزگاری سے دوچار ہونگے۔ عمران خان کے ان اقدامات کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے جن سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ یہ سازش کسی سیاسی جماعت یا ادارے نہیں بلکہ پاکستان کے خلاف کررہے ہیں جسکا مقصد پاکستان کو ڈیفالٹ سے دوچار کرنا ہے اور اس خواہش کا اظہار عمران خان کئی بار کرچکے ہیں جس کا خمیازہ مستقبل میں عوام کو بھگتنا پڑے گا۔ عمران خان اس سے قبل بھی 2023 ءمیں آئی ایم ایف پروگرام کو ڈی ریل کرنے کی کوشش کرچکے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ آئی ایم ایف پاکستان کو قرضہ اُسی وقت دے جب انکی حکومت ہو۔
پی ٹی آئی وہ واحد سیاسی جماعت ہے جس نے امریکہ میں کروڑوں ڈالر دے کر پاکستان مخالف لابسٹ ہائر کئے ہوئے ہیں جو پاکستان مخالف سرگرمیوں میں مشغول اور بھارت کے زیر اثر ہیں لیکن یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ ان پاکستان مخالف لابسٹ کو کروڑوں ڈالر کون فراہم کررہا ہے۔ ان لابسٹ کا کام یہ ہے کہ عمران خان کو امریکہ میں ایک ہیرو اور پاکستان کو ایک ناکام ریاست کے طور پر پیش کیا جائے۔ انہی لابسٹ کی کوششوں سے امریکی کانگریس کی امور خارجہ کی سب کمیٹی نے پاکستان کی موجودہ صورتحال کے بارے میں 20 مارچ کو سماعت مقرر کی ہے جس میں امریکی محکمہ خارجہ کے اسسٹنٹ سیکریٹری آف اسٹیٹ برائے ایشیا ڈونلڈ لو کو بھی طلب کیا گیا ہے۔ یاد رہے کہ رواں ماہ کے اوائل میں امریکی کانگریس کے 31ارکان نے صدر جوبائیڈن اور وزیر خارجہ انٹونی بلنکن کے نام خط لکھ کر مطالبہ کیا تھا کہ پاکستان کی نئی حکومت کو تسلیم نہ کیا جائے اور اسے انتخابات کے آڈٹ سے مشروط کیا جائے۔
عالمی مالیاتی ادارے کو خط لکھ کر اور آئی ایم ایف کے دفتر کے باہر پاکستان اور فوج مخالف مظاہرے سے عمران خان کا چہرہ کھل کر سامنے آگیا ہے جس سے عمران خان اور فوج کے درمیان پہلے سے کشیدہ تعلقات میں مزید دوریاں پیدا ہونگی۔ اگر سانحہ 9 مئی کے ملزمان کو اسی وقت کٹہرے میں کھڑا کرکے سزائیں سنا دی جاتیں تو آج ملزمان کو انعام کے طور پر سینیٹ کی ٹکٹوں سے نہ نوازا جاتا اور پی ٹی آئی قیادت کی حوصلہ افزائی نہ ہوتی۔ عمران خان اقتدار اور کرسی کی ہوس میں اندھے ہوکر ملک دشمنی کی تمام حدیں پار کرچکے ہیں اور ملکی سلامتی کو دائو پر لگاکرپاکستان کے خلاف سازشوں میں مصروف عمل ہیں، اس طرح وہ معاشی دہشت گردی کے مرتکب ہوئے ہیں۔ وقت آگیا ہے کہ پاکستان مخالف عناصر سے سختی سے نمٹا جائے اور ان سے کسی مفاہمت کی امید نہ رکھی جائے بصورت دیگر پاکستان کی سلامتی کو خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔