چین ، ترکی اور ایران تین ایسے ممالک ہیں جن کے متعلق پاکستان میں یہ احساس بہت شدت کے ساتھ موجود ہے کہ ان کی طرف سے ہمہ وقت صرف خیر ہی خیر کی خبر پاکستان کی بابت سامنے آنی چاہئے اور یہ خواہش مکمل طور پر مضبوط جواز کی حامل ہے ۔ اس احساس کو بہت سخت جھٹکا کچھ عرصہ قبل وقوع پذیر پاک ایران سرحد پر انتہائی افسوس ناک واقعات سے پہنچا تھا اور میں یہ بہت زیادہ محسوس کر رہا ہوں کہ ایرانی سفارت کار اس کو بہت اچھی طرح سے محسوس کر رہے ہیں کہ ایران کی طرف سے جو پہل ہوئی اس کے بد اثرات کو قصہ ماضی بنانے کیلئے سخت محنت کی ضرورت ہے ۔ رواں رمضان المبارک کو میں نے اپنے گھر پر سہیل وڑائچ کے اعزاز میں دعوت افطار کا اہتمام کیا تھا اور اس دعوت افطار میں چین ، ترکی اور ایران کے قونصل جنرل صاحبان ، ڈائریکٹر جنرل خانہ فرہنگ ،الطاف حسن قریشی ، مجیب الرحمن شامی ، حفیظ اللہ نیازی ، پرویز بشیر ، پروفيسر امان اللہ خان ، گوہر بٹ ، جاوید فاروقی سمیت مختلف شعبہ ہائے زندگی کے افراد نے شرکت کی ۔ تمام شرکائے محفل اس بات پر متفق تھے کہ پاکستان اور اس کے دوست ممالک کے هرگز مفاد میں نہیں کہ وہ ایک دوسرے کے حوالے سے بد گمان ہو ںاور کسی بھی قسم کی ایسی حرکت کر گزریں کہ جس سے باہمی کشیدگی کا تصور قائم ہو۔میں نےعرض کی کہ ابھی ان تینوں ممالک کے ساتھ جو تجارتی روابط پاکستان کے ہونے چاہئیں اس کا عشر عشیر بھی موجود نہیں ہے ۔ یہ صرف پاکستان تک محدود نہیں بلکہ ان کو بھی پاکستان سے باہمی تجارت کو کئی گنا بڑھانا چاہئے اور اس کے امکانات بھی کھلے طور پر موجود ہیں مگر اس کو سوائے کوتاہی اور ناکامی کے کیا کہا جا سکتاکہ اب تک اقتصادی تعلقات تو کیا بڑھاتے اس کے حوالے سے اس کا بھی تعین نہیں کیا جا سکا کہ یہ کتنے بڑھائے جا سکتے ہیں اور اس کیلئے طریقہ کار کیا وضع ہونا چاہئے ۔ اور تو اور چین جسکے ساتھ سی پیک کے منصوبے کی وجہ سے واضح طور پر پاکستان کے زبر دست تجارتی مفادات وابستہ ہو چکے ہیں اسکی مارکیٹ میں پاکستا ن نےاپنی سکت اور گنجائش کو جانچا تک نہیں۔ یہ درست ہے کہ سی پیک میں اس حوالے سے کام ہو رہا ہے مگر پاکستان اس وقت چین کی مارکیٹ میں کس قدر اپنی مصنوعات کو فروخت کر سکتا ہے اس پر کام جو صرف زبانی جمع خرچ تک محدود نہ ہو ، نہیں ہو سکا اور جب تک اس حوالے سے کوئی اقدام تیزرفتاری سے نہیں کیا جاتا ،پاکستان کا حالیہ معاشی بحران سے فوری طور پر چھٹکارہ حاصل کرنا ممکن نہیں ہوگا اور صورت حال دن بدن خراب ہی ہوتی چلی جائے گی ۔ اور اس خراب صورت حال سے ہماری دشمن قوتوں کو اپنا کھیل کھیلنے کا موقع ملتا رہے گا ۔ ویسے بھی اس وقت پاکستان کو عالمی سطح پر شکار بنانے کیلئے بھارت کی جانب سے کسی بھی انہونی کے امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا ۔ میں بھارت سمیت دنیا کے کسی بھی ملک سے پاکستان کی کشیدگی کو برقرار رکھنے کا قائل نہیں مگر اس کا یہ بھی مطلب نہیں کہ پاکستان یہ تصور کرکے بیٹھ جائے کہ اس کو بھارت کی جانب سے کسی بھی قسم کا خطرہ نہیں ہے ۔ میں بھارت سے فوری طور پر خطرے کا ذکر اس لئے کر رہا ہوں کہ وہاں پر عام انتخابات بہت قریب آ چکے ہیں اور بھارت میں پاکستان دشمنی کا چورن بہت اعلیٰ سطح کی سیاسی قیمت پر فروخت ہوتا ہے ۔مودی سرکار کو حزب اختلاف کی جماعتوں نے اتحاد کرکے ٹف ٹائم دینے کیلئے صف بندی بھی کرلی ہے اور اس صف بندی کو غیر موثر کرنے کیلئے مودی کچھ بھی کر سکتا ہے ۔ بھارت کے گزشتہ انتخابات سے قریب ہی پلوامہ کا مشکوک واقعہ رونما ہو گیا تھا اور اس واقعہ کو مودی نےاتنا اچھا ’’کھیلا ‘‘ کہ وہ انتخابی نتائج کو یکطرفہ کرنے میں کامیاب ہو گیا ۔ ضروری نہیں کہ ہر بار ایک ہی طریقہ استعمال میں لایا جائے، کچھ نیا ہو سکتا ہے اسلئے حد درجہ احتیاط اور آنکھیں کھلی رکھنے کی ضرورت ہے ۔دوسری طرف افغانستان ایک مستقل درد سر بن چکا ہے ۔ افغان طالبان کے بر سر اقتدار ہونے سے یہ امید ہوئی تھی کہ پاکستان کو اب اس سرحد کی جانب سے خیر ہی خیر کا منہ دیکھنا نصیب ہوگا مگر ایسا نہیں ہو رہا ۔ میں اب بھی افغان طالبان سے حسن ظن رکھتا ہوں کہ ان کی غالب اور موثر اکثریت پاکستان سے بہتر تعلقات کی خواہاں ہے مگر ایسے عناصر جو پاکستان کے خلاف دہشت گرد تنظیموں کو پناہ گاہیں فراہم کرتے ہیں ،متحرک ہونے کیلئے تمام وسائل مہیا کرتے ہیں اس غالب اکثریت کو اس معاملہ میں غیر مؤثر کر دیتے ہیں جس سے دونوں ممالک کے درمیان فاصلہ بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے اور اگر یہ فاصلہ اسی رفتار سے بڑھتا گیا تو اس کے بد اثرات مرتب ہوتے چلے جائیں گے ۔ پاکستان نے تنگ آ کر بالآخر افغانستان کے اندر فوجی کارروائی کر دی ہے اور اس سے افغان طالبان کو یہ سمجھ لینا چاہئے کہ وہ پاکستان کو کھو کرخود کو مزید تنہا کر رہے ہیں ۔
اب پاکستان کو اس تمام صورت حال کو بہتر بنانے کیلئے بہت متحرک ہونے کی ضرورت ہے ۔ اس وقت خارجہ امور کی قیادت اسحاق ڈار کے پاس ہے اور ان کو اقتصادیات کا بھی گہرا شعور ہے ۔ ان دونوں صلاحیتوں کی وجہ سے امید ہے کہ وہ پاکستان کو درپیش مشکلات سے نکال سکیں گے اور اس مقصد کیلئے ان کو فوری طور پر اپنی ٹیم تشکیل دے دینی چاہئے اور صرف بیورو کریٹس پر اکتفا نہیں کرنا چاہئے کیوں کہ افسر شاہی فیصلہ ساز نہیں ہو سکتی ۔