پاکستان کو اپنے معاشی مسائل کو خدا حافظ کہنے کیلئے کوآپریٹیو فیڈرل ازم کی ضرورت ہے ۔ ورلڈ بینک کے مطابق 2018ءمیں پاکستان میں شرح غربت 22فیصد تھی جو اب 39یصدسے متجاوز ہے جبکہ بنگلہ دیش میں 2016ءمیں شرح غربت کم و بیش ساڑھے تیرہ فیصد تھی جو 2022ءمیں ساڑھے دس فیصد تک رہ گئی ۔ یہ بات واضح رہے کہ پاکستان کی معیشت میں پنپنے کی بھرپور استعداد موجود ہے۔ ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ اس استعداد کو تخیل سے حقیقت کا روپ دینے کی صلاحیت کو بروئے کار لایا جائے ۔ معروف برطانوی مؤرخ ، تاریخ و فلسفہ تاریخ کے لندن اسکول آف اکنامکس کے پروفیسر آرنلڈ ٹوائن نے کہا تھا کہ’’معاشرے اس وقت زبوں حالی کا شکار ہوتے ہیں جب کسی معاشرے کی تخلیقی اقلیت ( معاشرے میں سوچ سمجھ کر راستہ دکھانے والے افراد ) ایک غالب اقلیت کا روپ دھار لیتی ہے ‘‘یعنی وہ اپنی قابلیت کے دعوے کی بنیاد پر ہر طرح کے اعزازات و مراعات سے تو مستفید ہونا چاہتے ہیں مگر اپنی اصل ذمہ داریاں ادا کرنے سے قاصر ہوتے ہیں کہ وہ مسائل کا حل پیش کر سکیں۔ اس وقت وطن عزیز کو بھی ایسی تخلیقی سوچ کی ضرورت ہے جو پاکستان کو گمبھیر معاشی مسائل سے نجات دلا ئے۔ اس بارے میں اب کوئی دوسری سوچ پیش کرنا منافقت ہوگی کہ اگر قومی معیشت کو چلانے کیلئے بجلی ، گیس ، پیٹرول وغیرہ کی قیمتوں کے اضافے پر انحصار کیا گیا تو یہ عوام کی برداشت سے باہر ہوگا اور اس حوالے سے چاہے دلائل کے انبارلگا دیئے جائیں وہ عوام کو گھڑے ہوئے ہی محسوس ہونگے ۔ بظاہر یہ خیال بہت مضبوط دکھائی دے رہا ہے کہ نئی تازہ دم حکومتیں اپنا عرصہ حیات مکمل کرلیں گی اور اسوقت تو وفاقی حکومت کے پاس کم و بیش دو تہائی اکثریت کا تمغہ موجود ہے اور ساتھ ساتھ ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں بھی وزیر اعظم کی جماعت ہی بر سر اقتدار ہے ۔ سندھ کی بات کی جا سکتی ہے مگر وفاقی کابینہ میں نمائندگی نہ رکھنے کے سبب انکی ذمہ داریاں بہر حال اس سطح پر تصور نہیں کی جائیں گی کہ جس سطح پر پی ایم ایل این کی ذمہ داری ہے ۔ میں انہی کالموں میں اس سے قبل بھی عرض کر چکا ہوں کہ اسحاق ڈار کے وزیر خارجہ کے منصب پر فائز ہونے سے یہ امکان بڑھ گیا ہے کہ وہ خارجہ پالیسی کو کاروبار سے منسلک کرنے میں کامیاب ہو جائیں۔ کیونکہ ان کو مالیاتی امور و پاکستانی معاشی حالات کا گہرا شعور و تجربہ ہے ۔ خارجہ پالیسی کے ذریعے کاروبار کو وسعت دینے کا کامیاب تجربہ نریندر مودی کے عرصہ اقتدار میں با آسانی دیکھا جا سکتا ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی یاد رہےکہ بی جے پی نے بھارت میں خارجہ امور کو پرانے نظریات کے زیر اثر طے نہیں کیا بلکہ جب 2014 میں بی جے پی کامیاب ہوئی تو اس سے قبل وہ اس امر کی وکالت میں پیش پیش تھی اور اس کو انہوں نے اپنے منشور کا حصہ بنایا ہوا تھا کہ اسٹیٹس ( صوبوں ) کا خارجہ پالیسی میں کردار ہونا چاہئے بلکہ نریندر مودی کا یہ فقرہ بہت معروف ہوا تھا کہ بھارت صرف دہلی نہیں ہے ۔
خارجہ امور کا شعور رکھنے والے اچھی طرح سے آگاہ ہوتے ہیں کہ خارجہ پالیسی اب صرف سلامتی و تزویراتی معاملات تک سمٹی ہوئی نہیں ہے بلکہ معاشی ترقی اور ڈائریکٹ فارن انویسٹمنٹ بھی اس کے بنیادی اجزا ہیں اور اسی اصول کو سامنے رکھتے ہوئے کہ معاشی ترقی اور ڈائریکٹ فارن انویسٹمنٹ کے معاملات سے اسٹیٹس ( صوبوں ) کو علیحدہ نہیں رکھا جا سکتا ہے بھارت کی وزارت خارجہ میں اسٹیٹس ڈویژن کا قیام 2014 میںعمل میں لایا گیا تاکہ خارجہ پالیسی پر اسٹیٹس ( صوبوں ) سے مستقل بنیادوں پر مشاورت کا عمل جاری رہے اور ڈائریکٹ فارن انویسٹمنٹ کے ہدف کا حصول ممکن بنایا جائے ۔ جب مودی نے دورہ چین کیا تو اس نے اس بات کا خاص طور پر اہتمام کیا تھا کہ اس کے ساتھ مختلف اسٹیٹس ( صوبوں ) کے افراد چین میں اسٹیٹ ٹو اسٹیٹ کاروباری معاملات پر بات کر سکیں۔ اس مقصد کیلئے اسٹیٹس ( صوبوں ) کی سطح پر ادارہ جاتی تشکیل کو اہمیت دی گئی اور اس کو بھی یقینی بنایا گیا کہ ان محکموں کا ہمہ وقت اشتراک عمل وزارت خارجہ اور دیگر محکموں سے قائم رہے ۔ یہاں تک اہمیت دی گئی کہ جب بھارت اور بنگلہ دیش کے درمیان 2015ءمیں لینڈ باؤنڈری ایگریمنٹ ہوا تو آسام اور مغربی بنگال کی حکومتوں کو بھی آن بورڈ لیا گیا تھا ۔ اسی طرح سے کوآپریٹیو فیڈرل ازم کے نظریہ کے تحت 2004ءسے کینیڈا نے اپنی اسٹیٹس ( صوبوں ) کو خارجہ معاملات میں آن بورڈ لیا خاص طور پر جب نارتھ امریکا فری ٹریڈ ایگریمنٹ پر گفتگو ہوئی تو اس کو بہت اہمیت دی گئی کہ یہ بہت سارے امور اسٹیٹس ( صوبوں ) کے ہیں اور انکے بغیر اس پر کوئی فیصلہ نہیں کیا جا سکتا ہے ۔ اگر پاکستان کو موجودہ معاشی بحران سے نجات دلانی ہے تو ضروری ہے کہ صوبوں کو زیادہ سے زیادہ خارجہ پالیسی ،جو کہ ڈائریکٹ فارن انویسٹمنٹ پر ہو، میں شامل کیا جائے ۔ اس وقت وفاق اور پنجاب میں پی ایم ایل این کی حکومتیں ہیں۔ اسلئے سب سے پہلے پنجاب میں ہی خارجہ امور ، فارن ڈائریکٹ انویسٹمنٹ کے حوالے سے ادارہ جاتی اقدامات کئے جائیں ۔ پنجاب کیلئے یہ تجویز اسلئے پیش کر رہا ہوں کہ موجودہ سیاسی صورت حال کی بدولت نہ تو کوئی بدگمانی جنم لےگی اور وفاق کو بھی اس سلسلے میں سہولت کاری میں آسانی ہوگی بعد میں دیگر صوبوں کو بھی اس کی تقلید کرنی چاہئے ۔