کیسے عدلیہ کے معاملات میں ایجنسیوں کی مداخلت کو روکا جائے؟ کیسے اسٹیبلشمنٹ کاسیاست میں کردار ختم کیا جائے؟ یہ وہ مشکل سوال ہیں جن کا جواب یا حل کسی کے پاس موجودہ نہیں۔ یہ وہ معاملات ہیں جوکسی نہ کسی شکل میں ہر کچھ عرصہ کے بعدسر اُٹھاتے ہیں، بحث مباحثہ ہوتا ہے، کمیشن بھی بنتے ہیں، حکومت اور عدلیہ بھی حرکت میں آتے ہیں لیکن مسئلہ وہیں کا وہیں رہتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایسے معاملات میں تمام متعلقہ فریقین کا احتساب کبھی نہیں ہوتا۔ عدالتی معاملات میں مداخلت کو دیکھا جائے تو اس میں اگر ایک طرف ایجنسیاں یا اسٹیبلشمنٹ شامل ہوتی ہے تو دوسری طرف عدلیہ کے اندر سے مداخلت کے لیے سہولت کاری کی جاتی ہے۔ ایسی سہولت کاری عموماً سیاسی کیسوں میں ہوتی اور اس کا تعلق کسی نہ کسی سیاسی جماعت اور سیاسی رہنما کے لیے اقتدار کا رستہ ہموار کرنے یا اُسے اقتدار سے ہٹانے اور مائنس کرنے کے لیے کیا جاتا ہے۔ گویا ایسے کھیل میں ایجنسیوں ، عدلیہ میں موجود سہولت کار ججوں کے علاوہ سیاسی جماعتیں اور سیاسی رہمنا بھی شریک ہوتے ہیں۔ یعنی ایجنسیوں کی عدالتی معاملات میں مداخلت یا اسٹیبلشمنٹ کا سیاسی معاملات میں دخل اندازی کے لیے عدلیہ اور سیاست کے اندر پارٹنرز کا ہونا لازمی ہے اور یہی ہر بار ہوتا ہے۔ ایجنسیوں اور اسٹیبلشمنٹ سے متعلق ایسی مداخلت کی شکایات ہر دور میں ملتی رہیں اور اب بھی مل رہی ہیں۔ ججوں پر بھی ایجنسیوں کے ساتھ ملاپ کے الزامات ہمیشہ لگتے رہے ہیں اور اب بھی لگائے جا رہے ہیں۔ سیاستدانوں اور اسٹیبلشمنٹ کے گٹھ جوڑ کی باتیں ہمیشہ ہوتی رہیں اور اب بھی ہو رہی ہیں۔ جسٹس شوکت صدیقی کا کیس ہی دیکھ لیں تو کیا اُس وقت اگر ایک طرف مداخلت ، دباو ڈالنے اور اپنی مرضی کے فیصلے لینے کے لیے عدالتی بنچ بنوانے کا الزام آئی ایس آئی کے ایک اعلی افسر پر لگایا گیا تو دوسری طرف وہ عدلیہ کے اندر کون تھا جو مبینہ طور پر آئی ایس آئی کے دباو پر اُن کی مرضی کے بنچ بناتا اور ڈکٹیٹڈ فیصلے کرتاتھا۔الزام لگایا گیا کہ یہ سب ایک سیاسی جماعت کے رہنما کو مائنس کرنے کے لیے کیا جا رہا تھا تاکہ کسی دوسرے سیاسی رہنما کو فائدہ پہنچایا جا سکے۔ آج بھی سپریم کورٹ میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججوں کے خط پر سوموٹو کیس سنتے ہوے بنچ میں موجود ایک جج صاحب نے کہا کہ یہ تاثر ہے کہ اُس وقت کی سپریم کورٹ بھی پولیٹیکل انجینئیرنگ کا حصہ تھی۔ اگر عدالتی اورسیاسی معاملات میں ایجنسیوں یا اسٹیبلشمنٹ کے کردار کو روکنا ہے توایک مشکل رستہ یہ ہو سکتا ہے کہ اس کے لیے ایجنسیوں، عدلیہ اور سیاست سے تعلق رکھنے والے تمام ذمہ داروں کو ایک ساتھ کٹھہرے میں کھڑا کیا جائے۔ اس میں ایک طرف اگر کسی جنرل سے جوابدہی ہو گی تو عدلیہ کے کسی نہ کسی چیف جسٹس اور بڑے جج کو بھی سوالوں کے جواب دینے ہوں گے۔ اور جب جنرل اور چیف جسٹس جواب دینے کے پابند ہوں گے تو پھر اس کھیل میں شریک سیاسی رہنما یعنی کسی نہ کسی وزیراعظم کا بھی احتساب ہونالازم ہو گا۔ یعنی عدالتی اور سیاسی معاملات میں مداخلت کو ختم کرنا ہے تو تینوں فریقین کو کٹھرے میں کھڑا کرنا ہو گا تاکہ اسٹیبلشمنٹ، عدلیہ اور سیاستدان کے درمیان اُس نیکسس (nexus) کو توڑا جائے جو عدلیہ اور سیاست میں اس قسم کی غیر آئینی مداخلت کا بار بار سبب بنتا ہے۔ مثال کر طور اگر اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججوں کی شکایت پر کوئی انکوائری کرنی ہے یا جسٹس شوکت صدیقی کے کیس کی تحقیقات کرنی ہیں تو پھر ایسا نہیں ہو سکتا ہے مبینہ نیکسس میں شامل کسی ایک فریق کا احتساب کیا جائے اور باقی فریقوں کی بات ہی نہ کی جائے۔ لیکن مجھے ایسا ہوتا ہوا ممکن نظر نہیں آتا ۔ اس مسئلہ کے ممکنہ حل کے لیے تمام سٹیک ہولڈرز کے درمیان ایک اوپن ڈائیلاگ کا رستہ اختیار کیا جا سکتا ہے جس میں کھل کر ہر فریق ماضی کی اپنی اپنی غلطیاں تسلیم کر کے آئندہ کے لیے ایک ایسے چارٹر آف گورننس اینڈ رول آف لاء پر اتفاق کریں جس میں ہر فریق کو پابند بنایا جائے کہ وہ اپنے اپنے آئینی دارئرہ اختیار میں رہ کر پاکستان اور عوام کی ترقی اور فلاح کے لیے کام کریں گے۔ اس چارٹر میں کسی بھی فریق کی طرف سے کسی بھی قسم کی خلاف ورزی کے تدارک کا بھی حل موجود ہونا چاہیے۔ اگر سب سدھرنے کے لیے تیار ہوں گے تو ہی بحیثیت قوم ہم سدھر سکیں گے ورنہ یہ دائروں کا سفر جاری رہے گا۔
223