پاکستان کا تجارتی و صنعتی حب اور روشنیوں کا شہر کراچی ایک بار پھر ڈکیتوں کے ہاتھوں یرغمال بنا ہوا ہے اور اُن کے رحم و کرم پر ہے۔ شہر میں اسٹریٹ کرمنلز دندناتے پھر رہے ہیں، صرف ماہ رمضان میں کراچی میں ڈکیتی میں مزاحمت پر 20 افراد جاں بحق ہوئے جبکہ رواں سال ڈکیتی مزاحمت پر قتل کئے گئے شہریوں کی تعداد 60 سے زیادہ اور زخمیوں کی تعداد 200 سے تجاوز کرگئی ہے۔ ان حالات میں پولیس شہریوں کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام ہوگئی ہے اور شہریوں کو ڈکیتوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے جس کی تصدیق ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (HRCP) نے اپنی حالیہ رپورٹ میں کرتے ہوئے کہا ہے کہ جرائم کی بڑھتی وارداتوں کو روکنے میں سندھ حکومت اور پولیس ناکام نظر آرہی ہے۔ سندھ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کی سربراہی میں قائم صوبائی انصاف کمیٹی کے اجلاس میں آئی جی سندھ غلام نبی میمن اور ڈی جی رینجرز سندھ میجر جنرل اظہر وقاص کی موجودگی میں چیف جسٹس نے بھی کراچی میں بڑھتے اسٹریٹ کرائمز اور کچے میں شہریوں کے اغوا پر برہمی کا اظہار کیا اور سخت کارروائی کی ہدایت کی۔ ایسی صورتحال نے وفاقی حکومت کے اتحادیوں کو آمنے سامنے لاکھڑا کیا ہے۔ ایم کیو ایم کے سینئر رہنما مصطفی کمال نے کراچی میں امن و امان کی مخدوش صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے شہر کو 3 ماہ کیلئے پاک فوج کے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ دوسری طرف سندھ حکومت نے کراچی میں امن و امان کی خراب صورتحال کا ذمہ دار سابقہ نگراں حکومت کو ٹھہراتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ نگراں دور حکومت میں پولیس میں تبادلوں کے باعث اسٹریٹ کرائمز میں اضافہ ہوا تاہم بہت جلد صورتحال پر قابو پالیا جائے گا۔
کراچی کی موجودہ ابتر صورتحال اور بڑھتے اسٹریٹ کرائمز کے باعث پولیس شدید تنقید کی زد میں ہے اور رینجرز پر دبائو میں اضافہ ہورہا ہے۔ پاکستان رینجرز ایک نیم فوجی ادارہ ہے جس کا کام سرحدوں کی حفاظت اور شورش زدہ علاقوں میں عوام کو تحفظ فراہم کرنا ہے۔ سندھ رینجرز کے موجودہ ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل اظہر وقاص نہایت پیشہ ورانہ صلاحیتوں کے حامل ہیں اور 2 سال سے زائد عرصے سے بطور ڈی جی رینجرز سندھ خدمات انجام دے رہے ہیں اور اس سے قبل وہ ڈی جی ملٹری انٹیلی جنس کے عہدے پر فائز تھے۔ میجر جنرل اظہر وقاص بزنس کمیونٹی میں بہت مقبول ہیں۔ انہوں نے رینجرز ہیڈ کوارٹرز کے دروازے بزنس کمیونٹی کیلئے کھول رکھے ہیں جن سے وہ وقتاً فوقتاً انٹرکشن میں رہتے ہیں۔ اسی سلسلے میں انہوں نے رمضان المبارک میں بزنس کمیونٹی کیلئے افطار ڈنر کا اہتمام کیا جس میں کراچی میں اسٹریٹ کرائمز موضوع بحث رہے۔ گزشتہ دنوں میں نے ڈی جی رینجرز سندھ سے رینجرز ہیڈ کوارٹرز کراچی میں ملاقات کی جس میں کراچی میں امن و امان کی بگڑتی صورتحال زیر بحث آئی۔ دوران ملاقات ڈی جی رینجرز نے مجھے بتایا کہ رینجرز، پولیس کا متبادل نہیں بلکہ پولیس کی سپورٹ کےلئے ہے اور حکومت سندھ کی درخواست پر خدمات انجام دیتی ہے۔ ان کے بقول سندھ میں رینجرز اہلکاروں کی مجموعی تعداد 20ہزار ہے جن میں سے 10ہزار اہلکار کراچی اور 8ہزار اہلکار بھارت کے ساتھ سرحد پر متعین ہیں جبکہ 2ہزار اہلکار اندرون سندھ خدمات انجام دے رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ رینجرز کے دائرہ اختیار (Domain) میں دہشت گردی، بھتہ خوری، اغوا برائے تاوان اور ٹارگٹ کلنگ سے نمٹنا شامل ہے۔ 2014 میں جب کراچی میں دہشت گردی عروج پر تھی، سندھ حکومت نے دہشت گردی سے نمٹنے کیلئے رینجرز کو خصوصی اختیارات دیئے تھے جس کے تحت رینجرز، ملزمان کو 3 ماہ کیلئے اپنی حراست میں رکھ کر تفتیش کرسکتی تھی مگر بعد ازاں یہ اختیارات واپس لے لئے گئے اور اب اگر رینجرز کسی ملزم کو گرفتار کرتی ہے تو اسے فوراً پولیس کے حوالے کردیا جاتا ہے لیکن اکثر دیکھا گیا ہے کہ مجرمان اثر و رسوخ کی بنیاد پر باہر آجاتے ہیں یا عدالتوں سے ضمانت حاصل کرلیتے ہیں۔ کراچی میں ایک بڑی تعداد عادی مجرموں کی ہے جو ماضی میں متعدد وارداتوں میں ملوث رہے ہیں اور وہ ضمانتوں پر رہا ہوکر دوبارہ کرائم میں ملوث ہوجاتے ہیں۔
ڈی جی رینجرز سے ملاقات کے بعد جب میں باہر آیا تو عمارت کے احاطے میں ’’یادگار شہداء دیوار‘‘ پر نظر پڑی جس پر 155سے زائد اُن رینجرز افسران اور اہلکاروں کے نام درج تھے جنہوں نے کراچی میں قیام امن کیلئے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کئے۔ سیکورٹی کا ہر ادارہ اپنے شہیدوں کی یاد میں ایک دن مناکر ان کی قربانیوں کو اجاگر کرتا ہے مگر سندھ رینجرز نے یہاں بھی اپنی قربانیوں کی کوئی تشہیر نہیں کی اور شہر کراچی کیلئے خاموشی سے اپنی خدمات سر انجام دے رہے ہیں جس پر پاکستان رینجرز سندھ اور قیادت خراج تحسین کی مستحق ہے۔ رینجرز کی ان گراں قدر خدمات کو فراموش نہیں کیا جاسکتا جس کی بدولت آج شہر میں امن و امان قائم ہے اور کراچی کے شہری اور بزنس مین بلاخوف و خطر معمول کی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ موجودہ صورتحال میں کراچی میں اسٹریٹ کرائمز پر قابو پانا پولیس کیلئے ایک بڑا چیلنج بن گیا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ کراچی میں قیام امن کیلئے رینجرز کو پولیس کی طرز پر خصوصی اختیارات دیئے جائیں تاکہ دونوں ادارے مل کر امن و امان کی مخدوش صورتحال اور اسٹریٹ کرائمز پر قابو پاسکیں۔ ماضی میں شہر کراچی میں رینجرز کی خدمات کو پیش نظر رکھتے ہوئے یہ امید کی جا رہی ہے کہ اگر رینجرز کو کراچی میں اسٹریٹ کرائمز پر قابو پانے کیلئے خصوصی اختیارات دیئے گئے تو وہ کراچی کے شہریوں کو مایوس نہیں کریں گے۔