پاکستان کو چاہے داخلی سلامتی کے مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہو یا اسکے سامنے معاشی صورتحال عفریت کا روپ دھارے کھڑی ہو ۔ اس سب کے تانے بانے خارجہ پالیسی اور ہم سے منسلک بین الاقوامی امور سے ضرور جا ملتے ہیں ۔ نوشکی میں بہنے والا خون ہو یا ہمارے فوجی و پولیس اہلکاروں پر ہوتے حملے ، ان سب کی وجوہات خارجہ امور میں پنہاں ہیں اور ہمیں ان سب کو ماضی کی بس ایک تلخ یاد بنانے کیلئے اپنی خارجہ حکمت عملی کو چیل کی نظرسے دیکھنا ہو گاکہ کوئی واقعہ رونما ہو چکا ہو ، ہو رہا ہو یا ہونے والا ہو ہماری نظر سے اوجھل نہ رہے ، اگر کچھ بھی پوشیدہ رہ گیا تو و ہی ہمارے لئے درد سر بن جائیگا ۔ سر دست سب سے بڑا معرکہ معاشی بحالی کا ہی درپیش ہے اور اس کو سر کرنے کی غرض سے حال ہی میں فیسلی ٹیشن کونسل کا قیام عمل میں لایا گیا اورگمان ہے کہ اس کونسل کی بدولت غیر ملکی سرمایہ کاری کو بہت فروغ حاصل ہوگا ۔ نیک خواہشات اسکے ساتھ ہیں مگر یاد رہےکہ اس سے قبل سابق آرمی چیف جنرل باجوہ نے بھی اس ضمن میں بیڑا اٹھایا تھا جو پار نہیں ہو سکا تھا، اگر ہم سی پیک کا ہی جائزہ لیں تو یہ حقیقت ہمارا منہ چڑاتی نظر آتی ہے کہ2019 کے بعد سے سی پیک کے تحت نئے منصوبے لگنے کا معاملہ ٹھپ ہو گیا تھا اور 2019 تک بھی سی پیک کے جن منصوبوں کا آغاز ہوا اس پر معاہدات نواز شریف دور حکومت میں ہو چکے تھے اور یہ واضح رہے کہ اس وقت ان معاملات میں ، سرمایہ کاری لانے میں کوئی کردار جنرل باجوہ کا نہیں تھا ۔ ابھی حال ہی میںریکوڈک اور تیل کی ریفائنری کے حوالے سے خوش کن اقدامات کا اعلان کیا گیا ہے ۔ ریکوڈک میں آدھے شیئرز بین الاقوامی کمپنی کے ہیں جبکہ بقايا 25 فیصد وفاق کے اور 25 فیصد صوبے کے ہیں اب ان پچاس فیصد میں سے سعودی عرب انویسٹ کرےگا لہٰذا یہ طے ہونا چاہئے کہ اس پچاس فیصد میں سے صوبے یا وفاق کے شیئرز میں سے کن پر سعودی عرب کی سرمایہ کاری ہوگی ۔ اس میں یہ مکمل طور پر واضح ہونا چاہئے کہ ان میں سے کتنے فیصد صوبہ دےگا اور کتنے فیصد وفاق دےگا تا کہ کوئی ابہام باقی نہ رہے جبکہ تیل کی ریفائنری لگانے کے حوالے سے بھی وفاق اور صوبے کے معاملات مکمل طور پر شفاف ہونے چاہئیں کہ کس کا کتنا حصہ ہے ۔ اور یہ تو سامنے کی بات ہے کہ سرمایہ چاہے ان منصوبوں کیلئے کسی بھی طرف سے آئے مگر ان پر کام کرنے کیلئے جو مہارت درکار ہے وہ امریکہ اور مغرب سے ہی ميسر آسکتی ہے اور جب ان اطراف سے ماہرین آ موجود ہونگے تو ان ماہرین کے حوالے سے خدشات ہمارے دوست ممالک میں جنم لے سکتے ہیں ۔ سی پیک کے بعد چین کی سرمایہ کاری سب کے سامنے ہے اور وہ بھی ان دونوں منصوبوں کے بس آس پاس ہی موجود ہوگا، ویسے ابھی تیل کی ریفائنری کی جگہ کا بھی تعین نہیں کیا گیا جو اپنے اندر ایک خاص اہمیت رکھتی ہے۔ یہ بات بھی بہت اہمیت کی حامل ہے کہ بلوچستان کے جن علاقوں میں خاص طور پر دہشت گردی ہو رہی ہے یہ وہ ہی علاقےہیں جہاں پر چینی سرمایہ کاری کی گئی ہے اور یہ صاف طور پر نظر آ رہا ہے کہ اس دہشت گردی کا ہدف اس سرمایہ کاری کو منڈھے نہ چڑھنے دینا ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان اور ایران کی مشترکہ گیس پائپ لائن کا بھی بہت شور ہے اور دنیا کی آنکھوں میں یہ بھی کھٹک رہی ہے ۔ یہ بھی دہشت گردی سے متاثرہ علاقوں سے ہی گزرے گی ۔ ایرانی صدر کے مجوزہ دورہ پاکستان کی بھی تفصیلات آہستہ آہستہ سامنے آ رہی ہیں خیال رہے کہ اس دورے کے حوالے سے سب سے پہلے راقم الحروف نے ہی بتایا تھا کہ یہ دورہ ہونا طے پایا ہے یہ ان دنوں کی بات ہے جب ایران کی جانب سے پاکستان کی سرحدی خلاف ورزی کی گئی تھی ۔ کوشش کرنی چاہئے کہ اس دورے کے دوران وہ ان معاملات کو بھی حل کرنے کی کوشش کرے جو پاکستان اور ایران کے مابین بہرحال موجود ہیں اور انہی کالموں میں راقم الحروف ان معاملات پر گزارشات بھی پیش کر چکا ہے خیال رہے کہ اس دورے کو غیر مؤثر کرنے کیلئے پاکستان دشمن قوتوں کی جانب سے کوئی بھی اقدام ہو سکتا ہے اور ہمیں اس بات کو یقینی بنانا چاہئے کہ اس دورے کے دوران ایسا کچھ نہ ہو جس سے منفی تاثر قائم ہو ۔ پاکستان کو اپنے قیام سے لے کر تادم تحریر بھارت کی جانب سے مسائل کا سامنا ہی کرنا پڑتا رہا ہے اور نوشکی سمیت جہاں کہیں بھی مذہبی نوعیت کی دہشت گردی ہو یا علاقائیت کی بنیاد پر، اس کے روابط بھارت سے ضرور جڑے ہوئے محسوس ہوتے ہیں مگر اب ایک اور طرح کی دہشت گردی بھی کروائی جا رہی ہے جس پر بہت توجہ دینے کی اور زیرو ٹالرنس پالیسی اپنانےکی ضرورت ہے ۔ جیسے کینیڈا وغیرہ میں بھارت نے کیا کہ اپنے مخالفین کی ٹارگٹ کلنگ کروائی ، اسی طرح پاکستان میں بھی یہ کیا جا رہا ہے ۔ تازہ ترین واردات یہ ہے کہ بھارتی جاسوس سربجیت سنگھ کے جیل میں ہوئے قتل میں مبینہ طور پر ملوث اس وقت کے ساتھی قیدی عامر سرفراز کو لاہور میں گھر میں گھس کر قتل کر دیا گیا ہے ۔ اس صورت حال کا فوری طور پر تدارک ہونا چاہئے ورنہ نقصان بڑھتا چلا جائے گا ۔
102