99

9 مئی، فوجی قیادت کیخلاف مذموم سازش

سانحہ 9مئی کو ایک سال گزرنے کے باوجود اس سانحہ کے آفٹر شاکس کا سلسلہ آج بھی رکا نہیں بلکہ اِسی طرح کے آفٹر شاکس نگراں حکومت کی حالیہ رپورٹ میں بھی محسوس کئے گئے۔ رپورٹ میں یہ انکشاف سامنے آیا کہ 9 مئی کے واقعات کا مقصد پاک فوج میں بغاوت کرانا تھا اور اس روز پیش آنے والے واقعات ایک منظم اور خطرناک حکمت عملی کا حصہ تھے جس کی منصوبہ بندی میں بانی پی ٹی آئی سمیت پارٹی کے دیگر سینئر رہنما شریک تھے۔ رپورٹ کے مطابق ریاستی اداروں کے خلاف پہلے کے تشدد کا مضبوط جواب نہ ملنے پر پی ٹی آئی قیادت زیادہ بے باک ہوگئی تھی اور فوجی تنصیبات پر شرپسندوں کے حملے کا مقصد فوج کے مورال کو کمزور کرنا اور مسلح افواج میں دراڑ پیدا کرنا تھا۔ واضح رہے کہ وزیراعظم شہباز شریف وفاقی کابینہ کے خصوصی اجلاس میں بھی اسی طرح کا انکشاف کرچکے ہیں کہ ’’سانحہ 9 مئی ریاست پاکستان کے ساتھ افواج پاکستان اور آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے خلاف بغاوت تھی جس کا مقصد ملک میں خانہ جنگی کی صورتحال پیدا کرنا تھا۔‘‘

سانحہ 9 مئی کے حوالے سے گزشتہ دنوں ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل احمد شریف چوہدری نے اپنی پریس کانفرنس میں واضح کیا کہ سانحہ 9 مئی کرنے اور کرانے والوں اور منصوبہ سازوں کو آئین کے مطابق سزا دینا ہوگی لیکن اگر انہیں کیفر کردار تک نہیں پہنچایا گیا تو ہمیں ایک اور 9 مئی کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ انہوں نے 9 مئی کے ذمہ داروں کا نام لئے بغیر کہا کہ اگر وہ قوم کے سامنے صد ق دل سے معافی مانگیں اور وعدہ کریں کہ نفرت کی سیاست کے بجائے تعمیری سیاست میں حصہ لیں گے تو اُن کیلئے ہمارے دروازے کھلے ہیں۔ اُمید کی جارہی تھی کہ پی ٹی آئی قیادت پاک فوج کی فراخدلانہ پیشکش کا مثبت جواب دے گی مگر بانی پی ٹی آئی نے یہ کہہ کر کشیدگی کو مزید بڑھادیا کہ ’’معافی تو فوج کو ہم سے مانگنی چاہئے۔‘‘ اسی طرح ایک سینئر پارٹی رہنما نے یہ کہہ کر ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کیا کہ ’’معافی تو ہم نے کبھی اپنے با پ سے نہیں مانگی۔‘‘

پی ٹی آئی قیادت کا موقف ہے کہ 9 مئی کے واقعات فالس فلیگ آپریشن کا حصہ تھے جس میں اُنہیں پھنسایا گیا۔ اس حوالے سے پی ٹی آئی کی جانب سے یہ دلیل پیش کی جارہی ہے کہ وہ جب جلوس کی شکل میں فوجی تنصیبات کی طرف جارہے تھے تو انہیں روکا کیوں نہیں گیا اور فوجی دستوں کو کیوں ہٹایا گیا؟ میرے نزدیک پی ٹی آئی قیادت کے اس موقف میں کوئی وزن نہیں اور ایسا ہے کہ کوئی چور ڈاکو چوری کی غرض سے کسی گھر میں داخل ہو اور پکڑے جانے پر کہے کہ راستے میں مجھے پولیس اور سیکورٹی نے کیوں نہیں روکا۔اس حوالے سے نگراں حکومت کی رپورٹ میں فوجی اہلکاروں کی تعریف کی گئی کہ ایسے میں جب فوجی اہلکاروں کی جان کو خطرات لاحق تھے، انہوں نے شرپسندوں کے حملوں پر غیر معمولی تحمل کا مظاہرہ کیا بصورت دیگر تصادم کے نتیجے میں کئی جانوں کا ضیاع ہوسکتا تھا۔

نگراں حکومت کی حالیہ رپورٹ منظر عام پر آنے کے بعد اب یہ ابہام نہیں رہا کہ سانحہ 9 مئی کے واقعات فالس فلیگ آپریشن نہیں بلکہ ایک سوچی سمجھی کارروائی تھی جس کا مقصد ریاست کو دبائو میں لانا، ملٹری اسٹیبلشمنٹ میں بغاوت پیدا کرنا اور آرمی چیف جنرل عاصم منیر کو عہدے سے ہٹانا تھا۔ سانحہ 9 مئی کے بعد بانی پی ٹی آئی نے کبھی کسی مرحلے پر نہ تو ان واقعات سے لاتعلقی کا اظہار کیا اور نہ ہی ان کی کھل کر مذمت کی بلکہ انہوں نے عوام اور پاک فوج کے درمیان دراڑ پیدا کرنے کیلئے حقائق توڑ مروڑ کر پیش کئے۔ آج ایک سال گزرنے کے باوجود 9 مئی کے حملہ آوروں کو کیفر کردار تک نہ پہنچایا جانا سوالیہ نشان اور لمحہ فکریہ ہے جس سے پاکستان کے نظام عدل کی بے بسی ظاہر ہوتی ہے۔ کوئی اور مہذب معاشرہ ہوتا تو ان واقعات میں ملوث ملزمان کو کیفر کردار تک پہنچا دیا گیا ہوتا اور انہیں الیکشن لڑنے کی اجازت نہ دی جاتی اور نہ ہی وزیراعلیٰ بننے کا موقع دیا جاتا تاکہ انہیں وفاق پر حملہ آور ہونے کی جرات نہ ہوتی جس کی مثال امریکہ میں کیپٹل ہل کے حملہ آوروں کو سخت سزائیں دے کر کیفر کردار تک پہنچانا ہے۔ افسوس کہ ریاست پاکستان اور ملک کا نظامِ انصاف ابھی تک اِسی تذبذب کا شکار ہے کہ سانحہ 9مئی کے حملہ آوروں کے خلاف سویلین عدالتوں میں مقدمات چلائے جائیں یا فوجی عدالتوں میں۔ ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس میں جو سخت موقف اور غم و غصے کا اظہار کیا گیا، اس کی وجوہات بھی یہی ہیں کہ وہ پاکستان کے نظام عدل اور عوام کے سامنے اپنا مقدمہ لئے کھڑے ہیں۔ ڈی جی آئی ایس پی آر کا یہ کہنا بجا ہے کہ فوج کے جوان اپنے وطن کی حفاظت کیلئے سینوں پر گولیاں کھارہے ہیں اور قربانیاں دے رہے ہیں لیکن ہماری قربانیوں کا یہ صلہ دیا جارہا ہے کہ ہمارے شہیدوں کی تصویریں جلائی جارہی ہیں، ان کے مجسموں کو توڑا جارہا ہے اور ہمارے میمز بناکر سوشل میڈیا پر مذاق اڑایا جارہا ہے جس سے پاک فوج کی تضحیک ہورہی ہے۔ آئین پاکستان کے تحت اعلیٰ عدلیہ اپنی حفاظت کیلئے فوج طلب کرسکتی ہے اور پاکستان کی تاریخ میں عدلیہ نے اس قانون کے تحت فوج سے مدد بھی طلب کی ہے۔ آج پاک فوج کو اپنی سلامتی کیلئے اعلیٰ عدلیہ سے اِسی طرح کے تعاون کی توقع ہے۔ اُمید ہے کہ عدلیہ، پاک فوج اور قوم کو مایوس نہیں کرے گی۔

بشکریہ جنگ نیوزکالم