265

گانٹھ رہنے دیجئے !

بسا اوقات کسی معاملے کی نشاندہی کسی کی دانست میں تو درست بلکہ ضروری ہوتی ہے مگر انجام کے لحاظ سے تباہ کن ہوتی ہے ۔ کسی ملک میں بادشاہ کے سامنے تین ملزمان کو پیش کیا گیا ۔ بادشاہ کے نزدیک ان تینوں کے جرم کی نوعیت ایسی تھی کہ ان کو تختہ دار پر چڑھادینے کا حکم صادر کیا گیا ۔ان تینوں کو موت کی سزا پر عمل درآمد کیلئے پھانسی گھاٹ پر پہنچا دیا گیا ، پھانسی گھاٹ اس طرح سے بنایا گیا تھا کہ وہاں ایک لکڑی کا تختہ تھا، جوپتھروں کے ساتھ منسلک ایک بلند جگہ سے بندھا ہوا تھااور اس کے ساتھ ایک بڑا پتھر بندھا ہوا ایک چرخی پر موجود تھا ، جب رسی کو کھینچا جاتا اور پھر یکدم چھوڑ دیا جاتا تو پتھر پوری طاقت سےگرتا اور اپنے سامنے آنے والی ہر شے کا کچومر بنا ڈالتا۔ان تینوں سزایافتگان میں سے ایک مذہبی پیشوا، دوسرا قانون دان جبکہ تیسرا فلسفی تھا۔سب سے پہلے مذہبی پیشوا کو سزائے موت دینے کیلئے آگے کیا گیا اور دستورکے مطابق اس سے کہا گیا کہ اپنی آخری خواہش بیان کر ، وہ بولا ، کہ میں موت و حیات کے حوالے سے صرف خدا پر ایمان رکھتا ہوں کہ و ہی بس اس پر قادر ہے ، اور مجھے کچھ کہنا مقصود نہیں ،موت کی چرخی کو کھول دیا گیا تو پتھر نے تیزی سے حرکت کی مگر وہ پتھر مذہبی پیشوا کے سر کے پاس آکر ٹھہرگیا، اس پر سب ہکا بکا رہ گئے کہ اس شخص کے ایمان نے اس کی جان بچالی، اس کو پھانسی گھاٹ سے ہٹا دیا گیا۔اسکے بعد قانون دان کو سزا پر عمل درآمد کیلئے لایا گیا اور اس سے بھی آخری خواہش بیان کرنے کا کہا گیا ، وہ بولا میں اپنی پوری زندگی انصاف کیلئے لڑتا رہا ہوں اور فتح انصاف کے نام ہی ہوتی ہے، اس لیے مجھے یقین ہے کہ میرے ساتھ بھی انصاف ہی ہوگا۔موت کی چرخی کو کھول دیا گیا ، مگرسب دم بخود رہ گئےکہ پتھر اس کے سر کے پاس بھی آ کر رک گیا اور وہ موت سے بچ گیا۔ اب سب کی نظریں فلسفی پر جم گئیں ۔اس سے بھی کہا گیاکہ وہ اپنی آخری خواہش بتا دے مگر اس نے اپنا فلسفہ جھاڑنا شروع کردیا اور کہا کہ میری بات سنو ان دونوں کو جو مجھ سے پہلے لائے گئے تھے اس لئے موت نے نہیں چھوڑا کہ مذہبی پیشوا کیلئے خدا نے کچھ کیا یا قانون دان کو اس کے انصاف کیلئے کی گئی جدو جہد نے بچا لیا بلکہ میں نے جب اس پر غور کیا تو میرے سامنے یہ چیز آئی کہ موت کی رسی کے ایک مقام پر گانٹھ پڑ گئی ہے، جو موت کی چرخی کو مکمل طور پر گھومنے نہیں دیتی، جس کی وجہ سے یہ رسی مکمل طور پر کھل نہیں پا رہی ہےاور اس وجہ سے پتھر ان کا سر نہیں کچل سکا ، فلسفی کی اس نشان دہی پر اس رسی کا معائنہ کیا گیا تواس کی بات درست نکلی ۔ فوری طور پر اس نقص کو ختم کیا گیا ، گانٹھ کھول دی گئی تو پھرپتھر اپنے ہدف کی طرف پوری طاقت سے آیا اور فلسفی اپنے انکشاف سمیت کچلا گیا ۔ عقل مندی اسی میں تھی کہ گانٹھ کو رہنے دیا جاتا تاکہ سر نہ کچلا جا ئے ۔ اسی طرح سے وطن عزیز کے معاشی مسائل کو حل کرنے کی غرض سے بھی آج کل بہت ساری گانٹھوں کی نشان دہی کی جا رہی ہے ۔ مثال کے طور پر بار بار تذکرہ کیا جاتا ہے کہ پاکستان میں مالی مشکلات کی ایک وجہ پنشن کا بوجھ ہے ۔ جنرل مشرف کے دور سے اس کی اکثر تکرار سننے کو ملتی ہے اور اب بجٹ کی آمد آمد ہے اور دوبارہ سے یہی معاملہ سننے کو مل رہا ہے ۔پنشن کا ایسے ذکر کیا جاتا ہے کہ جیسے بس تمام مسائل کی ذمہ دار یہی ہے حالا نکہ یہ ایک سہولت ہے جوریاست اپنے شہریوں کو فراہم کر رہی ہے اور کسی بھی ذمہ دار حکومت کو یہ قطعی طور پر زیب نہیں دیتا کہ وہ عوام سے سہولیات اس نام پر واپس لے کہ ریاست کے اخراجات کو پورا کرنا ہے۔ آج یہ بوجھ لگ رہا ہے تو کل کہہ دیا جائے گا کہ صحت ، تعلیم ، انصاف پر بھی رقم خرچ نہ کی جائے۔ ویسے بھی پنشن سے تو کوئی شکایت نہیں ہوتی مگر ان سہولیات کو فراہم کرنیوالے اداروں سے شکایات کا ہونا روز مرہ کی بات ہے ۔ پنشن کے خلاف مشورے صرف وہی دے سکتے ہیں جن کا ایک وقت کا کھانا کسی کی مہینے بھر کی پنشن سے زیادہ کا ہوتا ہے۔ اس لئے پنشن کی کسی بھی قسم کی کٹوتی کی کسی تجویز کو اہمیت دینے سے حکومت کو اجتناب کرنا چاہئے ۔ اسی طرح سے ورلڈ اکنامک فورم کے اجلاس میں پاکستان کے ٹیکس کے نظام کو زیر بحث لایا گیا اور اس وقت سے سفارتی حلقوں میں یہ گونج سنائی دے رہی ہے کہ اگر پاکستان اپنے ادارہ جاتی معاملات کو بہتر نہیں کر پا رہا تو ایسی صورت میں پاکستان میں سرمایہ کاری کیسے ممکن ہے؟ ویسے اس بات کا بھی خیال رکھنا چاہئے کہ برادر ملک سعودی عرب کی سرمایہ کاری کا اس انداز میں چرچا نہ کیا جائے کہ جیسے اسی سے سب دلدر دور ہو جائیں گے ۔ ایسی عوامی توقعات جب قائم کردی جاتی ہیں تو اس کے بعد عوام یہ نہیں سننا چاہتے کہ فلاں فلاں رکاوٹ کی وجہ سے اس کے ثمرات عوام تک نہیں پہنچ سکے بلکہ وہ یہ گمان کرتے ہیں کہ یا تو حکومت اس پر عمل درآمد کے قابل ہی نہیں تھی یا پھر وہ اس پروپیگنڈے کا شکار ہو جاتے ہیں کہ سب کچھ بد عنوانی کی نذر ہو گیا ہے ۔ اس لئے جب یہ معاہدے ہو جائیں اور انکے ثمرات سے عوام لطف اندوز ہونےلگیں تو پھر ان کا ضرور ڈھنڈورا پیٹ لیجئے ۔ ورنہ یہ گانٹھیں ہی ثابت ہونگی اور گانٹھیں کھولنا نقصان دہ ہوگا ۔

بشکریہ جنگ نیوزکالم