”کرونا “ کہ رنڈی رونا

اس بحث میں پڑے بغیر کہ مصیبت کے دنوں میں گھروں میں اذانیں دینا جائز ہے یا نہیں۔ ہمارے ہاں یہ روایت ضرور ہے کہ زیادہ بارشوں اور سیلاب کے ایام میں خاص طور پر لوگ اپنے گھروں میں اذانیں دیتے ہیں۔ بعض علماءکہتے ہیں کہ احادیث میں اس کا کوئی ثبوت نہیں ملتا البتہ بارش کے لئے دعائیں ضرور کی جاتی ہیں بلکہ بارش برسانے اور رکوانے کے لئے دعائیں کرنے کا حوالہ احادیث میں بھی ملتا ہے۔

موجودہ صورت حال میں جب کرونا وائرس سے متاثرہ مریضوں میں اضافے کی خبریں ملتی ہیں تو لوگوں میں ایک خوف و ہراس کی فضاءمستحکم ہو رہی ہے۔ میڈیا خبر ضرور دے مگر مایوس کن فضاءپیدا کرنے سے اجتناب کرے۔ اگر مریض بڑھ رہے ہیں تو انہی میں سے کئی مریض صحت یاب بھی ہو رہے ہیں۔ سو صحت یابی کی خبروں کو ہیڈ لائن بنانا چاہئے آپ کہہ سکتے ہیں کہ آج اتنی تعداد میں مریض ہسپتال میں داخل ہوئے اور اتنے صحت مند ہو کر ہسپتال سے فارغ ہو گئے۔ مگر ایک مریض بھی وفات پاتا ہے تو ”بریکنگ نیوز“ بنائی جاتی ہے کہ کرونا کا ایک اور مریض چل بسا پاکستان میں تعداد اتنی ہو گئی اور بھر خبریں پیش کرنے والے نیوز ریڈرز خواتین حضرات اتنا اونچا بول کر خبر دیتے ہیں کہ جیسے آسمان گر پڑا ہے۔ خوف و ہراس پھیلانے کے انداز میں چیخ چیخ کر ایسی مایوس خبریں پڑھنا ، کیا اس سے ریٹنگ بڑھتی ہے؟؟۔ اب تو رات دن میڈیا پر کرونا کے علاﺅہ کوئی دوسری خبر نہیں ہے۔ حالانکہ ہسپتال اس سے قبل بھی مریضوں سے بھرے ہوئے تھے۔ ہر روز کسی نہ کسی بیماری میں سینکڑوں مریض جان سے جاتے ہیں۔

یہ رات دن کرونا کا ” رنڈی رونا “ لوگوں میں ڈپریشن پھیلا رہا ہے۔ خبریں ضرور دیں لیکن یہ بھی بتائیں اس سے مرنے والوں کی تعداد اتنی زیادہ نہیں ہوتی۔ اور ہمارے ملک میں تو پانی صاف نہیں ملتا، ہیپاٹائٹس سی کے کتنے ہی مریض مر رہے ہیں۔ خوراک کو ہم مسلمانوں نے خود جعلی بنا لیا ہے۔ آٹا تک خالص نہیں مل رہا۔ دوائیں نا خالص ہیں۔ صحت و صفائی کا ہمارے ہاں مناسب انتظام نہیں لوگ تو کسی نہ کسی صورت مر رہے ہیں۔

ملیریا، ٹائیفائیڈ، پولیو اور ڈینگی جیسی وباﺅں کو بھی ہماری قوم نے بھگتنا ہے۔ مگر ایسا خوف پہلے دیکھنے میں نہیںآیا۔ ایک ڈاکٹر کرکٹر شعیب کو بتا رہا تھا کہ یہ وائرس صاف ستھرے ترقی یافتہ ممالک کے نازک مزاج عوام کو جلد متاثر کر رہا ہے کہ ان کی قوت مدافعت ہم سے کہیں کم ہے کہ وہاں ملاوٹ نہیں ! دوائیں ، غذائیں خالص ہیں انہیں ذرا سا وائرس بھی بیمار کر دیتا ہے، ہمارے ہاں معاملہ مختلف ہے۔ ہم آلودہ پانی پیتے ، خطرناک حد تک ناخالص غذائیں کھا کر بھی زندگی سے نبرد آزما ہیں، ہمیں کرونا سے زیادہ نہیں ڈرنا چاہئے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ صفائی اور اختیاط تو کرنی چاہئے۔ فاصلہ رکھنا بھی بری بات نہیں۔

مگر ہم نے تو کرونا سے خوفزدہ ہونے کے ساتھ ساتھ مذاق بھی بنایا ہوا ہے۔ اذانوں کا سلسلہ شروع ہوا تو نماز پڑھیں دعا کریں نہ کریں ہر شخص نے گھر پر اذانیں دینا شروع کر دی ہیں۔ سکھر سے ہمارے ایک دوست بتا رہے تھے” کہ ان کی مسجد سے رات اذان ہوئی ، وقت دیکھا تو دو بجکر پچیس منٹ ہوئے تھے، ہم نے سمجھا صبح کی اذان ہے بستر چھوڑا پھر وقت دیکھا تو حیرت ہوئی۔ اگلے روز مولانا سے پوچھا تو انہوں نے کہا وہ تو ”اذان مغفرت“ تھی۔ کئی بوڑھے حضرات مولانا کی اس بے وقتی اذان سے پریشان رہے۔ آج تو حد یہ ہے ہو گئی بالکل ہماری چھت سے ملحقہ کھڑکی سے کسی نے منہ نکال کر اذان دینا شروع کر دی ۔گویا ایک نئی اذان کا اضافہ ہو گیا۔۔۔۔

لوگ گھروں میں رہ کر چڑ چڑے ہو چکے ہیں باہر نکلیں تو پولیس انہیں مرغا بنانے میں دیر نہیں لگاتی۔ احمد پور شرقیہ سے ایک دوست بتا رہے تھے کہ اس طرف پولیس بندوں کو مرغا بنانے میں زیادہ آگے ہے۔

چودھری شجاعت نے اچھا بیان دیا ہے جو ہم نے سنا ہے اگرچہ سمجھایا ہمارے ایک دوست نے ہے پس چودھری صاحب کی زبان زیادہ سمجھ نہیں آتی مگر عزیزی اور کچھ فنکار چودھری شجاعت کا مدعا اچھی طرح سمجھ لیتے ہیں ، تا ہم بیان خوب ہے کہ ہمارے وزیر اعظم اورآرمی چیف کو کعبہ اور رسول پر جا کر دعا کرنی چاہئے کہ پاکستانی قوم اس وبا سے نجات پائے۔

دعا کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ ہم سب کو دعا کرنی چاہئے کہ اب ذوالجلال اس وباءسے نجات دے۔ کیونکہ صرف دوا سے کام نہیں چلتا دعا بھی ضروری ہے۔ کیونکہ کرونا کی دوائیں اور نسخہ جات تو ہمارے ہاں بیماروں سے زیادہ ہیں۔ آپ جس سے بھی بات کریں گے آپ کو کرونا سے نجات کا نسخہ عنایت کر دے گا۔ ایک درخواست ہے۔ قانون نافذ کرانے والے باہر نکلنے والوں کی تذلیل نہ کریں بلکہ انہیں بے شک جرمانہ کر دیں۔ اور گھر جانے کی راہ دکھائیں۔ قوم کو ”مرغا“ نہ بنائیں۔

بشکریہ روزنامہ آج