پشاور یونیورسٹی کی انتظامیہ نے جب اصلاح احوال کے ارادے سے ڈنڈا اٹھا لیا اور انتظامیہ کی رٹ قائم کرنے کی کوشش میں ابتدائی اقدام کے طور پر مارکیٹوں سے تہہ بازاری اور ریڑھوں ٹھیکوں کو ہٹانے کے کام کی ستائش اپنے نام کرلی تو مزید اقدامات کی راہ میں مقامی سیاست کے ساتھ ساتھ بعض دیگر لوگ بھی مخالفت میں سامنے آگئے‘اب کیا کریں جبکہ اعظم جان لالہ جیسے سکیورٹی افسر اور اجمل خان اور پروفیسر امتیاز جیسے پرووسٹ کو لانا ممکن نہیں جنہوں نے کیمپس سے ہرنوع کی ہلڑ بازی کو نکال باہر کیا تھا اور ہاسٹل مافیا کو بھی سیدھی راہ دکھائی تھی‘اگرچہ موجودہ ایڈمن ڈائریکٹر ایک سلجھے ہوئے پروفیسر اور اصول پسند شخص ہیں لیکن ان کی سعی اور اصلاحی اقدامات کا نتیجہ تو تب قابل دید ہوگا جب یونیورسٹی کے وائس چانسلر‘ رجسٹرار اور پرووسٹ ریت کی دیواریں ثابت نہ ہوں اور ساتھ ہی کیمپس پولیس بھی یونیورسٹی میں تعلیمی ماحول کی بحالی اپنا فریضہ سمجھے‘المیہ تو یہ ہے کہ اس ملک میں دباؤ اور مداخلت کا کوئی جواب کوئی توڑ نہیں اور پھر جب مجریہ 2016ء جیسا ایکٹ بھی درمیان میں موجود ہو جس نے یونیورسٹی کے وائس چانسلر سمیت پوری انتظامیہ کے ہاتھ پاؤں باندھ لئے ہوں تو ایسے میں تو انتظامیہ کے حق میں صرف دعا اور تعلیمی ماحول کی بحالی کی محض خواہش کی جا سکتی ہے‘ یہی وجہ ہے کہ یونیورسٹی کیمپس غیر رجسٹرڈ اور ناقابل استعمال رکشوں‘ ٹیکسی اور پک اینڈ ڈراپ گاڑیوں جبکہ ریس سکریچنگ اور ون ویلنگ والی گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کیلئے علاقہ غیر بن گیا ہے‘ اب اس کا کیا جواب اور کیا جواز ہے‘ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ اس صورتحال کو کیپٹل ٹریفک پولیس نے بھی نظر انداز کررکھا ہے خیبرمیڈیکل کالج کی پک اینڈ ڈراپ بسوں کے ڈرائیوروں نے صبح اور دوپہر کے وقت پک اینڈ ڈراپ کے دوران یونیورسٹی کے روڈ نمبر2کے ہر چوراہے پر پہنچنے سے قبل پریشر ہارن کا بے تحاشہ استعمال اپنے اوپر واجب کردیا ہے شہر کے تمام تر ممنوعہ ٹو سٹروک اور دوسرے غیر رجسٹرڈ رکشوں نے یونیورسٹی کو اپنی آماجگاہ میں تبدیل کر دیا ہے‘گرلز رکشوں ٹیکسیوں اور پک اینڈ ڈراپ گاڑیوں کے اڈے انتظامیہ اور پولیس دونوں کے لئے لمحہ فکریہ ہیں‘ اب تو حالت اس قدر بگڑ گئی ہے کہ یونیورسٹی کے بہت سے مالی اور چوکیدار حضرات جب ڈیوٹی پر کھڑے ہوتے ہیں تو رکشہ یا ٹیکسی گاڑی بھی ڈیوٹی کی سائٹ میں کھڑی نظر آتی ہے‘ ایک وقت تھا کہ پشاور یونیورسٹی میں سیاست بازی اور سیاسی بڑوں کا آنا معیوب سمجھا جاتا تھا بلکہ ممنوع تھا مگر یہ اس زمانے کی بات ہے جب عبدالعلی خان وائس چانسلر تھے اب تو سیاسی جماعتوں کے ذیلی طلباء گروپ اس معاملے میں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی دوڑ میں رہتے ہیں اور عجب یہ کہ ایسے سیاسی بڑوں کا خیر مقدم بھی کیا جاتا ہے یہ تلخ پہلو اب بھی غور طلب ہے کہ گزشتہ ایک عشرے کے دوران ہماری تعلیم اور تعلیمی ادارے ہر لحاظ سے جس قدر ابتری کا شکار ہوگئے ہیں یہ حالت ایک المیہ کے طور پر یاد رکھی جائے گی۔