پاکستان میں غالباً2005ء میں پہلی بار عالمی یوم معلم کا اہتمام کیا گیا‘اس وقت کے وزیراعظم کنونشن سنٹر اسلام آباد میں اساتذہ کی منعقدہ تقریب میں مہمان خصوصی تھے موصوف نے اساتذہ کیلئے ون سٹیپ اپ گریڈیشن کا اعلان کیا مگر وہ نہ صرف یہ کہ پروموشن بن گیا بلکہ یکساں بھی نہ رہا مطلب کالجزکے ٹیچرز تو وہی گریڈ17 میں رہے البتہ یونیورسٹیوں کے کالجز کے اساتذہ ون سٹیپ اپ گریڈیشن کی بجائے پروموٹ ہو کر لیکچرار کا گریڈ17 سے 18ہوگیا‘یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔ جواب طلب سوال تو یہ ہے کہ یونیورسٹی کے کالج اور صوبائی حکومت کے کالج کے لیکچرر میں کیا تعلیمی اہلیت کا کوئی فرق ہے؟ یا آدھا تیتر آدھا بٹیر والی اس پالیسی کی وجوہات کچھ اور ہیں؟ اسی طرح یونیورسٹی میں جو لیکچرر گریڈ18 میں بھرتی ہو جاتا ہے تو اس کی پروموشن یعنی گریڈ19میں اسسٹنٹ پروفیسر بننے کیلئے وقت یعنی عرصے اور اہلیت کی شرائط کا تعین بھی قواعد و ضوابط میں واضح طور پر طے ہے مگر کیا کہئے کہ پشاور یونیورسٹی میں خواتین سمیت درجنوں ایسے لیکچرر موجود ہیں جو کہ عرصہ آٹھ دس سال سے لیکر پندرہ سولہ سال سے پی ایچ ڈی ہونے اور ریسرچ پیپرز اور بہترین تدریسی کارکردگی کے ریکارڈ کے باوجود لیکچررہی رہے ہیں‘ انہوں نے اگرچہ وقتاً فوقتاً اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا اساتذہ انجمن کے سالانہ الیکشن میں حمایت کیلئے شرائط بھی پیش کیں جبکہ وائس چانسلر اور رجسٹرار اور ملنے کی سیریز بھی مکمل کرلی مگر مسئلہ تاحال جوں کاتوں ہے‘ہاں البتہ موجودہ وائس چانسلر سے یہ توقع وابستہ کی گئی ہے کہ وہ مسئلے کو حل کرینگے کیونکہ یونیورسٹی سنڈیکیٹ نے ان محرومین کی ترقی سے جڑے امور کو جانچنے اور پرکھنے کیلئے جو کمیٹی تشکیل دی گئی تھی‘ اس نے اپنی رپورٹ سنڈیکیٹ کے سامنے رکھ دی اور وہ منظور بھی ہوگئی اب دیکھنا یہ ہے کہ یونیورسٹی کے جن تدریسی شعبہ جات سے ان لیکچررز کا تعلق ہے وہاں پر اسسٹنٹ پروفیسر کی کتنی اسامیاں خالی ہیں؟ ضرور خالی ہوں گی بلکہ ممکن ہے کہ ان میں سے بعض ایسوسی ایٹ پروفیسر بننے کی اہلیت کے بھی حامل ہوں یونیورسٹی میں ٹیچرز ایسوسی ایشن کی کوشش سے غالباً2018ء میں اساتذہ کی ترقی کیلئے باقاعدہ تشہیر کے بعد گزشتہ سال کے دوران کوئی ترقی اور تقرری نہیں ہوئی‘ حالانکہ اس دوران بہت سارے پروفیسر اور دوسرے اساتذہ اپنی مدت ملازمت مکمل کرکے سبکدوش ہوئے مگران کی جگہ پرنہیں ہوئی‘یہی وجہ ہے کہ یونیورسٹی اساتذہ کی تعداد پیوٹا ممبر شپ ریکارڈ کے مطابق سات سے کم ہو کر اب پانچ سو کے کچھ اوپر رہ گئی ہے‘ یونیورسٹی لیکچررز کی محرومی کی جو وجوہات سامنے ہیں ان میں حکومتی پابندی‘ مالی وسائل کا فقدان اور یونیورسٹی انتظامیہ کی منصوبہ بندی کانہ ہونا یا ناقص ہونا سرفہرست بتائی جاتی ہیں‘ یونیورسٹی کے تدریسی اور غیر تدریسی ملازمین اور طلباء کی توقعات کے مطابق اگرجامعہ کے حالیہ سنڈیکیٹ سیشن میں ہونیوالے فیصلوں پر عملدرآمد ہو سکے تو جامعہ میں ہر لحاظ سے بہتری واقع ہو سکتی ہے یونیورسٹی میں اصلاح احوال کی مہم میں انتظامیہ اور اساتذہ کی یکجہتی اگرچہ باعث اطمینان ہے لیکن تعلیمی ماحول کی بحالی کی کوششوں کی مخالفت میں سیاسی طلباء‘یونیورسٹی کے بعض اپنے کلاس تھری اور کلاس فورملازمین اور باہر کے سیاسی عناصر کا کھڑا ہونا یقینا باعث تعجب اور مایوس کن ہے کیونکہ یہ امربلاشک و شبہ طے ہے کہ یونیورسٹی کو مسائل کی دلدل سے نکالنا‘ تعلیمی ماحول کی بحالی اور ملازمین کے مسائل حل کرنا اکثر مقصود ہو تو سب کو ایک پیج پر آکر باہر سے سیاسی مداخلت کی راہ کو مسدود کرنا ہوگا کیا یہ بات درست نہیں کہ یہ ایک درسگاہ ہے نہ کہ کوئی مارکیٹ‘ پبلک ٹرانسپورٹ اڈا یا جی ٹی روڈ ہے‘ تعلیمی ماحول کی بحالی اور ہر نوعیت کی ہلڑ بازی اور بے راہ روی کا خاتمہ محض یونیورسٹی انتظامیہ اور ٹیچرز کمیونٹی کا کام نہیں بلکہ ایک مشترکہ ذمہ داری ہے۔