یہ کفایت شعاری کیا ہوتی ہے؟

 سرکاری جامعات بالخصوص پرانی یونیورسٹیاں اگر حکومت کی یہ بات سنجیدگی سے لے لیں کہ اپنے لئے ذرائع آمدن ڈھونڈ لیں تو ممکن ہے کہ محدود ذرائع سے بھی اپنی موجودہ مالی ابتری میں قدرے بہتری ممکن بنا سکیں‘ اس میں سب سے پہلے تو اخراجات کو کم کرنا ہوگا اس کا مطلب یہ نہیں کہ ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں کٹوتی کردیں مگر یہ تو ممکن ہے کہ بجلی‘ گیس‘ تیل اور گاڑیوں پر اٹھنے والے اخراجات کوکسی حد تک کم کیا جائے۔ سرکاری یونیورسٹیوں میں نئی تو خیر کیا بلکہ کافی پرانی یونیورسٹیاں بھی موجود ہیں‘ جہاں پر الگ نام سے کوئی فیکلٹی ہے اور نہ ہی ڈین کی موجودگی ضروری سمجھی جاتی ہے‘ مثال کے طور پر اسلامیہ کالج پشاور جو ملک کی سب سے قدیم درسگاہ ہے لیکن اخراجات میں کفایت شعاری اور ملازمین کی مناسب تعداد جب کہ ڈرینز کی عدم موجودگی کے سبب دوسری یونیورسٹیوں سے مالی اور انتظامی دونوں لحاظ سے کہیں بہتر چل رہا ہے یہاں تک کہ پشاور یونیورسٹی سمیت دوسری پرانی یونیورسٹیاں نہ صرف یہ کہ تنخواہیں اور پنشن مقررہ تاریخ پردے سکتی ہیں بلکہ کروڑوں روپے بقایا جات کے بوجھ تلے بھی دبی ہوئی ہیں۔میرے نزدیک تو سمجھتے کیلئے یہ بات بالکل مشکل نہیں کہ جامعہ پشاور میں چلنے والی درجنوں گاڑیوں میں سے نصف سے زیادہ ڈینز صاحبان اور انتظامی افسران کے زیر استعمال میں جبکہ ہر گاڑی کے ساتھ ڈرائیور کی خدمات بھی دی گئی ہیں‘ اب سوال یہ ہے کہ ان میں سے جو ڈین اور انتظامی افسر یونیورسٹی کیمپس ہی میں  سرکاری گھر میں رہائش پذیر ہیں تو آیا انہیں بھی گاڑی کی ضرورت ہے؟ اسی طرح نصف سال سے زائد عرصہ ائر کنڈیشنڈ کا بے تحاشہ استعمال اور سردیوں میں گیس کے بھاری بل جیسے اخراجات کو کم نہیں کیا جاسکتا؟ جہاں تک اپنے ذرائع آمدن پیدا کرنے کی بات ہے تو اسلامیہ کالج اور پشاور یونیورسٹی کی جائیداد زرعی اور کمرشل دونوں کو قبضہ مافیا سے واگزار کرنے میں حکومت نے ان دونوں قدیم درسگاہوں سے کتنا تعاون کیا اور کس حد تک ساتھ دیا ہے؟ میرے نزدیک تو اسلامیہ کالج اور پشاور یونیورسٹی کے ان ذرائع آمدن کو اگر حکومت کے تعاون سے واگزار کیا جائے تو تھوڑے ہی عرصہ میں دونوں یونیورسٹیاں مالی ابتری کی دلدل سے نکل سکتی ہیں۔ یہ بات اپنی جگہ کہ اسلامیہ کالج کی مالی حالت پشاور یونیورسٹی جیسی حد درجہ ابتر نہیں لیکن تعلیمی ترقی‘ جدت اور نئے پروگرامات تو شروع ہو سکتے ہیں۔مافیا کے زیر قبضہ جائیداد کو چھوڑ کر پشاور یونیورسٹی میں ایسے چھوٹے چھوٹے دوسرے ذرائع آمدن بھی موجود ہیں جن سے استفادہ نہ ہونا ناشکری کے زمرے میں آتا ہے۔ مثال کے طورپر ہزاروں نارنج کے درختوں پر لگے نارنج ہر سال ضائع کئے جاتے ہیں جب کہ سینکڑوں جامن کے درخت ہر سال آؤٹ سائیڈر توڑ کر لے جاتے ہیں۔ اسی طرح یہ خود احتسابی بھی ضروری ہوگی کہ جس دور میں پشاور یونیورسٹی پورے صوبے اور فاٹا کی واحد جامعہ تھی اس وقت ملازمین کی تعداد کتنی تھی اور اب جبکہ صوبے میں یونیورسٹیوں کی تعداد32 تک پہنچ گئی ہے اور پشاور یونیورسٹی سکڑ کر کیمپس کے روڈ نمبر2 تک محدود ہوگئی ہے‘ اب یہ تعداد کتنی ہے؟ الغرض اگر جامعہ کو قائم رکھنا اور تعلیم کا سلسلہ جاری رکھنا مقصود ہو تو خود احتسابی‘ کفایت شعاری اور اصلاحات کی جانب متوجہ ہونا پڑے گا‘ بصورت دیگر  موجودہ مالی ابتری‘ حکومتی گرانٹ کی راہ تکنے اور بقایا جات کے بوجھ تلے دبے رہنے میں کوئی کمی‘کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ اب بھی وقت ہے کہ اپنے لئے ذرائع آمدن پیدا کرنے پر توجہ مرکوز کرکے حکومتی گرانٹ پر انحصار کم سے کم کیا جائے۔پشاور یونیورسٹی کا مین جمرود روڈ سے متصل گرین بیلٹ جو کہ عرصہ سے ہیروئنچیوں  کی آماجگاہ بنا رہا ہے‘یونیورسٹی کے لئے آمدن کا سب سے بڑا ذریعہ ثابت ہو سکتا ہے‘یہ ایک ایسا ذریعہ ہے جس کیلئے یونیورسٹی کو سرمایہ کاری کی ضرورت بھی نہیں پڑے گی‘بلکہ بڑے بڑے ملٹی نیشنل کمپنیوں اور فرمز اور کاروباری حلقوں کی ایڈوانس ادائیگی ہی سے منصوبے کی تکمیل ممکن ہو جائے گی‘میرے خیال میں اب اس سوچ کو ترک کرنے کا وقت آگیا ہے کہ حکومت کی گرانٹ آئے گی اور یونیورسٹی کے اخراجات پورے ہونگے اور اگر ایسانہ ہو تو پھر تالہ بندی کی طرف جائیں گے کیونکہ یونیورسٹیاں چلانا اور ملازمین کو تنخواہیں دینا حکومت کی ذمہ داری ہے۔

بشکریہ روزنامہ آج