35

احتجاج ملتوی کرنے کی کہانی

تحریک انصاف نے ’’ایس سی او‘‘ کانفرنس کے موقع پر اپنے احتجاج کو منسوخ کر دیا ہے۔ پہلے یہ کہا گیا کہ اگر بانی تحریک انصاف سے ملاقات کرا دی جائے تو احتجاج ملتوی کردیا جائے گا لیکن ہم حکومت نے یہ مطالبہ یا شرط تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ اس مطالبے یا شرط کی تکمیل کے لیے بیرسٹر گوہر نے وزارت داخلہ کو ملاقات کی د رخواست بھی دی لیکن اجازت نہیں ملی۔

 

پہلے یہ خبر آئی کہ حکومت ملاقات کرانے کے لیے تیار ہے۔ لیکن بعد میں پی ٹی آئی پر واضع کردیا گیا کہ ایک قیدی کی سہولت کے لیے ملاقات نہیں کرائی جاسکتی ہے۔ جب سب قیدیوں کی ملاقات بند ہے تو ایک قیدی کے لیے رول تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ اس کو احتجاج کی وجہ بنایا گیا ۔ تحریک انصاف نے جواز بنایا کہ وہ شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کے موقع پر احتجاج نہیں کرنا چاہتی۔ لیکن چونکہ حکومت نے بانی پی ٹی آئی سے ملاقات پر پابندی لگا رکھی ہے،اس لیے پارٹی احتجاج کرنے پر مجبور ہے۔ ملاقات کرا دی جائے تو احتجاج نہیں ہوگا۔

ملاقات سے انکار کے بعد تحریک انصاف کی نئی شرط سامنے آئی کہ انھیں خدشہ ہے کہ بانی تحریک انصاف کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے لہٰذا ذاتی معالج کو ان کا طبی معائنہ کرنے کی اجازت دی جائے، اس کے ساتھ ہی شوکت خانم اسپتال سے بانی تحریک انصاف کے ایک ذاتی معالج کو جیل کے باہر پہنچا بھی دیا گیا۔

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

 

 

اب یہ بیانیہ بنایا گیا کہ چونکہ بانی تحریک انصاف کی طبعیت خراب ہے ، حکومت انھیں علاج کی سہولت نہیں دے رہی، اس لیے ہم احتجاج کرنے پر مجبور ہیں۔ ایک دن ملاقات کو احتجاج کی وجہ بنایا گیا پھر دوسرے دن ذاتی معالج تک رسائی کو احتجاج کی وجہ بنایا گیا۔ بار بار کہا گیا ، ڈاکٹر کو ملنے دیا جائے، ہم سب کی تسلی ہو جائے گی کہ ہمارا لیڈر ٹھیک ہے، پھر ہم احتجاج نہیں کریں گے۔ لیکن اگر حکومت ذاتی معالج تک رسائی نہیں دے گی تو ہم احتجاج کرنے پر مجبور ہوںگے۔

تحریک انصاف کے حامی دوست ایس سی اوکے موقع پر تحریک انصاف کے احتجاج کو غلط کہتے رہے وہاں وہ یہ بھی فرماتے تھے کہ اگر تحریک انصاف حماقت کر رہی ہے تو پھر حکومت کو تحریک انصاف کی حماقت کا جواب حماقت سے نہیں دینا چاہیے۔

حکومت کو لچک دکھانی چاہیے۔ یہ دوست یہ نہیں کہہ رہے تھے کہ ایسی حماقت کی کوئی گنجائش نہیں ہونی چاہیے۔ تحریک انصاف کو یک طرفہ طو رپر غیر مشروط اپنے احتجاج کی کال واپس لینی چاہیے۔ لیکن ان کا موقف تھا کہ اب چونکہ تحریک انصاف نے احتجاج کی کال دے دی ہے، چاہے غلط ہی دے دی ہے، اس لیے اب ان کی کوئی نہ کوئی شرط مانی جائے۔ دوسری طرف شاید حکومت نے اس دفعہ کوئی بھی شرط نہ ماننے کا فیصلہ کیا ہوا تھا۔

 

حکومت نے جب تحریک انصاف کے ذاتی معالج کو ملنے کی شرط ماننے سے بھی انکار کر دیا، تو بات ڈیڈ لاک کی طرف چلی گئی۔ ایسے میں حکومت کی طرف سے یہ پیشکش سامنے آئی کہ ایک سرکاری ڈاکٹر سے بانی تحریک انصاف کا معائنہ کرایا جا سکتا ہے۔

حکومت کا موقف ہے کہ اگر کسی بھی قیدی کی طبیعت خراب ہو یا اس بات کا امکان ہو کہ قیدی کی طبیعت ٹھیک نہیں تو سرکاری ڈاکٹر معائنہ کرتا ہے۔ اس لیے صبح ایک سرکاری ڈاکٹر بانی تحریک انصاف کا معائنہ کرے گا۔ ذاتی معالج کی سہولت نہیں دی جا سکتی۔ بہر حال تحریک انصاف نے بادل نخواستہ حکومت کی یہ پیشکش بھی مان لی اور احتجاج ملتوی کرنے کا اعلان کر دیا۔

اس احتجاج کے حوالے سے ایسی خبریں بھی سامنے آئی ہیں کہ تحریک انصاف کے اندر بھی تقسیم تھی۔ ہوش مند سیاستدان اس کو غلط کہہ رہے تھے لیکن پارٹی کا سوشل میڈیا ونگ اس کو جائز قرار دے رہا تھا۔ ان کی رائے تھی کہ حکومت کو شرمندہ کرنے اور کمزور کرنے کا یہ بہترین موقع ہے۔ اس تقسیم کی بہت خبریں سامنے آئیں۔ یہ بھی کہا گیا کہ احتجاج کے لیے فنڈز نہیں ہیں۔ گنڈا پور بھی پشاور سے کوئی لشکر لے کر اسلام آباد ڈی چوک جانے کے لیے تیار نظر نہیں آئے۔ پنجاب میں تو پہلے ہی کوئی قیادت نہیں۔ اسی لیے حکومت کو اندازہ تھا کہ تحریک انصاف اندر سے تقسیم ہے۔ اس لیے اس احتجاج کی کوئی اہمیت نہیں ہوگی۔ تحریک انصاف کے اندر گروپنگ تھی، حکومت بھی لچک نہیں دکھا رہی تھی۔

 

حکومتی حلقوں میں ایک رائے یہ بھی تھی کہ اگر ایس سی او کے انعقاد سے بلیک میل ہو کر آج تحریک انصاف کی شرائط مانی جائیں گی تو کل کسی بھی اہم موقع پر کوئی گروہ اپنی شرائط سامنے رکھ دے گا۔ اور پھر کہا جائے گا کہ چونکہ آپ نے تب تحریک انصاف کی شرائط ما نی تھیں لہٰذا اب ہماری شرائط بھی مانی جائیں۔ ایک رائے یہ بھی تھی کہ اس بار اگر تحریک انصاف کی شرائط مانی گئیں تو عالمی سطح پر بھی منفی تاثر جائے گا۔ عالمی سطح پر یہ پیغام جائے گا کہ بیرون ملک سے آنے والے سربراہان مملکت کی آمد پر امن کی ضمانت تحریک انصا ف ہی دے سکتی ہے۔

اس لیے جب بیرون ملک سے مہمان آئیں گے تو تحریک انصاف سے پوچھاجائے گا کہ آپ احتجاج تو نہیں کریں گے۔ بیرونی مہمان اپنی آمد پر امن کا این او سی تحریک انصا ف سے حاصل کرنے کی کوشش کریں گے۔

 

اس لیے اگر آج کوئی شرط مانی گئی تو یہ ایک غلط روایت پیدا ہو اجائے گی۔ امن قائم رکھنا ریاست اور حکومت کی ذمے داری ہے۔ ایسی اہم مہمانان کی آمد کے موقع پر امن کی بلیک میلنگ نہیں ہو سکتی۔ امن بلیک میل ہو کر حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ امن قائم رکھنا حکومت کی بنیادی اور پہلی ذمے داری ہے۔ حکومت اپنی ذمے داری پورے کرے۔ لیکن حکومت میں ایسے لوگ بھی تھے جو مفاہمت کی بات کر رہے تھے، ان کا موقف تھا کہ تحریک انصاف سے نبٹنے کے لیے بہت مواقع ہوںگے، ابھی وقت کی نزاکت کو سمجھا جائے۔

بہر حال تحریک انصاف نے سرکاری ڈاکٹر سے معائنہ کی شرط پر ہی احتجاج ملتوی کر دیا ہے۔ جس سے یہ تاثر مل رہا ہے کہ وہ احتجاج ملتوی کرنا چاہتے تھے۔ انھیں اندازہ تھا کہ ان سے غلطی ہو گئی ہے، شنگھائی تعاون تنظیم کے اہم اجلاس کے موقع پر احتجاج نہیں کیا جانا چاہیے ، لیکن بھاگنے کا راستہ نہیں مل رہا تھا۔ حکومت کو اندازہ تھا کہ تحریک انصاف بھاگ جائے گی۔

 

اس لیے کوئی بڑی شرط ماننے کی کوئی ضرورت نہیں۔ یہ مضبوط اعصاب کا کھیل تھا۔ حکومت نے آخر تک اعصاب مضبوط رکھے اور تحریک انصاف بھاگ گئی۔ میری رائے میں یہ تحریک انصاف کی سیاسی شکست ہے۔ انھوں نے احتجاج کی کال دے کر ایسی سیاسی غلطی کر دی تھی کہ اگر احتجاج کرتے تو بھی مرتے اور نہ کرتے تو بھی مرتے۔ البتہ احتجاج نہ کرنے کا جتنا نقصان تھا ، احتجاج کرنے میں نقصان بہت زیادہ تھا، حکومت ان کی اس مشکل کا فائدہ اٹھا رہی تھی۔

اب یہ سوال بھی اہم ہے کہ کیا ایس سی او کانفرنس کے بعد احتجاج ہوگا۔ کیا اس کی وہ اہمیت و شدت ہوگی جو ایس سی او کانفرنس کے موقع پر احتجاج کی تھی۔ اگر پی ٹی آئی احتجاج کرتی اور نتیجے میں کانفرنس نہ ہوپاتی یا ہوتی بھی تو عالمی لیڈر مایوس واپس جاتے تو اس کا پاکستان اور حکومت کو کتنا نقصان ہوتا، اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے لیکن اب صورتحال مختلف ہوگی ، اگر پی ٹی آئی احتجاج کرے گی تو حکومت روایتی سختی کرے گی۔ لڑائی ہوگی ، گھیراؤ جلاؤ ہوگا، پھر گرفتاریاں ہوںگی، مقدمات درج ہوں گے، سزائیں ہوں گی لہٰذا اب تحریک انصاف کو اچھی طرح پتہ ہے کہ ڈی چوک جانے کا اعلان کرنا اتنا آسان نہیں ہوگا۔

 

بشکریہ ایکسپرس