ایک اعشاریہ پانچ فی صد بجٹ کی تعلیم

ہو سکتا ہے کہ اس سے بڑا المیہ کوئی اور نہ ہو کہ ہمارے ہاں تعلیم کیلئے پیسے نہیں‘دنیا کے خود کفیل ممالک میں ایسی یونیورسٹیاں بھی ہیں جن کا سالانہ بجٹ یا اخراجات ہمارے ایک صوبے کے بجٹ سے زیادہ ہوا کرتے ہیں‘یہ وہی درسگاہیں ہیں جو اپنے ملک و قوم کے مسائل و مشکلات کا عملی اور تحقیقی بنیاد پر حل ڈھونڈتی ہیں‘ ایجادات کرتی ہیں اور یوں ملک کی معاشی و اقتصادی ترقی‘ سائنسی و تکنیکی  پیش رفت اور چیلنجز سے نمٹنے میں رہنما کردار کی حامل ہوتی ہیں لیکن ہمارے ہاں ایسا کچھ بھی تاحال سامنے نہیں آیا ملک کی قدیم درسگاہ کے شعبہ علوم ماحولیات‘ ادویات‘ طبیعات اور نباتات میں ہر سال درجنوں سکالرز ایم فل اور بی ایچ ڈی کی تحقیق مکمل کرکے فارغ ہو تے ہیں‘ ماحولیاتی مسائل اور ان کے منفی اثرات‘ امراض‘ ماحولیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے طریقہ کار کی علمی‘ تحقیقی اور تجرباتی بنیادوں پر نشاندہی کرلیتے ہیں مگر آج تک اس سے کوئی استفادہ نہیں کیا گیا‘ جامعہ پشاور کے شعبہ ماحولیات نے امریکہ کی پروڈور یونیورسٹی کے تعاون سے دریائے کابل اور دریائے سوات کے پانی میں روز افزوں بڑھنے والی آلودگی یعنی ثقافت پر تحقیقی پراجیکٹ مکمل کیا‘ چار ایم فل اور پی ایچ ڈی سکالرز کو سکالر شپس ملیں‘ تحقیق سے معلوم ہوا کہ دونوں دریاؤں کا پانی‘ مضافاتی آبادی‘ صنعتی یونٹوں کے آلودہ پانی اور فضلہ جات کی وجہ سے اس قدرکثیف ہوگیا ہے کہ مچھلیوں کی بڑی تعداد میں نر اور مادہ کا فرق ختم ہو چکا ہے جبکہ اکثریت اندھی بھی ہو چکی ہے جامعہ کے مذکورہ لائف اینڈ انوائرمنٹل سائنسز کے شعبہ جات میں ہونے والی تحقیق میں تجزیئے اور لیب تجربات بھی شامل ہوتے ہیں‘ سکالرز اپنی رپورٹس متعلقہ حکومتی اداروں کو عمل درآمد کیلئے بھجواتے ہیں مگر عملدرآمد کا خانہ ہمیشہ سے خالی رہا ہے‘ وجہ صرف یہ ہے کہ ہمارے ہاں تعلیم کیلئے پیسے نہیں ہیں مگر اس کے باوجود ارباب اختیار کا اصرار یہ رہا ہے کہ یونیورسٹیاں اپنے خرچ اپنے اخراجات کیلئے پیسے خود پیدا کریں‘ محض ایک اعشاریہ پانچ فیصد بجٹ سے اگر ملک کی کئی ہزار یونیورسٹیاں کالجز اور سکول نہیں چل سکتے‘ ملک کے تعلیمی نظام کا چلنا ممکن نہ ہو تو یہ ایک مسئلہ تو ضرور ہوگا مگر حل کیلئے کوئی بھی ہماری طرف نہ دیکھے کیونکہ حکومت تو پارلیمنٹ‘ کیبنٹ‘ اداروں اور پروٹوکول کے اخراجات سے بھی اس قدر عاجز ہے کہ70 ہزار ارب روپے عالمی مالیاتی اداروں کی مقروض ہو چکی ہے جامعہ کے ہمارے ایک دوست شاعر ادیب پروفیسر یاسین اقبال اعلیٰ تعلیمی کمیشن کے ایک پروگرام کے تحت شعبہ فزکس یا طبیعات میں ایک عشرے سے زیادہ عرصہ تحقیق میں لگے رہے کئی ایم فل اور پی ایچ ڈی سکالرز پیدا کئے لیبارٹریاں بنائیں اور ترقی یافتہ ممالک کی ریسرچ لیبارٹریوں اور تحقیقی اداروں اور ماہرین کا تعاون حاصل کرتے رہے جدید طبیعاتی تحقیق پر کتابیں بھی لکھیں لیکن حکومت اور جامعہ دونوں نے اس سے کوئی استفادہ نہیں کیا‘یونیورسٹی کی ناکامی کی وجہ توخیر نظر آرہی ہے کہ مالی مسائل سے محروم ہے مگر باعث تاسف امر یہ ہے کہ ہماری حکومتوں نے کبھی بھی اس جانب کوئی توجہ نہیں دی یہی وجہ ہے کہ جب وباء پھوٹ پڑتی ہے تو پھر ویکسین کیلئے ہمیں کئی مہینے دوسرے ممالک کی طرف دیکھنا پڑتا ہے اگر جنیات‘ طبیعات‘ مہلک امراض اور ماحولیاتی آلودگی جیسے گھمبیر مسائل کے حل میں محض جامعہ پشاور میں ہونیوالی تحقیق کو عملی جامعہ پہنایا جاتا تو بلاشبہ نہایت مفید نتائج برآمد ہوتے ہمارے ہاں پائے جانے والا خام مال‘ قدرتی وسائل یا معدنیات اور پانی جیسی بیش بہا نعمت مسلسل ضائع ہو رہی ہے مہلک امراض کی ادویات‘ ویکسین اور بائیو ٹیکنالوجی میں استعمال ہونے والے آلات کیلئے ہم دوسروں کی امداد اور ایجادات پر تکیہ کرکے بیٹھے ہیں تعلیم و تحقیق کیلئے وسیع تر سرمایہ کاری تو دور کی بات آٹے میں نمک کے برابر گرانٹ کو بھی مسلسل گھٹایا جارہا ہے‘ قصہ کوتاہ یہ کہ اس موجودہ برائے نام تعلیمی بجٹ‘ تعلیمی پالیسی اور حیران کن عدم توجہی کے ہوتے ہوئے یہ بات ہر گز بے جا نہ ہوگی کہ ہماری تعلیم‘ تعلیمی اداروں اور اس اسلامی اور نظریاتی جمہوری ملک کے باسیوں کا کیا حال ہوگا۔

 

بشکریہ روزنامہ آج