”ئہنوز دلی دور است“

محض رکشہ سروس پر پابندی عائد ہونے سے کیمپس میں تعلیمی ماحول قائم نہیں ہوگا بلکہ مزید اصلاحی اقدامات بھی ناگزیر ہیں مگر اس کیلئے یونیورسٹی انتظامیہ کیساتھ یونیورسٹی کیمپس کے دوسرے تمام تعلیمی اداروں اور کیمپس پولیس کا اشتراک عمل لازمی ہوگا‘ رکشہ سروس کو ممنوعہ قرار دینے کے ساتھ ہی یونیورسٹی میں غیر قانونی پرائیویٹ ٹیکسی گاڑیوں کی بھرمار دیدنی ہوگئی ہے‘ ساتھ ہی سبز ہیلمٹ والے ٹیکسی بائیک رائیڈر نے بھی کیمپس کے ہر چوراہے پر قبضہ جمالیا‘یہ ایک نیا اضافہ ہے گرلز ہاسٹلوں اور گھروں کی دہلیز پر پک اینڈ ڈراپ گاڑیوں کے ہجوم میں کوئی کمی تا حال دیکھنے میں نہیں آئی‘ایک سوال یہ بھی ہے کہ ان گاڑیوں میں قابل استعمال گاڑیاں کتنی ہیں؟ یہ ایک بڑا رسک ہے‘ مگر انتظامیہ اور پولیس اسے نظر انداز کر رہی ہے‘ ایسی ہی گاڑیوں میں سلنڈر پھٹنے کے واقعات کیا کوئی ڈھکی چھپی بات ہے؟ مگر آج تک ان سے فٹنس سرٹیفیکیٹ طلب نہیں کیا گیا‘کیمپس میں چلنے والی غیر قانونی پرائیویٹ ٹیکسی گاڑیاں ایکسائز ٹیکسیشن‘ پولیس اور انتظامیہ کی نظروں سے کیوں اوجھل ہیں؟ باعث حیرت امریہ بھی ہے کہ جب سے یونیورسٹی میں سکیورٹی گارڈ کی کمی پوری ہوگئی ہے‘تب سے ریس اور سیکریچنگ والی آؤٹ سائیڈر گاڑیوں اور شور برپا کرنیوالی موٹر سائیکلوں نے کیمپس کو آڑے ہاتھوں لے لیا ہے‘ دن بھر کیمپس کی سڑکوں پر ریس اور سکریچنگ کی لت کا سلسلہ جاری رہتا ہے ہر چوہراہے میں کھڑی پولیس تماشائی بنی رہتی ہے کیونکہ ان کے بقول پولیس کا کام صرف سکیورٹی فراہم کرنا ہے اور بس دوسری طرف کیمپس کی چاروں جامعات پر مشتمل ایک کیمپس کوارڈی نیشن کمیٹی بھی قائم ہے جس کی قیادت باری باری تفویض کی جاتی ہے مگر کمیٹی کی حالت دیکھئے کہ کیمپس کے عین قلب یعنی انجینئرنگ چوک سے پوسٹ مال چوک تک سڑک کیساتھ ساتھ دونوں جانب فٹ پاتھوں پر بھی پارکنگ قائم کی گئی ہے مگر پرسان حال کوئی نہیں‘یونیورسٹی ماڈل سکول اور کافی شاپ کے احاطے میں قائم سرکاری گرلز سکول کی طالبات انہی گاڑیوں‘اسی غیر قانونی پارکنگ کے ہاتھوں گویا پل صراط سے گزرتی ہوئی آتی جاتی ہیں مگر پولیس اور انتظامیہ کو کچھ نظر نہیں آتا کیمپس کی تو خیر بات ہی کچھ الگ سی ہے‘ پشاور یونیورسٹی کے خاکروب علی الصبح کی بجائے جب دن ڈھلے آٹھ بجے صفائی کیلئے آجاتے ہیں تو فضلے  کو اکٹھا کرکے ایک جگہ ڈھیر کرکے آگ لگا دیتے ہیں؟ یہ ایک ایسا ماحول دشمن تو کیا انسان دشمن کام بلکہ جرم ہے‘جس کی پاداش میں گرفتاری اور پرچہ کٹوانے جیسا اقدام ہونا چاہئے مگر نہ جانے ایسا کب ہوگا؟ بھکاریوں‘ جعلی مریض‘جعلی معذور اور پھرتیاں دکھانے والے کم عمر مہاجر لڑکوں نے کیمپس میں جس قدر افراتفری اور بدنظمی پھیلا رکھی ہے‘ حیرت ہے کہ آج تک اس کا انسداد ممکن نہ ہو سکا‘ کیمپس  میں سیاسی ٹوپیاں‘ سیاسی نعرے‘ بینرز‘ پینا فلیکس اور ریلیاں بھی نظر انداز ہونے کی چیز نہیں‘مگر کیا کہئے کہ کھلی چھوٹ دی گئی ہے؟ یہ جاننا غیر ضروری نہیں ہوگا کہ جب طلباء کو یونیورسٹی میں داخلہ  دیا جاتا ہے تو اس کیلئے کوئی شرائط یعنی یونیورسٹی کے قواعد و ضوابط اور ڈسپلن کی پاسداری کا کوئی حلف نامہ ہوتا ہے یا نہیں؟ جہاں تک اشیائے خوردونوش کی دکانوں میں انتظامیہ کی طرف سے نرخنامے سے مزین بینرز آویزاں کرنے کی بات ہے تو میرے خیال میں اس سے مصنوعی مہنگائی میں کوئی کمی نہیں آسکتی بلکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ یونیورسٹی کی پرائس اینڈ مارکیٹ مینجمنٹ کمیٹی خواب خرگوش  کے مزے لینا ترک کرکے میدان عمل میں اتر آئے اور مارکیٹوں پر چھاپے مار کر حقیقی صورتحال معلوم کرلیا کرے‘ ساتھ ہی ان کینٹینوں اور کیفے ٹیریا پر بھی ہاتھ ڈالنا نہ بھولیں جو فائیو سٹار ہوٹل کے ریٹ چارج کر رہے ہیں‘ مذکورہ مسائل کے حل کے اقدامات میں اگر پولیس تعاون کیلئے آگے نہیں آتی تو حکام بالا سے بھی رابطہ کیا جا سکتا ہے‘ساتھ ہی فارسٹ انسٹیٹیوٹ  اور پولیس نے گیٹ بندی کی جو ہٹ دھرمی اپنارکھی ہے اس کے توڑ کے بارے میں بھی سنجیدگی سے سوچنا ہوگا کیونکہ کیمپس میں آنیوالی گاڑیوں کی انٹری کیلئے محض ایک گیٹ کا مختص ہونا سمجھ سے بالاتر ہے۔

 

بشکریہ روزنامہ آج