حمیرا قرشی کا اصل نام حمیرا اعجاز ضیاء چشتی ہے قلمی نام حمیرہ قریشی ہے۔ آپ شاعرہ،بلاگر،نعت خواں اور ادیبہ ہیں۔ حمیرہ کی یہ نظم ''اے آدم کے بیٹے'' معاشرے کی اس کالی دیمک جسے جسم فروشی یا طوائف ازم بھی کہہ سکتے ہیں کے بارے میں ہے، جوآج کل کے اس زمانے میں مختلف صورتوں میں لاہور کی ہیرہ منڈی اور کراچی کی جونا مارکیٹ کے ساتھ ساتھ دیگر شہروں میں بھی نظر آتا ہے اوروہ ہوس پرست لوگ جو ان چیزوں کو فروغ دے رہے ہیں ان کو مخاطب کر کے لکھی گئی ہے۔دراصل شاعرہ اس سسٹم اور اس کو فروغ دینے والوں پر اعتراز کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔ اور آدم کے ان بیٹوں کو آواز دی ہے جو اس سسٹم کے خلاف آواز نہیں اٹھاتے اور صنف نازک کو تماشہ بناتے ہیں اور یہ کالی دیمک نسل در نسل پھیلائی جارہی ہے۔اسلام مکمل ظابطہء حیاٹ ہے جو عورت کے عزت و احترام کی بارہا تلقین کرتا ہے اور ہمارا آج کا معاشرہ ان اقدار کی نفی کرکے عورت کو ہوس پوری کرنے کا ذریعہ اور اشتہار بلکہ یوں کہا جائے کہ تماشہ بناتا ہے تو غلط نہ ہوگا۔ ایک عورت جس کے قدموں میں اللہ رب العزت نے جنت رکھی ہے اسے جسمانی لذت کا سامان بناکر رکھ دیا گیا ہے، سادہ سے الفاظ میں لکھی گئی یہ نظم ہمارے معاشرے سے ایک سوال ہے اور شاعرہ کو یقین ہے کہ ایک دن آدم کے بیٹے ہی اس کالی دیمک کو پھیلنے سے روکیں گے ان شا اللہ۔ حمیرہ قریشی کی آزاد نظم "سنو آدم کے اے بیٹے" ایک دل دہلا دینے والی تخلیق ہے جو معاشرتی ناہمواریوں اور انسان کی اخلاقی زوال پذیری کی عکاسی کرتی ہے۔ اس نظم میں شاعرہ مردانہ معاشرتی رویوں پر شدید تنقید کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں، جو خواتین کو صرف لذت اور ہوس کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ شاعرہ نے انتہائی موثر انداز میں انسانی رویوں کی گہرائی میں جاکر یہ پیغام دیا ہے کہ عورت کے ساتھ ظلم و استحصال کس طرح معاشرت میں پنپتا ہے اور اس کے کیسے خوفناک نتائج ہوتے ہیں۔ نظم کا بنیادی موضوع معاشرتی ناانصافی اور جنس کی بنیاد پر عورت کے ساتھ روا رکھا جانے والا غیر انسانی سلوک ہے۔ شاعرہ اس بات کو اجاگر کرتی ہیں کہ عورت کو معاشرتی طور پر جنسی اشیاء کی حیثیت دے دی گئی ہے، جہاں اسے کسی بھی وقت اس کی مرضی کے بغیر بیچا، خریدا اور جسمانی لذت کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ یہ نظم مردانہ معاشرے میں انسانی نفسیات کے تاریک پہلوؤں پر روشنی ڈالتی ہے اور مردانہ برتری کے تصور کو چیلنج کرتی ہے۔ حمیرہ قریشی نے اپنی نظم میں استعارات، تلمیحات اور تشبیہات کا استعمال کیا ہے، جو نظم کی گہرائی اور شدت کو مزید بڑھاتے ہیں۔ مثلاً، "شوخ تتلی کے پروں کو نوچتا ہے تو" ایک بہت ہی دل سوز استعارہ ہے جو عورت کے ساتھ مرد کے بے رحمانہ اور ظالمانہ سلوک کی عکاسی کرتا ہے۔ تتلی کا استعارہ عورت کی معصومیت اور شوخی کو ظاہر کرتا ہے، جسے مرد اپنے ظلم سے برباد کر دیتا ہے۔ "طبلے کی تھاپیں روح کی چیخیں دباتی ہیں" جیسے اشعار موسیقی اور رقص جیسے فنون کی آڑ میں کیے جانے والے عورت کے استحصال کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ شاعرہ نے اپنی نظم میں شدید طنزیہ انداز اختیار کیا ہے اور آدم کے بیٹے یعنی مرد کو مخاطب کر کے اسے اس کے جرائم کا آئینہ دکھانے کی کوشش کی ہے۔ نظم میں مرد کی بے حسی اور حیوانیت کی شدید الفاظ میں مذمت کی گئی ہے۔ "ترے انسان ہونے پر تجھے کچھ شرم آئے گی؟" یہ سوال براہ راست مرد کے اخلاقی زوال کو چیلنج کرتا ہے اور اس کی بے حسی پر گہرا طنز کرتا ہے۔ حمیرہ قریشی کی یہ نظم جذباتی سطح پر قاری کو جھنجھوڑتی ہے اور انہیں مجبور کرتی ہے کہ وہ سوچیں کہ انسانی معاشرت کس حد تک بے حس ہو کر رہ گئی ہے۔ نظم کے ہر لفظ میں شاعرہ مظلوم عورت کی زبان بن کر ان کے درد اور اذیت کو بیان کرتی ہے، جو اس حقیقت کی عکاسی کرتا ہے کہ خواتین کے ساتھ کیا ہو رہا ہے اور مردوں کی بے حسی کس حد تک پہنچ چکی ہے۔ نظم کے آخر میں شاعرہ کا یہ سوال کہ "کبھی کیا شرم آئے گی؟" مردانہ برتری کے نظام پر ایک زبردست وار ہے، جو انسان کو اپنے اعمال پر غور کرنے کی دعوت دیتا ہے۔ یہ نظم نسائی شعور کی بہترین مثال ہے، جہاں شاعرہ نے نہ صرف عورت کی مظلومیت کو پیش کیا ہے بلکہ مردانہ معاشرتی ڈھانچے پر بھی تنقید کی ہے۔ شاعرہ مرد کو ذمہ دار ٹھہراتی ہیں اور اس کے سامنے عورت کی وہ حقیقت بیان کرتی ہیں جسے معاشرہ نظرانداز کرتا ہے۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ حمیرہ قریشی کی نظم "سنو اے آدم کے بیٹے" نہایت موثر، طاقتور اور مزاحمتی تخلیق ہے، جو قاری کو سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ معاشرتی اصولوں اور رویوں میں اصلاح کی کتنی ضرورت ہے۔ یہ نظم جنسیت، لذت پرستی، اور اخلاقی زوال پر شاعرہ کی طرف سے ایک گہرا اور تنقیدی جائزہ بھی ہے۔ شاعرہ نے انتہائی سنجیدگی اور جذبے کے ساتھ عورت کی حالت زار کو بیان کیا ہے اور مرد کو اس کے اعمال کا ذمہ دار ٹھرایا ہے۔ اہل ذوق قارئین کے مطالعے کے لیے حمیرہ قریشی کی نظم پیش خدمت ہے۔ * سنو آدم کے اے بیٹے * سنو آدم کے اے بیٹے تمھیں معلوم تو ہوگا زمیں پہ اس خدا کی جب سحر سے رات ہوتی تو ان تاریک راتوں میں سجی سنوری دوکانیں شوق کی آباد ہوتی ہیں جہاں لذت کے ماروں کی جواں ہر رات ہوتی ہے جہاں حوا کے جذباتوں کی ہر پل موت ہوتی ہے جہاں خوشبو مہکتی ہے جہاں دل کو لبھانے کے سبھی سامان بکتے ہیں جہاں رنگینیاں تیری تجھے نیچے گراتی ہیں جہاں پر شوخ تتلی کے پروں کو نوچتا ہے تو جہاں طبلے کی تھاپیں روح کی چیخیں دباتی ہیں جہاں گھنگھرو کی چھم چھم میں کسی ننھی کلی یا پھول کا سہما ہوا پیکر تری نظروں کی آتش سے جھلستا ہے پگھلتا ہے جہاں جذبات بکتے ہیں جہاں احساس بکتے ہیں جہاں پر بن بیاہی دلہنیں ہر روز سجتی ہیں جہاں چہرے پہ تیرے کوئی بھی پردہ نہیں رہتا جہاں اخلاق کی ساری حدوں سے پار جاکر تو ہوس میں ڈوب جاتا ہے ہے انساں بھول جاتا ہے جہاں حوا کی بیٹی کی کوئی مرضی نہیں ہوتی انھیں بیچیں خریدیں یا کھلونوں کی طرح کھیلیں انھیں توڑیں مروڑیں اور جو بے جان ہوجائیں تو پھر بے جان جسموں کو کسی ندی یا نالے کی توہی زینت بناتا تری حیوانیت انسانیت سے جیت جاتی ہے کہ اس دو پل کے سودے میں تجھے راحت جو دیتی ہے وہ کتنا کرب سہتی ہے کبھی ویراں سی آنکھوں میں سبھی سپنوں کی ٹوٹی کرچیاں دیکھی بھی ہیں تم نے سنو ان کرچیوں کے زخم سے ناسور بنتے ہیں تمھیں معلوم ہے؟ ناسور یہ کیسے پنپتے ہیں کسی بے نام نطفے سے یہاں جو جنم لیتا ہے اسے تم کیا سمجھتے ہو؟ یہاں پیدا ہوئی لڑکی کبھی بیٹی نہیں ہوتی کسی کی ماں نہیں ہوتی بتا آدم کے اے بیٹے جسے کوٹھا تو کہتا ہے ترے کرتوت کے کارن سدا آباد رہتا ہے یہاں پیدا ہوا لڑکا کبھی بھائی نہیں کوئی بیٹا نہیں ہوتا یہی لڑکا جو کل ماں جائی کی بولی لگائے گا بہن کو بیچ کھائے گا عیاشی کی دوکانوں میں ہوس کے بیج سے جنمی تری اپنی ہی ہیٹی کل جسے تو مول لائے گا ترا بستر سجائے گی ترے بیٹے کو خود اس کی بہن کل جب رجھانے گی ترے انسان ہونے پر تجھے کچھ شرم آئے گے؟ کبھی کیا شرم آئے گی؟
36