69

قاضی فائز عیسیٰ سے بدسلوکی، دوسرے ججوں کے لئے وارننگ

بدھ کے روز جس شخص سے بھی ملاقات ہوئی پریشانی کے عالم میں اپنا فون کھول کر مجھے برطانیہ کے شہر لندن میں سپریم کورٹ کے حال ہی میں ریٹائر ہوئے چیف جسٹس صاحب کے ساتھ ہوئے سلوک کی ویڈیوز دکھانا شروع ہوجاتا۔ یہ سب دکھاتے ہوئے سوال یہ بھی پوچھا جاتا کہ برطانیہ میں رہنے والے پاکستانیوں کو کیا ہو گیا ہے۔

عرصہ ہوا کج بحثی سے جند چھڑانے کی عادت اپنانے کی کوشش کر رہا ہوں۔ صبر مگر اب جواب دے چکا ہے۔ فائز عیسیٰ کے ساتھ ہوئے سلوک کی ویڈیودکھاکر خود کو ”شائستگی اور تہذیب“ وغیرہ کے چوکیدار ثابت کرتے افراد کو یاد دلانے کو مجبور ہوگیا کہ لندن تو سمندر پار ہے۔ ہمارے اپنے شہر اسلام آباد میں ڈونٹ بیچنے والی ایک دکان ہے۔ آج سے چند روز قبل فائز عیسیٰ چیف جسٹس کے عہدے پر فائز ہوتے ہوئے بھی اپنی اہلیہ کے ہمراہ وہاں خریداری کے لئے تشریف لے گئے تھے۔ وہاں موجود سیلز مین نے نہایت ڈھٹائی سے ان کے ساتھ بدزبانی کی۔ بدزبانی اتنی ”برجستہ“ تھی کہ چند ہی لمحوں بعد اس کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی۔

میرے ناقص علم کے مطابق پاکستان کے فقط چند فیصدافراد ہی ڈونٹ نامی شے سے واقف ہیں۔ ”بیکری“ ہماری تہذیب کا حصہ نہیں رہی۔ تندور سے روٹی ، نان یا کلچہ نکال کر کھانے کے عادی ہیں۔ ڈونٹ کی وہ دکان جہاں فائز عیسیٰ کی بے عزتی ہوئی تھی مگر چند ہی لمحوں میں ایک ”مقدس“ مقام میں تبدیل ہو گئی۔ ہمارے شہر کے عاشقان عمران جن کی اکثریت خوش حال گھرانوں سے تعلق رکھتی ہے اور امریکی یا برطانوی یونیورسٹیوں کی تعلیم یافتہ ہے یا وہاں جانے کی خواہش مند طویل قطاریں لگا کر مذکورہ دکان سے ڈونٹ کو ایسے خریدنا شروع ہو گئی جیسے درباروں سے لنگر طلب کیا جاتا ہے۔ خود کو ”مہذب“ ثابت کرنے سے مگر ہم باز نہیں آتے۔ اس حقیقت کو چھپانے کی کوشش کرتے ہیں کہ بطور قوم ہمیں دوسرے افراد کی ذلت و رسوائی سے لطف محسوس ہوتا ہے۔

”توا“ لگانا پنجابی زبان کا روزمرہّ ہے۔ چند دوست مل بیٹھیں تو جانوروں کے غول کی طرح اکٹھے ہو کر وہاں موجود ذہنی اور جسمانی اعتبار سے کسی کمزور شخص کے اوپر طنز بھرے فقرے اچھالنا شروع ہو جاتے ہیں۔ جس کا ”توا“ لگ رہا ہوتا ہے وہ غصہ میں کھڑا ہو جائے اور ہمیں احساس ہو کہ وہ ”توا“ لگانے والوں میں سے چند ایک کو اچھی بھلی ”کُٹ“ لگا سکتا ہے تو ہم میں سے کوئی ”سنجیدہ“ شخص ناراض ہوئے فرد کو سمجھانا شروع ہو جائے گا کہ وہ ”دوستوں کی محفل“ میں بیٹھا ہے۔ وہاں موجودہر شخص اس سے پیار کرتا ہے۔ ہنسی مذاق سے اتنا غضب ناک ہونے کی ہرگز ضرورت نہیں۔

فائز عیسیٰ کے ساتھ لندن میں جو ہوا وہ ہرگز اچانک نہیں ہوا ہے۔ ان کی لندن آمد سے قبل ہی لندن میں مقیم ایک مشہور انگریزی اخبار کی نمائندہ نے خبر دی تھی کہ جس روز وہ ایک تقریب میں شرکت کے لئے جائیں گے اس کے باہر تحریک انصاف کے کارکن جمع ہوں گے۔ فائزعیسیٰ کی تذلیل ایک حوالے سے ”اشتہار“ لگانے کے بعد عمل میں لائی گئی تھی۔ لندن میں مقیم چند پاکستانی اگر واقعتا ان کی تذلیل روکنے کو فکر مند ہوتے تو کمیونٹی کو اس مقصد کی خاطر متحرک کیا جا سکتا تھا۔ لندن میں مقیم پاکستانی مگر ”کمیونٹی“ کے تصور سے ناآشنا ہیں۔ وہاں تو مسلکی بنیادوں پر مساجد چھیننے کا رواج بھی کئی برسوں سے جاری ہے۔

1981ء سے چند برس قبل تک اکثر لندن جاتا رہا ہوں۔ مجھے وہ شہر بنیادی طورپر عجائب گھروں، کتب خانوں اور تھیٹر کی وجہ سے بہت پسند ہے۔ وہاں جاﺅں تو سڑکوں پر اکیلے چلنا میری ترجیح ہوجاتی ہے۔ 2007ء سے مگر تواتر کے ساتھ پاکستان کے مختلف چینلوں پر نمودار ہونا شروع ہو گیا تو پیدل چلنے کی لذت سے محرومی کا سامنا کرنا پڑا۔ چند قدم چلتا تو کوئی نوجوان میرا نام لے کر پکارتا۔ میں پیچھے مڑ کر دیکھتا تو وہ اپنا تعارف کروائے بغیر یہ پوچھنا شروع ہو جاتا کہ ”پاکستان کب ٹھیک ہو گا۔“ بدقسمتی سے میرے پاس اس ضمن میں کوئی نسخہ موجود نہیں ہے۔ ربّ سے دعا مانگنے کا مشورہ دیتا۔ بتدریج سرِراہ ملاقاتوں میں سلفی لینے والے بھی درآنے لگے۔ تنگ آکر میں نے پیدل چلنا چھوڑ دیا۔ اب لندن سے دور آباد چھوٹے دیہاتوں میں کہیں جا کر یہ شوق پورا کرتا ہوں۔ اتفاقاً میں اپنی شکل وصورت کی وجہ سے ایرانی ہونے کا ڈرامہ بھی لگاسکتا ہوں۔ آپ سے کیا پردہ لندن کی سڑکوں پر چلتے ہوئے 2015ء میں کئی بار میں نے جعلی فارسی بول کر یہ ثابت کر دیا کہ میں وہ ”نصرت جاوید“ نہیں جس کے ساتھ وہ سیلفی بنانا چاہتے ہیں۔

فائز عیسیٰ کے ساتھ جو ہوا۔ اچھا نہیں ہوا۔ تحریک انصاف مگر اس کے ذریعے ہماری عدالتوں کو یہ پیغام دینے میں کامیاب رہی ہے کہ اس کے ججوں کو سکون درکار ہے تو ان کے دلدار کو ”گڈ ٹو سی یو“ کہنا ہو گا۔ عدالت میں بیٹھے لوگوں کو اپنی عزت بچانا ہے تو جلد از جلد عمران خان کے خلاف مقدمات نمٹائیں۔ ویسے بھی ان کے خلاف بنائے مقدمات کا جواز نہیں کیونکہ سپریم کورٹ ہی کے ایک عزت مآب جج جناب ثاقب نثار نے انہیں صادق اور امین ٹھہرایا تھا۔ سپریم کورٹ سے ”صادق اور امین“ کی سند پانے والے عمران خان کی بدعنوانی کے الزامات کے تحت گرفتاری سادہ لوح عاشقان عمران کو ہضم نہیں ہوتی۔ لندن میں فائز عیسیٰ کے ساتھ جو ہوا وہ ان کی براہِ راست بے عزتی بھی تھی مگر بنیادی طور پر یہ سپریم کورٹ اور دیگرعدالتوں میں بیٹھے ججوں کے لئے ایک وارننگ بھی تھی۔ امید ہے اس وارننگ پر عمل کرتے ہوئے عزت مآب جج صاحبان ”گڈٹو سی یو“ کی روایت کو پروان چڑھانا شروع ہو جائیں گے۔

بشکریہ نواےَ وقت