462

مولاناصاحب،جیت گئے

صفیہ شاہ میری اسٹوڈنٹ تھی،ہنگو کی ایک پٹھان فیملی سے تعلق رکھتی تھی،ان کے والد اسلام آباد میں کسی سرکاری ادارے میں ملازم تھے، مذہبی پس منظر رکھنے والا ایک سادہ سا خاندان،پشتون ثقافت و روایات سے جُڑا تھا۔اسلام آباد کے جدید ماحول میں رہنے کے باوجود سادگی اور مذہب سے لگاوٗ ان کا خاصا تھا۔کلاس کے دوران کبھی کبھی مذہبی موضوعات اور شخصیات پر بھی بات ہو جاتی تھی،اس دوران ایک دن صفیہ بہت جنون اور اشتیاق سے پوچھنے لگی،سر آپ مولانا طارق جمیل کو جانتے ہیں؟ ،سال شاید ۵۰۰۲ء تھا۔اس وقت سوشل میڈیا کا زمانہ نہیں تھا۔انٹرنیٹ کی سہولت بھی مہنگی تھی اس لئے محدود تھی۔وہ لوگ بھی ٹیپ ریکارڈر پر مولاناطارق جمیل کے خطابات سنا کرتے تھے۔وہ مولانا طارق جمیل سے بہت متاثر تھی،جب میں نے اسکو نفی میں جواب دیا کہ میں مولانا کو نہیں جانتا،اس نے حیرت سے ایسے آنکھیں کھولیں،جیسے کہہ رہی ہو،سر آپ کو تو پھرکچھ پتہ ہی نہیں ہے؟میں سمجھا شاید کوئی پٹھان مولوی صاحب ہونگے،جن کے خطابات بچی گھر میں سنتی ہو گی،متاثر ہے۔مولانا صاحب کی بہت تعریفیں کیں،بتانے لگی کہ بہت بڑے عالم دین ہیں،عمدہ خطیب اور مبلغ ہیں۔بہرحال یہ پہلا موقع تھا،جب میں مولانا سے متعارف ہوا،لیکن پھر بھی میں نے ان کو سننے اور جاننے کی بالکل کوشش نہیں کی،کیونکہ میں صرف خطیبانہ واعظ سے بالکل متاثر نہیں ہوتا،مجھے وہ علماء کرام ہمیشہ متاثر کرتے ہیں جو اتحاد امت اور اسلام کی جدید تقاضوں کے مطابق تشریح کرتے ہیں۔وہ علماء کرام جو علم و حکمت کے دائرے میں اسلام کو عالمی کینوس پر دکھاتے ہیں،وہ حقیقی معنوں میں اسلام اور مسلمان کے تشخص کے حقیقی پیامبر ہوتے ہیں۔ایک دن اس نے مجھے ان کا کیسیٹ دیا،تاکید کی کہ سُنیں اور فیضیاب ہوں۔ان کا انداز اچھا،لہجہ خوبصورت نشیب و فراز لیے ہوئے،پہلے سے سنے واقعات کے حوالے کچھ خاص علمی تاثر نہ چھوڑ سکے۔میں نے کہا بیٹا،بہت اچھے مولانا ہیں،ان کا خطیبانہ انداز مجھے بہت اچھا لگاہے۔لیکن اسکے بعد میں نے انکو پھر سوشل میڈیا کے انقلاب کے بعد ہی سنا،ان کو جانا،ان کے خیالات،اعمال اور اندازتبلیغ سے اختلاف بھی کیا۔
مولانا طارق جمیل کی شخصیت تمام اختلافات کے باوجود بھی قابل احترام رہی،انکا احترام تو بلندیوں کو چھونے لگا،جب وہ اتحاد امت کا پیغام دینے لگے،دیگر مسالک کے علماء کرام اور انکے مساجد و مدارس میں جانے لگے،ان کے اختلاف کے باوجود ایک دوسرے کا احترام کرنے لگے،اس دن سے مولانا صاحب عام سطح سے اٹھ کر خاص مقام حاصل کر گئے۔جب آپ تھوڑا اونچا مقام حاصل کر لیتے ہیں تو آپ کے حاسدین پھر موقع کی تلاش میں رہتے ہیں۔مولانا صاحب سیاست،صحافت،بیوروکریسی،شوبز میں مقبول ہیں،اپنا اثرو رسوخ رکھتے ہیں۔یہ ان کا انداز تبلیغ ہے۔لیکن مجھے ان کے اس انداز سے اختلاف رہا ہے،ایسے محسوس ہوتا کہ ”مشہوری پروگرام“ چل رہا ہے۔
لیکن یہ ان کا بنیادی اور جمہوری حق تھا،ہے اور رہے گا کہ وہ اپنے مشن تبلیغ کا کونسا انداز اختیار کرتے ہیں،یہ میرا حق ہے کہ میں اسے پسند کروں،یا نہ کروں۔
چند دنوں سے میڈیا اور سوشل میڈیا میں بھونچال کی سی صورتحال ہے،جب مولانا نے گفتگو کے دوران کہہ دیا کہ ہم لوگ بحیثیت قوم جھوٹے،بے شرم،بے حیا ہیں۔پھر یہ بھی کہہ دیا کہ عالمی میڈیا اور پاکستان کا میڈیا بھی جھوٹا ہے۔مولانا نے وضاحت بھی کر دی کہ اسطرح عام گفتگو میں سارے سے مراد اکثریت لیا جاتا ہے۔لیکن میں پھر بھی اپنے الفاظ پر معافی کا خواستگار ہوں۔میں سرنڈر کرتا ہوں،مجھے ایسے الفاظ کا استعمال نہیں کرنا چاہئے تھا۔لیکن ہمارے میڈیا کی تو دم پر تو جیسے پاوٗں آگیا،انہوں نے مولانا کی تضحیک کو اپنا مشن بنا لیا۔
اب آتے ہیں ان سوالات کی طرف کہ اینکرز صاحبان کو واقعی یہ تکلیف ہوئی کہ انھیں جھوٹا کیوں کہا؟کیا اینکرز کو یقین ہے میڈیا جھوٹ نہیں بولتا؟پھر اہم نقطہ کہ مولانا کو معافی مانگنی چاہئے تھی؟
میرا ”گمان“ ہے کہ ان اینکرز کو یقین ہے کہ میڈیا میں جھوٹ بولا جاتا ہے۔انہیں اس کی کوئی پرواہ نہیں کہ کوئی ان کو جھوٹا کہے۔انہیں اس کی پرواہ ہوتی تو رانا ثنا ئاللہ نے انکو جو کہا وہ الفاظ یہاں لکھے نہیں جا سکتے،کہیں کوئی احتجاج سامنے آیا؟ کسی نے چُوں بھی کی؟ان کو اپنی عزت کا خیا ل ہو تو دیانتدارانہ تجزیے کریں،ملکی مفاد پر تبصرے کریں۔روز گالیاں سوشل میڈیا پر کھاتے ہیں،لیکن ڈنڈی مارنا جاری رکھتے ہیں۔کیوں کہ ان کا ایجنڈا اپنے آقاوٗں کے اشاروں پر چلنا ہے،بلکہ اس تنقید کو کیش کراتے ہیں۔جب مولانا نوازشریف کو ملتے تھے تو یہی لوگ ان کے اس عمل کی تائید کرتے تھے،عمران خان کے ساتھی تنقید کرتے تھے۔سوال یہ بنتا ہے کہ مسئلہ کیا ہے کہ میڈیا اور اینکرز ابھی تک مولانا کے پیچھے پڑے ہیں،بلکہ مولانا کے حاسدین بھی کود پڑے ہیں۔اپنے مسلک کے لوگ بھی لٹھ لے کر مولانا کے پیچھے چڑھ گئے ہیں۔مولانا نے مسلکی اختلاف سے اوپر اُٹھنے کا پیغام دیا،جس سے ان کی نفرت کی بنیاد پر چلتی دکانیں بند ہونے کا خدشہ ہو سکتا ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ اس طوفان بدتمیزی کے پیچھے ایک ہی محرک ہے،وہ محرک بغض عمران خان ہے۔بغض عمران خان اب قاعدہ غصے و نفرت کی شکل اختیار کر چکا ہے۔بغض عمران خان جس کاہلکا پھلکا اظہار تو موصوف صاحبان اپنے کالمز،پروگرامز میں کرتے رہتے تھے لیکن غضبناک اظہار کا موقع مولانا طارق جمیل نے فراہم کردیا۔عمران خان کے خلاف بغض کیوں؟ یہ پوری قوم جان چکی ہے۔مولانا سے غلطی یہ ہوئی انہوں نے یہ باتیں عمران خان کی موجودگی میں کیں،اگر یہ سب کچھ نواز شریف کی موجودگی میں بولتے تو یہ صاحبان ”دندیاں“ نکال رہے ہوتے۔مولانا نے معافی مانگ کر انہیں مزید طیش دلا دیا۔
کیا مولانا کو معافی مانگنی چاہئے تھی؟انہوں نے ٹھیک کیا؟میں سمجھتا ہوں انہوں نے بلکل ٹھیک کیا۔کیونکہ مکالمہ ہمیشہ تہذیب کے دائرے میں ہوتا ہے؟ دوسرا فریق مکالمے کے موڈ میں نہیں بلکہ اس موقع کو اظہار نفرت کے لئے استعمال کرنا چاہتا تھا۔مولانا نے کمال دانشمندی سے ان کو انتقام،غیض و غضب میں لوٹ پوٹ چھوڑ کر دوسرا راستہ اختیار کر لیا۔انہوں نے حقییقی طور پر علماء کا طریق چنا۔مولانا اگر ان کے جھوٹ پیش کرتے تو مزید تلخ کلامی ہو تی۔کیا علماء کرام کے ساتھ پہلی بار ہوا؟ ملاوٹ،جھوٹ،دونمبری،بے ایمانی کیا ہماشرے میں پایا نہیں جاتا؟جناب اسطرح کی حرکات سے مولانا کے احترام میں کمی نہیں آسکے گی،سوشل میڈیا پر دیکھ لیا ہوگا کہ عوام کیا مطالبہ کر رہے ہیں؟مولانا طارق جمیل،ڈاکٹر جاوید غامدی،ڈاکٹر طاہر القادی،مولانا اسحاق مرحوم ایسے معتبر و محترم نام ہیں،جو حقیقی معنوں میں اسلام کی خدمت کر رہے ہیں۔ایسے چمکدار چاند ہیں،ان پر تھوکنے کی کوشش میں خود ہی شرمندہ ہونگے۔اینکر اور صحافی کا کام رہنمائی،تربیت اور اصلاح ہے اسی سے ساکھ بنتی ہے۔لیکن آپ لوگوں کی دکانیں سرشام لگ جاتی ہیں،اس میں صرف شرارت،لڑائی جھگڑا،بہتان بازی؟ کیا اس طرح ان دکانوں کا اعتماد قائم رہے گا؟کیا ایسابے وقعت رویہ تکریم و توقیر کا سبب بن سکے گا؟
میں سمجھتا ہوں،مولانا نے قرآن کی اس آیت کا مطلب عمل کی شکل میں چند لمحوں میں قوم کو سمجھا دیاہے”جاہلوں کو سلام کر کے نکل جاوٗ“۔پوچھتے ہیں کہ ہم نے کبھی جھوٹ بولا؟ کتنی بار حکومت گرنے کی خبریں دیں؟ حکومت گری؟جھوٹی ہوئی نا خبر؟جھوٹی خبریں دینے پر کبھی معافی مانگی؟
مولانا نے کمال مہارت اور حکمت سے ایک تجربہ کار بلے بازکی طرح اپنے معافی کے بلے سے غصے اور نفرت سے بھر پور گیندبازکی تیزترین بال کو ہلکا سا ایسے موڑ دیا ہے کہ بال اسکے اپنے زور سے ہی باوٗنڈری پار کر گئی ہے،مولانا جیت گئے ہیں،مولانا جیت مبارک ہو۔صبرو استقامت مبارک ہو۔

نوٹ : یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے، ادارے کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں

  •  

بشکریہ اردو کالمز