260

عالمی یوم مزدور اور ہمارا رویہ

   یکم مئی مزدور ڈے عالمی طور پر ہر سال جوش و جذبہ سے منایا جاتا ہے اس دن کے منانے کامقصد امریکہ کے شہر شکاگو کے محنت کشوں کی لازوال قربانیوں کی یاد تازہ کرنے اور محنت کشوں کے حقوق کے لیے آواز بلند ہے ۔حالیہ کورونا وائرس کی وباءکے پیش نظر یہ دن لاک ڈاون کی نظرہوچکا ہے۔ حسب روایت اس بار مزدوروں کے جلسے جلوس اور ریلیاں تو نہ نکل سکیں البتہ مزدور راھنماوں نے اپنے پیغامات کے ذریعے اس دن کے حوالے سے اپنے مزدور بھائیوں کی یاد کو تازہ رکھا۔ صدر آل پاکستان فیڈریشن آف لیبر محمد اسلم عادل نے اپنے ایک پیغام میں کہا ہے کہ وہ حکومت کی طرف سے لاک ڈاون کی پابندی کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اپنے مزدور بھائیوں تک اپنا وڈیو پیغام بھیج رہے ہیں کہ 1886ء میں جس مقصد کے لیے شکاگو کے مزدوروں نے قربانیاں دی تھیں، پاکستان میں اس وقت مزدوروں کے حالات اس سے بھی ابتر ہیں انہوں نے بتایا کہ ان کا تعلق تعمیراتی کمپنیوں کے ساتھ ھے اور پاکستان میں زیادہ تر تعمیراتی کمپنیاں چائنا کی کام کر رہی ہیں جو ہمارے لیبر قوانین پر عمل نہیں کرتیں۔پاکستان میں تعمیراتی کمپنیوں میں مزدور بہت پریشان ہیں حکومت کو اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے انہوں نے مزدوروں پر زور دیا کہ وہ جس ادارے میں بھی کام کر رہے ہیں وہاں لیبر یونین کی رجسٹریشن کو یقینی بنائیں بصورت دیگر ان کے حقوق یوں ہی پامال ہوتے رہیں گے انہوں نے مزدوروں کو آپس میں اتحاد و یکجہتی کا مظاہرہ کرنے پر زور دیا ہے ۔ 
    پاکستان ریلوے یونین کے راھنما رانا محمد اکرم نے بھی مزدوروں کے نام ایک پیغام میں کہا ہے کہ یکم مئی شکاگو کے مزدوروں کی یاد ہی نہیں بلکہ یہ مزدوروں کے لیے ایک حوصلے اور عزم کا دن ہے جو ہمیں یہ درس دیتا ہے کہ حقوق خیرات میں کوئی نہیں دیتا بلکہ اس کے لیے بھرپور جدوجہد کرنی پڑتی ہے اس کے لیے ہمارے مزدور سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جائیں اور ہر سطح پر اتحاد کا مظاہرہ کریں وہ وقت دور نہیں جب مزدور کو ان کا جائز مقام مل کے رہے گا ۔انہوں نے کہا شکاگو کے مزدوروں نے پھانسی گھاٹ کی طرف جاتے ہوئے جو تاریخی الفاظ کہے وہ سنہرے حروف سے تاریخ نے لکھے ہیں " تم ہمیں جسمانی طور پر ختم کرسکتے ہو لیکن ہماری آواز نہیں دبا سکو گے " پھر وقت نے ثابت کیا کہ جیت مزدور کا مقدر ٹھہری ۔
    بے شک مزدوروں نے ہر دور میں قربانیوں کی ایک تاریخ رقم کی اس کے باوجود مزدور کو اس کا وہ مقام میسر نہیں جس کا وہ حقدار ہے 
آج بھی ہمارا معاشرہ مزدور کو حقارت کی نظر سے دیکھتا ھے کیونکہ ہمارا معاشرہ مکمل طور پر مادی معاشرہ ہوگیا ہے ہر شے پیسے کے گرد گھومتی ہے یہاں تک کہ انسانی شرف بھی زر و سیم ہی سے ناپا جاتا ہے جس کے پاس جس قدر دولت زیادہ ہے عشرت کے سامان وافر ہیں نوکر چاکر اور روپے پیسے کی ریل پیل ہے وہی قابل عزت سمجھا جاتا ہے خواہ وہ دینی قدروں سے کتنا ہی دور کیوں نہ ہو اور اخلاقی لحاظ سے کتنا ہی کمتر کیوں نہ ہو اگر حقیقت پسند نگاہوں سے دیکھا جائے تو ایک مزدور عظیم ہے کیوں کہ وہ کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلاتا بدعنوانی کا مرتکب نہیں ہوتا وہ ایک خوددار انسان ہے وہ کاروبار میں سچ اور جھوٹ اور جھوٹ کو سچ نہیں بناتا وہ کسی کو دھوکا نہیں دیتا اپنا خون پسینہ ایک کرتا ہے اور اپنے بال بچوں کا پیٹ پالتا ہے۔ ایسے ہی لوگوں کی عظمت مسلمہ ہوتی ہے اور ایسے لوگ اس قابل ہیں کہ ان کے ہاتھوں کو بوسہ دیا جائے کیونکہ خالق کائنات بھی ایسے انسانوں سے پیار کرتا ہے یہی وہ لوگ ہیں جن کی محنت سے تہذیب کا چہرہ نکھرتا ہے معاشرے میں حسن آتا ہے اور امیروں کو آسائش کی نعمتیں ملتی ہیں۔ بظاہر ایک امیر شخص کی زندگی پر کشش محسوس ہوتی ہے یوں لگتا ہے کہ وہ سونے چاندی میں کھیلتا ہے، زرق برق زندگی گزارتا ہے اور اطلس و کمخواب میں تلتا ہے ،مگر ذرا قریب ہو کر دیکھا جائے تو اس کی زندگی قدرے درد ناک ہوتی ہے کہ آپ اس کا اندازہ نہیں کرسکتے ایک آدمی اگر حلال روزی کمائے تو اس کی زندگی میں آسودگی اور آسائش تو آ سکتی ہے تعیش اور اسراف نہیں۔ جتنے لوگ عیش و عشرت کے دلدادہ ہوتے ہیں اور اسراف ان کی فطرت ہوتا ہے ان کی زندگی بدعنوانیوں سے عبارت ہوتی ہے نتیجہ معلوم کہ یہ بدعنوانیاں ان کے شب و روز سے اطمینان جیسی دولت چھین لیتی ہیں اور وہ ذہنی مریض ہو جاتے ہیں اور ان کے جسم کی دیواریں کھوکھلی ہو جاتی ہیں انھیں نہ دن کو چین ہوتا ہے نہ رات کو آرام۔دوسری طرف مزدور دن بھر کی مشقت کے بعد چند پیسے لے کر سادہ خوراک کھاتا ہے اپنے بچوں کو کھلاتا ہے اور مٹی کے گھروندے میں سکون سے سو جاتا ہے۔سکون و مسرت کی اس ننھی منی دنیا پر دولتمندوں کے ہزار ایوان قربان کیے جاسکتے ہیں کیونکہ وہ زندگی جو سکون سے خالی ہے وہ ایک ایسا عذاب ہے جو بہر نوع جہنم سے بھی بدتر ہے مزدور کی محنت سے زندگی میں رونق ،حسن و رعنائی ہے اس کے دم سے جنگل،گلزار اور ویرانے بہار آفریں ہیں۔ 

                جس کا ہر قطرہ ہے دنیا کے لیے آب حیات 
                چشمہ پھوٹا ہے وہ مزدور کی پیشانی سے
    خدا کرے کہ ہم مزدور کی دل سے قدر کرنا سیکھیں اس کی عظمت کا احترام کریں اور معاشرے میں اسے قدر و منزلت کی نگاہوں سے دیکھیں کیونکہ وہ اپنی محنت شاقہ اور مشقت کی وجہ سے اللہ تعالی کے بہت قریب ہے اور یہی حقیقی عظمت و رفعت ہے مگر ہم تو اسے حقیر اور کمتر سمجھتے ہیں اور اسے مزدوری بھی یوں دیتے ہیں جیسے اس پر احسان کررہے ہوں ۔ھمیں ایسے رویوں کو بدلنے کی ضرورت ہے جو ہمیں پستی کی طرف لے کر جا رہے ہیں ہمیں اسلام نے جو مساوات کا درس دیا ہے اس پر عمل پیرا ہونے میں ہی ہماری دنیا اور آخرت میں بھلائی ہے۔ثمینہ گل نے کیا خوب کہا کہ     
                    سستائے جس کے سائے میں کچھ دیر بیٹھ کر 
                    ایسا شجر بھی ہو کوئی مزدور کے لیے
 

بشکریہ اردو کالمز